عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! نجات کی کیا صورت ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر کی وسعت میں مقید رہو اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9928)، وانظر مسند احمد (4/148)، و (5/259) (صحیح) (یہ سند مشہور ضعیف اسانید میں سے ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے الصحیحة رقم: 890)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں زبان کی حفاظت کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے، کیونکہ اسے کنٹرول میں نہ رکھنے کی صورت میں اس سے بکثرت گناہ صادر ہوتے ہیں، اس لیے لایعنی اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنا چاہیئے اور کوشش یہ ہو کہ ہمیشہ زبان سے خیر ہی نکلے، ایسے لوگوں اور مجالس سے دور رہنا چاہیئے جن سے شر کا خطرہ ہو، بحیثیت انسان غلطیاں ضرور ہوں گی ان کی تلافی کے لیے رب العالمین کے سامنے عاجزی کا اظہار کریں اور اس سے مغفرت طلب کریں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (888)
قال الشيخ زبير على زئي: (2406) إسناده ضعيف على بن يزيد و عبيدالله بن زحر: ضعيفان (تقدما: 1282) وللحديث شواهد ضعيفة
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2406
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث میں زبان کی حفاظت کی اہمیت کوواضح کیا گیا ہے، کیونکہ اسے کنٹرول میں نہ رکھنے کی صورت میں اس سے بکثرت گناہ صادرہوتے ہیں، اس لیے لایعنی اورغیرضروری باتوں سے پرہیزکرنا چاہئے اور کوشش یہ ہوکہ ہمیشہ زبان سے خیرہی نکلے، ایسے لوگوں اورمجالس سے دوررہنا چاہئے جن سے شرکا خطرہ ہو، بحیثیت انسان غلطیاں ضرورہوں گی ان کی تلافی کے لیے رب العالمین کے سامنے عاجزی کا اظہارکریں اوراس سے مغفرت طلب کریں۔
نوٹ: (یہ سند مشہور ضعیف اسانید میں سے ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے: الصحیحة رقم: 890)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2406