الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
25. باب وَمِنْ سُورَةِ النُّورِ
25. باب: سورۃ النور سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3179
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، حدثنا هشام بن حسان، حدثني عكرمة، عن ابن عباس، ان هلال بن امية قذف امراته عند النبي صلى الله عليه وسلم بشريك بن السحماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " البينة وإلا حد في ظهرك "، قال: فقال هلال: يا رسول الله، إذا راى احدنا رجلا على امراته ايلتمس البينة؟ فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " البينة وإلا فحد في ظهرك "، قال: فقال هلال: والذي بعثك بالحق إني لصادق ولينزلن في امري ما يبرئ ظهري من الحد، فنزل: والذين يرمون ازواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا انفسهم فقرا حتى بلغ والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين سورة النور آية 6 ـ 9، قال: فانصرف النبي صلى الله عليه وسلم، فارسل إليهما، فجاءا، فقام هلال بن امية: فشهد والنبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الله يعلم ان احدكما كاذب، فهل منكما تائب؟ " ثم قامت فشهدت، فلما كانت عند والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين سورة النور آية 9 قالوا لها: إنها موجبة، فقال ابن عباس: فتلكات ونكست حتى ظننا ان سترجع، فقالت: لا افضح قومي سائر اليوم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ابصروها فإن جاءت به اكحل العينين سابغ الاليتين خدلج الساقين فهو لشريك بن السحماء، فجاءت به كذلك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لولا ما مضى من كتاب الله عز وجل لكان لنا ولها شان ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه من حديث هشام بن حسان، وهكذا روى عباد بن منصور هذا الحديث عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ورواه ايوب، عن عكرمة مرسلا ولم يذكر فيه عن ابن عباس.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبَيِّنَةَ وَإِلَّا حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ "، قَالَ: فَقَالَ هِلَالٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا رَأَى أَحَدُنَا رَجُلًا عَلَى امْرَأَتِهِ أَيَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ؟ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الْبَيِّنَةَ وَإِلَّا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ "، قَالَ: فَقَالَ هِلَالٌ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ وَلَيَنْزِلَنَّ فِي أَمْرِي مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنَ الْحَدِّ، فَنَزَلَ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 6 ـ 9، قَالَ: فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا، فَجَاءَا، فَقَامَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ: فَشَهِدَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟ " ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَتْ عِنْدَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 9 قَالُوا لَهَا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَسَتْ حَتَّى ظَنَّنَا أَنْ سَتَرْجِعُ، فَقَالَتْ: لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ، فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَكَانَ لَنَا وَلَهَا شَأْنٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، وَهَكَذَا رَوَى عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی، ہلال نے کہا: جب ہم میں سے کوئی کسی شخص کو اپنی بیوی سے ہمبستری کرتا ہوا دیکھے گا تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے کہ تم گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی۔ ہلال نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں سچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس معاملے میں کوئی ایسی چیز ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بچا دے گی، پھر (اسی موقع پر) آیت «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» سے «والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين» تک نازل ہوئی آپ نے اس کی تلاوت فرمائی، جب آپ پڑھ کر فارغ ہوئے تو ان دونوں کو بلا بھیجا، وہ دونوں آئے، پھر ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اور گواہیاں دیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سمجھانے لگے: اللہ کو معلوم ہے کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے تو کیا تم میں سے کوئی ہے جو توبہ کر لے؟ پھر عورت کھڑی ہوئی، اور اس نے بھی گواہی دی، پھر جب پانچویں گواہی اللہ کی اس پر لعنت ہو اگر وہ سچا ہو دینے کی باری آئی، تو لوگوں نے اس سے کہا: یہ گواہی اللہ کے غضب کو واجب کر دے گی ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: (لوگوں کی بات سن کر) وہ ٹھٹکی اور ذلت و شرمندگی سے سر جھکا لیا، ہم سب نے گمان کیا کہ شاید وہ (اپنی پانچویں گواہی) سے پھر جائے گی، مگر اس نے کہا: میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے ذلیل و رسوا نہ کروں گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس عورت کو دیکھتے رہو اگر وہ کالی آنکھوں والا موٹے چوتڑ والا اور بھری رانوں والا بچہ جنے تو سمجھ لو کہ دہ شریک بن سحماء کا ہے، تو اس نے ایسا ہی بچہ جنا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کتاب اللہ (قرآن) سے اس کا فیصلہ (لعان کا) نہ آ چکا ہوتا تو ہماری اور اس کی ایک عجیب ہی شان ہوتی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے ہشام بن حسان کی روایت سے حسن غریب ہے،
