الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: کھانے کے احکام و مسائل
The Book on Food
29. باب مَا جَاءَ فِي حُبِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ
29. باب: میٹھی چیز اور شہد سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رغبت اور پسند کا بیان۔
حدیث نمبر: 1831
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سلمة بن شبيب، ومحمود بن غيلان، واحمد بن إبراهيم الدورقي، قالوا: حدثنا ابو اسامة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة قالت: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يحب الحلواء والعسل "، هذا حديث حسن صحيح غريب وقد رواه علي بن مسهر، عن هشام بن عروة، وفي الحديث كلام اكثر من هذا.حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَأَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ "، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، وَفِي الْحَدِيثِ كلام أكثر من هذا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد کو پسند کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اسے علی بن مسہر نے بھی ہشام بن عروہ کے واسطہ سے روایت کی ہے،
۳- حدیث میں اس سے زیادہ باتیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 32 (5431)، والأشربة 10 (5599)، و 15 (5614)، والطب 4 (5682)، والحیل 12 (6972)، صحیح مسلم/الطلاق 3 (1474)، سنن ابی داود/ الأشربة 11 (3715)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 36 (3323)، (تحفة الأشراف: 16796)، و مسند احمد (6/59) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3323)
   صحيح البخاري5599عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل
   صحيح البخاري5614عائشة بنت عبد اللهيعجبه الحلواء والعسل
   صحيح البخاري5431عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل
   صحيح البخاري6972عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء ويحب العسل إذا صلى العصر أجاز على نسائه فيدنو منهن كان رسول الله يشتد عليه أن يوجد منه الريح جرست نحله العرفط فلما دخل علي قلت له مثل ذلك ودخل على صفية فقالت له مثل ذلك فلما دخل على حفصة قالت له يا رسول الله ألا أسقيك منه قال لا حاجة لي به قال
   صحيح البخاري5216عائشة بنت عبد اللهإذا انصرف من العصر دخل على نسائه فيدنو من إحداهن دخل على حفصة فاحتبس أكثر مما كان يحتبس
   صحيح البخاري5682عائشة بنت عبد اللهيعجبه الحلواء والعسل
   صحيح مسلم3679عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل إذا صلى العصر دار على نسائه فيدنو منهن كان رسول الله يشتد عليه أن يوجد منه الريح جرست نحله العرفط وسأقول ذلك له وقوليه أنت يا صفية فلما دخل على سودة قالت تقول سودة والذي لا إله إلا هو لقد كدت أن أبادئه بالذي قلت لي وإنه لعلى الباب فرقا
   جامع الترمذي1831عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل
   سنن ابن ماجه3323عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل
   بلوغ المرام910عائشة بنت عبد اللهغير مسيس حتى يبلغ التي هو يومها،‏‏‏‏ فيبيت عندها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5599  
´ باذق (انگور کے شیرہ کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب) کے بارے میں`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ، وَالْعَسَلَ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلوا اور شہد کو دوست رکھتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَشْرِبَةِ: 5599]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5599 کا باب: «بَابُ الْبَاذَقِ، وَمَنْ نَهَى عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ مِنَ الأَشْرِبَةِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں «الباذق» کا ذکر فرمایا ہے، جس کے معنی انگور کے شیرے کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب ہے، جبکہ تحت الباب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث نقل فرمائی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کا باب سے مناسبت واضح ہے جبکہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا تعلق باب سے مشکل ہے کیونکہ باب میں «الباذق» کے الفاظ ہیں اور حدیث میں حلوا اور شہد کے۔

غور کرنے سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو اجاگر ہوتا ہے، وہ اس جہت سے کہ انگور کا شیرہ جب اتنا پکایا جائے کہ وہ حلوا ہو جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ کو پسند فرمایا کرتے تھے لیکن اس میں اس بات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ اس میں مطلق نشہ نہ ہو۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ووجه إيراده فى هذا الباب أن الذى يحل من المطبوخ هو ما كان فى معنى الحلواء، والذي يجوز شربه من عصير العنب بغير طبخ هو ما كان فى معنى العسل، فانهم كانوا يمزجونه بالماء ويشربونه من ساعته. والله اعلم» [فتح الباري لابن حجر: 57/11]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پکانے سے وہی حلال ہو گا جو حلوہ کے معنی میں ہو اور وہ عصیر عنب سے جس کا شرب بغیر پکانے کے حلال ہے وہ شہد کے معنی میں ہے، کیونکہ وہ اس سے پانی ملا کر اسی وقت (یعنی تازہ تازہ) پی لیا کرتے تھے۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح ہے کہ عصیر المطبوخ جبکہ اس میں نشہ نہ ہو، وہ حلال ہے۔ [ارشاد الساري: 500/9]
یعنی جس طرح حلوہ شہد میں ڈال کر پکایا جاتا ہے پانی کے ساتھ ملا کر جو کہ بڑا لذید اور پاکیزہ ہوتا ہے، بعین اسی طرح اگر انگور کا شیرہ پکایا جائے اور وہ حلوہ بن جائے (شراب کی صفات، اس میں نہ پائی جائیں جیسا کہ نشہ وغیرہ) تو وہ حلوہ حلال ہو گا، یعنی سکر بننے سے قبل اس کو حلوہ بنا کر کھانا درست ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں مناسبت ہوگی۔ «والله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 140   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3323  
´حلوا (مٹھائی) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوا (شیرینی) اور شہد پسند فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3323]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حلواء اور حلویٰ سے بعض علماء نے انسان کی بنائی میٹھی چیز (مٹھائی)
اور بعض نے ہر میٹھی چیز مراد لی ہے پھل ہو یا دوسری چیز۔

(2)
پسند ہونے کامطلب یہ ہے کہ جب پیش کی جاتی تو رغبت سےتناول فرماتے۔
یہ مطلب نہیں کہ اسے طلب فرماتے۔

(3)
شہد ایک قدرتی غذا ہے جو بے شمار فوائد کی حامل ہے۔
اور اس میں دوسری مٹھاس (چینی وغیرہ)
کےمضر اثرات نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3323   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 910  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا عروہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے میری بہن کے لخت جگر (بھانجے)! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کی باری کی تقسیم میں کسی کو کسی پر فوقیت و فضیلت نہیں دیتے تھے۔ ہمارے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا اور کم ہی ایسا کوئی دن ہو گا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آتے جاتے نہ ہوں اور ہر بیوی کے پاس جاتے ضرور مگر کسی کو چھوتے تک نہ تھے۔ پھر اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور رات اس کے پاس بسر فرماتے۔ احمد و ابوداؤد اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ اور مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر ادا فرما کر اپنی ساری بیویوں کے ہاں تشریف لے جاتے پھر ان سے قرب بھی حاصل کرتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 910»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب في القسم بين النساء، حديث:2135، وأحمد:6 /107، والحاكم:2 /186، وصححه، ووافقه الذهبي، وحديث عائشة: كان إذا صلي العصر....، أخرجه مسلم، الطلاق، حديث:1474، والبخاري، النكاح، حديث:5216.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز اپنی ازواج مطہرات کی قیام گاہوں میں حالات معلوم کرنے کی غرض سے چکر ضرور لگاتے اور باہمی محبت و پیار کا اظہار کرتے۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر بیوی کی قیام گاہ الگ ہونی چاہیے‘ اس سے پردہ داری رہتی ہے۔
3.کم عمر بچوں کو پیار سے بلانا بھی ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے کو یَاابْنَ أُخْتِي کہہ کر بلایا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 910   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.