الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قرآن کریم کے مناقب و فضائل
Chapters on The Virtues of the Qur'an
حدیث نمبر: 2919
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا إسماعيل بن عياش، عن بحير بن سعد، عن خالد بن معدان، عن كثير بن مرة الحضرمي، عن عقبة بن عامر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " الجاهر بالقرآن كالجاهر بالصدقة، والمسر بالقرآن كالمسر بالصدقة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ومعنى هذا الحديث: ان الذي يسر بقراءة القرآن افضل من الذي يجهر بقراءة القرآن، لان صدقة السر افضل عند اهل العلم من صدقة العلانية، وإنما معنى هذا عند اهل العلم لكي يامن الرجل من العجب لان الذي يسر العمل، لا يخاف عليه العجب ما يخاف عليه من علانيته.حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الْجَاهِرُ بِالْقُرْآنِ كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ، وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: أَنَّ الَّذِي يُسِرُّ بِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ أَفْضَلُ مِنَ الَّذِي يَجْهَرُ بِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ، لِأَنَّ صَدَقَةَ السِّرِّ أَفْضَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ صَدَقَةِ الْعَلَانِيَةِ، وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِكَيْ يَأْمَنَ الرَّجُلُ مِنَ الْعُجْبِ لِأَنَّ الَّذِي يُسِرُّ الْعَمَلَ، لَا يُخَافُ عَلَيْهِ الْعُجْبُ مَا يُخَافُ عَلَيْهِ مِنْ عَلَانِيَتِهِ.
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسا کھلے عام صدقہ دینے والا، اور آہستگی و خاموشی سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسے چھپا کر صدقہ دینے والا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس حدیث کا معنی و مطلب یہ ہے کہ جو شخص آہستگی سے قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص سے افضل ہے جو بلند آواز سے قرآن پڑھتا ہے، اس لیے کہ اہل علم کے نزدیک چھپا کر صدقہ دینا برسر عام صدقہ دینے سے افضل ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ اہل علم کے نزدیک اس سے آدمی عجب (خود نمائی) سے محفوظ رہتا ہے۔ کیونکہ جو شخص چھپا کر عمل کرتا ہے اس کے عجب میں پڑنے کا اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا اس کے کھلے عام عمل کرنے میں ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 315 (1333)، سنن النسائی/قیام اللیل 24 (1664)، والزکاة 68 (2560) (تحفة الأشراف: 9949)، و مسند احمد (4/151، 158) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2202 / التحقيق الثاني)، صحيح أبي داود (1204)
   سنن النسائى الصغرى2562عقبة بن عامرالجاهر بالقرآن كالجاهر بالصدقة والمسر بالقرآن كالمسر بالصدقة
   جامع الترمذي2919عقبة بن عامرالجاهر بالقرآن كالجاهر بالصدقة والمسر بالقرآن كالمسر بالصدقة
   سنن أبي داود1333عقبة بن عامرالجاهر بالقرآن كالجاهر بالصدقة والمسر بالقرآن كالمسر بالصدقة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1333  
´تہجد میں بلند آواز سے قرآت کا بیان۔`
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسے ہے جیسے اعلانیہ طور سے خیرات کرنے والا اور آہستہ قرآن پڑھنے والا ایسے ہے جیسے چپکے سے خیرات کرنے والا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1333]
1333. اردو حاشیہ: فائدہ: یعنی انسان کی نیت کے مطابق اس کو اجر ملتا ہے۔ اگر قراءت میں آواز بلند کرنےسے دوسروں کو ترغیب دینا مقصود ہو تو یقیناً مباح اور مطلوب و ماجور ہے، ورنہ نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1333   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.