۲- اس حدیث کو عباد بن منصور نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس رضی الله عنہما کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے،
۳- ایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور اس روایت میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة النور 2 (4746)، والطلاق 29 (5308)، سنن ابی داود/ الطلاق 27 (2254)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 27 (2067) (تحفة الأشراف: 6225)، و مسند احمد (1/273) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی میں اس پر حد جاری کر کے ہی رہتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2067)
   صحيح البخاري6856عبد الله بن عباساللهم بين فوضعت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها أنه وجده عندها فلاعن النبي بينهما فقال رجل لابن عباس في المجلس هي التي قال النبي لو رجمت أحدا بغير بينة رجمت هذه
   صحيح البخاري4747عبد الله بن عباسالبينة وإلا حد في ظهرك فقال هلال والذي بعثك بالحق إني لصادق فلينزلن الله ما يبرئ ظهري من الحد فنزل جبريل وأنزل عليه والذين يرمون أزو
   صحيح البخاري5316عبد الله بن عباساللهم بين فوضعت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها أنه وجد عندها فلاعن رسول الله بينهما
   صحيح البخاري5310عبد الله بن عباساللهم بين فجاءت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها أنه وجده فلاعن النبي بينهما
   صحيح البخاري5307عبد الله بن عباسيعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب ثم قامت فشهدت
   صحيح البخاري2671عبد الله بن عباسالبينة أو حد في ظهرك فقال يا رسول الله إذا رأى أحدنا على امرأته رجلا ينطلق يلتمس البينة فجعل يقول البينة وإلا حد في ظهرك فذكر حديث اللعان
   صحيح مسلم3758عبد الله بن عباساللهم بين فوضعت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها أنه وجده عندها فلاعن رسول الله بينهما
   جامع الترمذي3179عبد الله بن عباسالبينة وإلا فحد في ظهرك قال فقال هلال والذي بعثك بالحق إني لصادق ولينزلن في أمري ما يبرئ ظهري من الحد فنزل والذين يرمون أز
   سنن أبي داود2255عبد الله بن عباسأمر المتلاعنين أن يتلاعنا أن يضع يده على فيه عند الخامسة يقول إنها موجبة
   سنن النسائى الصغرى3497عبد الله بن عباسلاعن رسول الله بين العجلاني وامرأته وكانت حبلى
   سنن النسائى الصغرى3502عبد الله بن عباسأمر رجلا حين أمر المتلاعنين أن يتلاعنا أن يضع يده عند الخامسة على فيه وقال إنها موجبة
   سنن النسائى الصغرى3501عبد الله بن عباساللهم بين فوضعت شبيها بالذي ذكر زوجها أنه وجده عندها فلاعن رسول الله بينهما فقال رجل لابن عباس في المجلس أهي التي قال رسول الله لو رجمت أحدا بغير بينة رجمت هذه قال ابن عباس لا تلك امرأة كانت تظهر الشر في الإسلام
   سنن النسائى الصغرى3500عبد الله بن عباساللهم بين فوضعت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها أنه وجده عندها فلاعن رسول الله بينهما فقال رجل لابن عباس في المجلس أهي التي قال رسول الله لو رجمت أحدا بغير بينة رجمت هذه قال ابن عباس لا تلك امرأة كانت تظهر في الإسلام الشر
   سنن ابن ماجه2067عبد الله بن عباسالبينة أو حد في ظهرك فقال هلال بن أمية والذي بعثك بالحق إني لصادق ولينزلن الله في أمري ما يبرئ ظهري قال فنزلت والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم حتى بلغ والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين
   بلوغ المرام1050عبد الله بن عباس البينة وإلا فحد في ظهرك
   بلوغ المرام939عبد الله بن عباسامر رجلا ان يضع يده عند الخامسة على فيه وقال: ‏‏‏‏إنها موجبة
   مسندالحميدي528عبد الله بن عباسأن النبي صلى الله عليه وسلم أمر رجلا حين لاعن بين المتلاعنين أن يضع يده على فيه عند الخامسة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2067  
´لعان کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شریک بن سحماء کے ساتھ (بدکاری کا) الزام لگایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگیں گے، ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں، اور اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کوئی ایسا حکم اتارے گا جس سے میری پیٹھ حد لگنے سے بچ جائے گی، راوی نے کہا: پھر یہ آیت اتری: «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2067]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  حضرت ہلال بن امیہ نے اللہ پر توکل کیا اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا تو اللہ نے ان کو بری کردیا۔
اس سے صحابہ کرام کا ایمان اور اللہ کی ذات پر اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔

