الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
Chapters on the description of the Day of Judgement, Ar-Riqaq, and Al-Wara'
حدیث نمبر: 2476
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هناد، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، حدثني يزيد بن زياد، عن محمد بن كعب القرظي، حدثني من , سمع علي بن ابي طالب , يقول: إنا لجلوس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد إذ طلع علينا مصعب بن عمير ما عليه إلا بردة له مرقوعة بفرو، فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم بكى للذي كان فيه من النعمة، والذي هو اليوم فيه، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كيف بكم إذا غدا احدكم في حلة وراح في حلة ووضعت بين يديه صحفة ورفعت اخرى وسترتم بيوتكم كما تستر الكعبة؟ " قالوا: يا رسول الله نحن يومئذ خير منا اليوم نتفرغ للعبادة ونكفى المؤنة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لانتم اليوم خير منكم يومئذ " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ويزيد بن زياد هو ابن ميسرة وهو مدني، وقد روى عنه مالك بن انس، وغير واحد من اهل العلم، ويزيد بن زياد الدمشقي الذي روى عن الزهري، روى عنه وكيع، ومروان بن معاوية، ويزيد بن ابي زياد كوفي روى عنه سفيان، وشعبة، وابن عيينة، وغير واحد من الائمة.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ , سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ , يَقُولُ: إِنَّا لَجُلُوسٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ مَا عَلَيْهِ إِلَّا بُرْدَةٌ لَهُ مَرْقُوعَةٌ بِفَرْوٍ، فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَى لِلَّذِي كَانَ فِيهِ مِنَ النِّعْمَةِ، وَالَّذِي هُوَ الْيَوْمَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ بِكُمْ إِذَا غَدَا أَحَدُكُمْ فِي حُلَّةٍ وَرَاحَ فِي حُلَّةٍ وَوُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ صَحْفَةٌ وَرُفِعَتْ أُخْرَى وَسَتَرْتُمْ بُيُوتَكُمْ كَمَا تُسْتَرُ الْكَعْبَةُ؟ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مِنَّا الْيَوْمَ نَتَفَرَّغُ لِلْعِبَادَةِ وَنُكْفَى الْمُؤْنَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنْتُمُ الْيَوْمَ خَيْرٌ مِنْكُمْ يَوْمَئِذٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ هُوَ ابْنُ مَيْسَرَةَ وَهُوَ مَدَنِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ الَّذِي رَوَى عَنِ الزُّهْرِيِّ، رَوَى عَنْهُ وَكِيعٌ، وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ كُوفِيٌّ رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ، وَشُعْبَةُ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیر ۱؎ آئے ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز و نعمت کو دیکھ کر رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں ان دنوں تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا حال ہو گا تمہارا اس وقت جب کہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تو دوسرے جوڑے میں شام کرے گا اور اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھا جائے گا تو دوسرا اٹھایا جائے گا، اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پردہ ڈالو گے جیسا کہ کعبہ پر پردہ ڈالا جاتا ہے؟ ۲؎، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اس وقت آج سے بہت اچھے ہوں گے اور عبادت کے لیے فارغ ہوں گے اور محنت و مشقت سے بچ جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم آج کے دن ان دنوں سے بہتر ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- یزید بن زیاد سے مراد یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس اور دیگر اہل علم نے روایت کی ہے اور (دوسرے) یزید بن زیاد دمشقی وہ ہیں جنہوں نے زہری سے روایت کیا ہے اور ان سے (یعنی دمشقی سے) وکیع اور مروان بن معاویہ نے روایت کیا ہے، اور (تیسرے) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں ۳؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف 0التحفة: 10339) (ضعیف) (محمد بن کعب قرظی سے استاذ راوی مبہم ہیں)»

