الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
6. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمَائِدَةِ
6. باب: سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3055
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا منصور بن وردان، عن علي بن عبد الاعلى، عن ابيه، عن ابي البختري، عن علي، قال: " لما نزلت ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا سورة آل عمران آية 97، قالوا: يا رسول الله، في كل عام، فسكت، قالوا: يا رسول الله، في كل عام، قال: لا، ولو قلت: نعم لوجبت، فانزل الله يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم سورة المائدة آية 101 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث علي، وفي الباب، عن ابي هريرة، وابن عباس.حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا مُنْصُورُ بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا سورة آل عمران آية 97، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِي كُلِّ عَامٍ، فَسَكَتَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِي كُلِّ عَامٍ، قَالَ: لَا، وَلَوْ قُلْتُ: نَعَمْ لَوَجَبَتْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا» جو لوگ خانہ کعبہ تک پہنچ سکتے ہوں ان پر اللہ کے حکم سے حج کرنا فرض ہے (آل عمران: ۹۷)، تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہر سال؟ آپ خاموش رہے، لوگوں نے پھر کہا: اللہ کے رسول! کیا ہر سال فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال کے لیے فرض ہو جاتا، پھر اللہ نے یہ آیت اتاری: «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» اے ایمان والو! بہت سی ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھا کرو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار معلوم ہو (المائدہ: ۱۰۱)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث علی رضی الله عنہ کی روایت سے حسن غریب ہے،
۲- اور اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 814 (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف مضى برقم (811) // (134 - 818) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3055) إسناده ضعيف / جه 2884 وتقدم: 814
عبد الأعلى بن عامر الثعلبي ضعيف (تقدم: 2950) وأبو البختري سعيد بن فيروز الطائي لم يسمع من سيدنا على رضى الله عنه (تقدم: 814) و حديث مسلم (1337) يغني عنه
   جامع الترمذي814علي بن أبي طالبفي كل عام قال لا ولو قلت نعم لوجبت أنزل الله يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم
   جامع الترمذي3055علي بن أبي طالبلا ولو قلت نعم لوجبت أنزل الله يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم
   سنن ابن ماجه2884علي بن أبي طالبولو قلت نعم لوجبت نزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2884  
´حج کی فرضیت کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ: «ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا» اللہ کے لیے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے، جو وہاں تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہوں (سورۃ آل عمران: ۹۷) نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا حج ہر سال فرض ہے ۱؎؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، لوگوں نے پھر سوال کیا: کیا ہر سال حج فرض ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اور اگر میں، ہاں، کہہ دیتا تو (ہر سال) واجب ہو جاتا، اس پر آیت کریمہ: «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» اے ایمان والو! تم ان چیزو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2884]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حج صرف اس شخص پر فرض ہے جو طاقت رکھتا ہو۔
یعنی گھر سے روانہ ہونے سے لیکر واپسی تک کے اخراجات برداشت کر سکتا ہو۔
اس میں کھانے پینے کے اخراجات بھی شامل ہیں اور سواری کا خرچ یعنی کرایہ وغیرہ بھی۔

(2)
نبی اکرمﷺ اپنی مرضی سے کسی کام کو فرض یا حرام قرار نہیں دیتے تھے تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا سوال کرنا ان کے شوق عبادت کو ظاہر کرتا ہے۔
ممکن ہے اللہ تعالی کو صحابہ کی کسی نیکی سے محبت اور اس کا شوق اس قدر پسند آجائے کہ اس کا حکم نازل ہوجائے اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو زیادہ سوالات سے منع فرما دیا گیا تھا تاکہ کوئی ایسا حکم نازل نہ ہو جائے جو بعد والوں کے لیے مشقت کا باعث ہو۔

(3)
اسلامی شریعت کے احکام آسان اور قابل عمل ہیں لہٰذا ان کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا محرومی کا باعث ہے۔

(4)
حج زندگی میں ایک ہی بار ادا کرنا فرض ہے۔
دوسرا حج نفل ہوگا۔
لیکن اگر کسی نے بالغ ہونے سے پہلے یا غلامی کی حالت میں حج کیا ہے تو اس کا یہ حج نفل ہوگا۔
بالغ ہونے کے بعد یا آزادی ملنے پر اگر استطاعت ہوتو دوبارہ حج ادا کرنا فرض ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2884   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 814  
´کتنی بار حج فرض ہے؟`
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ حکم نازل ہوا کہ اللہ کے لیے لوگوں پر خانہ کعبہ کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھیں، تو لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا حج ہر سال (فرض ہے)؟ آپ خاموش رہے۔ لوگوں نے پھر پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہر سال؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال) واجب ہو جاتا اور پھر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا: اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تم پر شاق گزریں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 814]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں ابو البختری کی علی رضی اللہ عنہ سے معاصرت و سماع نہیں ہے،
اس لیے سند منقطع ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 814   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.