الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Military Expeditions
48. باب مَا جَاءَ فِي وَصِيَّتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقِتَالِ
48. باب: جہاد کے سلسلے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وصیت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1617
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث اميرا على جيش، اوصاه في خاصة نفسه بتقوى الله ومن معه من المسلمين خيرا، وقال: " اغزوا بسم الله، وفي سبيل الله قاتلوا من كفر بالله، ولا تغلوا، ولا تغدروا، ولا تمثلوا، ولا تقتلوا وليدا، فإذا لقيت عدوك من المشركين، فادعهم إلى إحدى ثلاث خصال او خلال، ايتها اجابوك فاقبل منهم وكف عنهم وادعهم إلى الإسلام والتحول من دارهم إلى دار المهاجرين، واخبرهم انهم إن فعلوا ذلك، فإن لهم ما للمهاجرين وعليهم ما على المهاجرين، وإن ابوا ان يتحولوا، فاخبرهم انهم يكونوا كاعراب المسلمين يجري عليهم ما يجري على الاعراب، ليس لهم في الغنيمة والفيء شيء إلا ان يجاهدوا، فإن ابوا، فاستعن بالله عليهم وقاتلهم، وإذا حاصرت حصنا فارادوك ان تجعل لهم ذمة الله وذمة نبيه، فلا تجعل لهم ذمة الله ولا ذمة نبيه، واجعل لهم ذمتك وذمم اصحابك، لانكم إن تخفروا ذمتكم وذمم اصحابكم خير من ان تخفروا ذمة الله وذمة رسوله، وإذا حاصرت اهل حصن فارادوك ان تنزلهم على حكم الله، فلا تنزلوهم، ولكن انزلهم على حكمك، فإنك لا تدري اتصيب حكم الله فيهم ام لا او نحو هذا "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن النعمان بن مقرن، وحديث بريدة حديث حسن صحيح،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ، أَوْصَاهُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، وَقَالَ: " اغْزُوا بِسْمِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تُمَثِّلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا، فَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلَالٍ، أَيَّتُهَا أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ وَادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ وَالتَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ، فَإِنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، وَإِنْ أَبَوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُوا كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يَجْرِي عَلَيْهِمْ مَا يَجْرِي عَلَى الْأَعْرَابِ، لَيْسَ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَالْفَيْءِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا، فَإِنْ أَبَوْا، فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ عَلَيْهِمْ وَقَاتِلْهُمْ، وَإِذَا حَاصَرْتَ حِصْنًا فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ نَبِيِّهِ، فَلَا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَلَا ذِمَّةَ نَبِيِّهِ، وَاجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ وَذِمَمَ أَصْحَابِكَ، لِأَنَّكُمْ إِنْ تَخْفِرُوا ذِمَّتَكُمْ وَذِمَمَ أَصْحَابِكُمْ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ، فَلَا تُنْزِلُوهُمْ، وَلَكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ حُكْمَ اللَّهِ فِيهِمْ أَمْ لَا أَوْ نَحْوَ هَذَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ، وَحَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر پر امیر مقرر کرتے تو اسے خاص اپنے نفس کے بارے میں سے اللہ سے ڈرنے اور جو مسلمان ان کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتے تھے، اس کے بعد آپ فرماتے: اللہ کے نام سے اور اس کے راستے میں جہاد کرو، ان لوگوں سے جو اللہ کا انکار کرنے والے ہیں، مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، عہد نہ توڑو، مثلہ نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو اور جب تم اپنے مشرک دشمنوں کے سامنے جاؤ تو ان کو تین میں سے کسی ایک بات کی دعوت دو ان میں سے جسے وہ مان لیں قبول کر لو اور ان کے ساتھ لڑائی سے باز رہو: ان کو اسلام لانے اور اپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دو، اور ان کو بتا دو کہ اگر انہوں نے ایسا کر لیا تو ان کے لیے وہی حقوق ہیں جو مہاجرین کے لیے ہیں اور ان کے اوپر وہی ذمہ داریاں ہیں جو مہاجرین پر ہیں، اور اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کریں تو ان کو بتا دو کہ وہ بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان کے اوپر وہی احکام جاری ہوں گے جو بدوی مسلمانوں پر جاری ہوتے ہیں: مال غنیمت اور فئی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں، پھر اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کریں تو ان پر فتح یاب ہونے کے لیے اللہ سے مدد طلب کرو اور ان سے جہاد شروع کر دو، جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ اور اس کے نبی کی پناہ دو تو تم ان کو اللہ اور اس کے نبی کی پناہ نہ دو، بلکہ تم اپنی اور اپنے ساتھیوں کی پناہ دو، (اس کے خلاف نہ کرنا) اس لیے کہ اگر تم اپنا اور اپنے ساتھیوں کا عہد توڑتے ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑو، اور جب تم کسی قلعے والے کا محاصرہ کرو اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے فیصلہ پر اتارو تو ان کو اللہ کے فیصلہ پر مت اتارو بلکہ اپنے فیصلہ پر اتارو، اس لیے کہ تم نہیں جانتے کہ ان کے سلسلے میں اللہ کے فیصلہ پر پہنچ سکو گے یا نہیں، آپ نے اسی طرح کچھ اور بھی فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں نعمان بن مقرن رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجہاد 2 (1731)، سنن ابی داود/ الجہاد 90 (2612)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 38 (2858)، (تحفة الأشراف: 1929)، و مسند احمد (5/352، 358)، سنن الدارمی/السیر 5 (3483) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اگر کفار و مشرکین غیر مشروط طور پر بغیر کسی معین شرط اور پختہ عہد کے اپنے آپ کو امیر لشکر کے حوالہ کرنے پر تیار ہوں تو بہتر، ورنہ صرف اللہ کے حکم کے مطابق امیر سے معاملہ کرنا چاہیں تو امیر کو ایسا نہیں کرنا ہے، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اللہ نے ان کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے، یہ حدیث اصول جہاد کے بڑے معتبر اصولوں پر مشتمل ہے جو معمولی سے غور وتامل سے واضح ہو جاتے ہیں۔ حدیث میں موجود نصوص کو مطلق طور پر اپنانا بحث و مباحثہ میں جانے سے کہیں بہتر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2858)
   جامع الترمذي1617عامر بن الحصيباغزوا بسم الله وفي سبيل الله قاتلوا من كفر بالله ولا تغلوا ولا تغدروا ولا تمثلوا ولا تقتلوا وليدا
   جامع الترمذي1408عامر بن الحصيباغزوا بسم الله وفي سبيل الله قاتلوا من كفر اغزوا ولا تغلوا ولا تغدروا ولا تمثلوا ولا تقتلوا وليدا
   سنن أبي داود2613عامر بن الحصيباغزوا باسم الله وفي سبيل الله وقاتلوا من كفر بالله اغزوا ولا تغدروا ولا تغلوا ولا تمثلوا ولا تقتلوا وليدا
   المعجم الصغير للطبراني570عامر بن الحصيباغزوا بسم الله وفي سبيل الله قاتلوا من كفر بالله ولا تغلوا ولا تغدروا ولا تجبنوا ولا تقتلوا وليدا ولا امرأة ولا شيخا كبيرا وإذا حاصرتم أهل قرية أو حصن فلا تعطوهم ذمة الله وذمة رسوله ولكن أعطوهم ذممكم وذمم آبائكم فإنكم إن تخفروا بذممكم وذمم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1617  
´جہاد کے سلسلے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وصیت کا بیان۔`
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر پر امیر مقرر کرتے تو اسے خاص اپنے نفس کے بارے میں سے اللہ سے ڈرنے اور جو مسلمان ان کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتے تھے، اس کے بعد آپ فرماتے: اللہ کے نام سے اور اس کے راستے میں جہاد کرو، ان لوگوں سے جو اللہ کا انکار کرنے والے ہیں، مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، عہد نہ توڑو، مثلہ نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو اور جب تم اپنے مشرک دشمنوں کے سامنے جاؤ تو ان کو تین میں سے کسی ایک بات کی دعوت دو ان میں سے جسے وہ مان لیں قبول کر لو اور ان کے سات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1617]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
یعنی اگر کفار ومشرکین غیر مشروط طور پر بغیر کسی معین شرط اور پختہ عہد کے اپنے آپ کو امیر لشکر کے حوالہ کرنے پر تیار ہوں تو بہتر،
ورنہ صرف اللہ کے حکم کے مطابق امیر سے معاملہ کرناچاہیں تو امیر کو ایسا نہیں کرنا ہے،
کیوں کہ اسے نہیں معلوم کہ اللہ نے ان کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے،
یہ حدیث اصول جہاد کے بڑے معتبر اصولوں پر مشتمل ہے جو معمولی سے غور وتامل سے واضح ہوجاتے ہیں۔
حدیث میں موجود نصوص کو مطلق طورپر اپنانا بحث ومباحثہ میں جانے سے کہیں بہتر ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1617   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1408  
´مردہ کے مثلے کی ممانعت کا بیان۔`
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لشکر پر امیر مقرر کر کے بھیجتے تو خاص طور سے اسے اپنے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی وصیت فرماتے، اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے انہیں بھلائی کی وصیت کرتے، چنانچہ آپ نے فرمایا: اللہ کے نام سے اس کے راستے میں جہاد کرو، جو کفر کرے اس سے لڑو، جہاد کرو، مگر مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، بدعہدی نہ کرو، مثلہ ۱؎ نہ کرو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو، حدیث میں کچھ تفصیل ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1408]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مردہ کے ناک،
کان وغیرہ کاٹ کر صورت بگاڑ دینے کو مثلہ کہتے ہیں۔

