الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تقدیر کے احکام و مسائل
Chapters On Al-Qadar
3. باب مَا جَاءَ فِي الشَّقَاءِ وَالسَّعَادَةِ
3. باب: اچھی اور بری تقدیر (قسمت) کا بیان۔
حدیث نمبر: 2135
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا بندار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا شعبة، عن عاصم بن عبيد الله، قال: سمعت سالم بن عبد الله يحدث، عن ابيه، قال: قال عمر: يا رسول الله، ارايت ما نعمل فيه امر مبتدع او مبتدا او فيما قد فرغ منه، فقال: " فيما قد فرغ منه يا ابن الخطاب، وكل ميسر، اما من كان من اهل السعادة فإنه يعمل للسعادة، واما من كان من اهل الشقاء فإنه يعمل للشقاء "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن علي، وحذيفة بن اسيد، وانس، وعمران بن حصين، وهذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَال: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيهِ أَمْرٌ مُبْتَدَعٌ أَوْ مُبْتَدَأٌ أَوْ فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، فَقَالَ: " فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، وَكُلٌّ مُيَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ، وَأَنَسٍ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو عمل ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، وہ نیا شروع ہونے والا امر ہے یا ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ابن خطاب! وہ ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہ امر آسان کر دیا گیا ہے (جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے)، چنانچہ جو آدمی سعادت مندوں میں سے ہے وہ سعادت والا کام کرتا ہے اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختی والا کام کرتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، حذیفہ بن اسید، انس اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6764) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی جو عمل ہم کرتے ہیں کیا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم میں آتا ہے؟ یا وہ پہلے سے لکھا ہوا ہے اور اللہ کے علم میں ہے؟۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ظلال الجنة (161 - 167)
   جامع الترمذي2135عبد الله بن عمرفيما قد فرغ منه يا ابن الخطاب كل ميسر أما من كان من أهل السعادة فإنه يعمل للسعادة أما من كان من أهل الشقاء فإنه يعمل للشقاء
   جامع الترمذي3111عبد الله بن عمربل على شيء قد فرغ منه وجرت به الأقلام يا عمر كل ميسر لما خلق له

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2135  
´اچھی اور بری تقدیر (قسمت) کا بیان۔`
عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو عمل ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، وہ نیا شروع ہونے والا امر ہے یا ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ابن خطاب! وہ ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہ امر آسان کر دیا گیا ہے (جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے)، چنانچہ جو آدمی سعادت مندوں میں سے ہے وہ سعادت والا کام کرتا ہے اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختی والا کام کرتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2135]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جوعمل ہم کرتے ہیں کیا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم میں آتا ہے؟ یا وہ پہلے سے لکھا ہوا ہے اور اللہ کے علم میں ہے؟۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2135   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.