وضاحت:
۱؎: مصعب بن عمیر رضی الله عنہ جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں، یہ اپنا سارا مال و متاع مکہ میں چھوڑ کر ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، عقبہ ثانیہ کے بعد آپ نے ان کو قرآن کی تعلیم دینے اور دین کی باتیں سکھانے کے لیے مدینہ بھیجا، مدینہ میں ہجرت سے پہلے جمعہ کے لیے لوگوں کو سب سے پہلے جمع کرنے کا شرف انہی کو حاصل ہے، زمانہ جاہلیت میں سب سے زیادہ ناز و نعمت کی زندگی گزار نے والے تھے، لیکن اسلام لانے کے بعد ان سب سے انہیں بے رغبتی ہو گئی۔
۲؎: یعنی ایک وقت ایسا آئے گا کہ مال ومتاع کی ایسی کثرت ہو جائے گی کہ صبح و شام کپڑے بدلے جائیں گے، قسم قسم کے کھانے لوگوں کے سامنے ہوں گے، لوگ اپنے مکانوں کی تزئین کریں گے، گھروں میں عمدہ اور قیمتی کپڑوں کے پردے لٹکائیں گے، جیسا کہ آج کل ہے۔
۳؎: امام ترمذی ان تین لوگوں کے درمیان فرق بیان کر رہے ہیں جو یزید کے نام سے موسوم ہیں: (۱) یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں، جو اس حدیث کی سند میں مذکور ہیں (۲) یزید بن زیاد مشقی ہیں، (۳) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5366 / التحقيق الثاني)، وانظر الحديث (2591) // ضعيف الجامع الصغير (4293) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2476) إسناده ضعيف / انظر الحديث السابق: 2473
   جامع الترمذي2476علي بن أبي طالبكيف بكم إذا غدا أحدكم في حلة وراح في حلة ووضعت بين يديه صحفة ورفعت أخرى وسترتم بيوتكم كما تستر الكعبة قالوا يا رسول الله نحن يومئذ خير منا اليوم نتفرغ للعبادة ونكفى المؤنة فقال رسول الله لأنتم اليوم خير منكم يومئذ

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2476  
´باب:۔۔۔`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیر ۱؎ آئے ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز و نعمت کو دیکھ کر رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں ان دنوں تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا حال ہو گا تمہارا اس وقت جب کہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تو دوسرے جوڑے میں شام کرے گا اور اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھا جائے گا تو دوسرا اٹھایا جائے گا، اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پردہ ڈالو گے جیسا کہ کعب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2476]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جلیل القدرصحابہ میں سے ہیں،
یہ اپنا سارا مال ومتاع مکہ میں چھوڑ کر ہجرت کرکے رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے،
عقبہ ثانیہ کے بعد آپﷺ نے ان کو قرآن کی تعلیم دینے اور دین کی باتیں سکھانے کے لیے مدینہ بھیجا،
مدینہ میں ہجرت سے پہلے جمعہ کے لیے لوگوں کو سب سے پہلے جمع کرنے کا شرف انہی کو حاصل ہے،
زمانہ جاہلیت میں سب سے زیادہ ناز ونعمت کی زندگی گزار نے والے تھے،
لیکن اسلام لانے کے بعد ان سب سے انہیں بے رغبتی ہوگئی۔

2؎:
یعنی ایک وقت ایسا آئے گا کہ مال ومتاع کی ایسی کثرت ہوجائے گی کہ صبح وشام کپڑے بدلے جائیں گے،
قسم قسم کے کھانے لوگوں کے سامنے ہوں گے،
لوگ اپنے مکانوں کی تزئین کریں گے،
گھروں میں عمدہ اور قیمتی کپڑوں کے پردے لٹکائیں گے،
جیساکہ آج کل ہے۔

3؎:
امام ترمذی ان تین لوگوں کے درمیان فرق بیان کررہے ہیں جو یزید کے نام سے موسوم ہیں:

(1)
یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں،
جو اس حدیث کی سند میں مذکور ہیں۔

(2)
یزید بن زیاد مشقی ہیں۔

(3)
یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں۔

نوٹ:

(محمد بن کعب قرظی سے استاذ راوی مبہم ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2476   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.