2؎:
پوری حدیث صحیح مسلم میں مذکورہ باب میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1408   

حدیث نمبر: 1617M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو احمد، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، نحوه بمعناه، وزاد فيه: " فإن ابوا، فخذ منهم الجزية، فإن ابوا، فاستعن بالله عليهم "، قال ابو عيسى: هكذا رواه وكيع، وغير واحد، عن سفيان، وروى غير محمد بن بشار، عن عبد الرحمن بن مهدي، وذكر فيه امر الجزية.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، وَزَادَ فِيهِ: " فَإِنْ أَبَوْا، فَخُذْ مِنْهُمُ الْجِزْيَةَ، فَإِنْ أَبَوْا، فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ عَلَيْهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَاهُ وَكِيعٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، وَرَوَى غَيْرُ مُحَمَّدِ بْنِ بَشَّارٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، وَذَكَرَ فِيهِ أَمْرَ الْجِزْيَةِ.
اس سند سے بھی بریدہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اس میں یہ اضافہ ہے: «فإن أبوا فخذ منهم الجزية فإن أبوا فاستعن بالله عليهم» یعنی اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو ان سے جزیہ لو، پھر اگر (جزیہ دینے سے بھی) انکار کریں تو ان پر فتح یاب ہونے کے لیے اللہ سے مدد طلب کرو۔ وکیع اور کئی لوگوں نے سفیان سے اسی طرح روایت کی ہے، محمد بن بشار کے علاوہ دوسرے لوگوں نے عبدالرحمٰن بن مہدی سے روایت کی ہے اور اس میں جزیہ کا حکم بیان کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2858)


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.