(2)
  پانچویں گواہی کے الفاظ پہلی چارگواہیوں سے مختلف ہیں۔
اس کا مقصد ضمیر کو بیدار کرنا ہے تاکہ فریقین میں سے جو غلطی پر ہے، وہ اپنی غلطی کا اقرار کرلے اور دنیا کی سزا قبول کرکے آخرت کے عذاب سے بچ جائے۔

(3)
  پانچویں قسم واجب کرنے والی ہے، یعنی واقعی اللہ کی لعنت اوراس کے غضب کی موجب ہے، لہٰذا یہ سمجھ کر قسم کھائیں کہ جھوٹے پر واقعی اللہ کی لعنت اور اس کے غضب کا نزول ہوجائے گا۔

(4)
  قوم کی محبت و عصبیت انسان کو بڑے گناہ پر آمادہ کردیتی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس محبت کو شریعت کی حدود کے اندر رکھا جائے۔

(5)
  بعض اوقات انسان کسی دنیوی مفاد کے لیے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے جب کہ اس مفاد کا حصول یقینی نہیں۔
اس عورت نے خاندان کو بدنامی سے بچانے کےلیے جھوٹی قسم کھائی لیکن رسول اللہﷺ کی بیان کردہ علامت کے مطابق بچہ پیدا ہونے سے وہ غلطی ظاہر ہوگئی جس کو چھپانے کےلیے اس نے اللہ کی غضب کو قبول کیا تھا۔

(6)
  اس قسم کی صورت حال میں بچے کی شکل و شباہت جرم کو ثابت کرتی ہے لیکن اگر قانونی پوریشن ایسی ہوکہ سزا نہ مل سکتی ہو تو جج قانون کی حد سے تجاوز نہیں کرسکتا۔

(7)
ارشاد نبوی:
میرا اس عورت سے معاملہ (دوسرا)
ہوتا۔
یعنی اس عورت کا جرم دار ہونا تو یقینی ہے لیکن چونکہ لعان کے بعد سزا نہیں دی جا سکتی، اس لیے اسے چھوڑ دیا ہے، ورنہ اسے ضروررجم کروا دیا جاتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2067   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1050  
´تہمت زنا کی حد کا بیان`
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اسلام میں لعان کا پہلا واقعہ شریک بن سحماء کا تھا۔ ان پر ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ اس حدیث کی تخریج ابویعلٰی نے کی ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں اور بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت بھی اسی طرح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1050»
تخریج:
«أخرجه أبو يعلي:5 /207، حديث:2824، وحديث ابن عباس، أخرجه البخاري، التفسير، حديث:4747.»
تشریح:
وضاحت: «حضرت شریک بن سحماء رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ یہ انصار کے حلیف قبیلے بنو بَلي سے تھے۔
ہلال بن امیہ نے ان پر اپنی بیوی کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تھی۔
ایک قول کے مطابق یہ اپنے والد کے ہمراہ غزوۂ احد میں حاضر تھے اور یہ براء بن مالک کے مادری بھائی تھے۔
ان کے والد کا نام عبدہ بن مُعَتِّب تھا اور سحماء ان کی والدہ کا نام تھا۔
«حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کا تعلق انصار کے قبیلۂاوس کی شاخ بنو واقف سے تھا۔
مشہور و معروف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔
قدیم الاسلام تھے۔
بنو واقف کے بتوں کو توڑا کرتے تھے۔
بدر و احد کے معرکوں میں شریک ہوئے۔
فتح مکہ کے دن بنو واقف کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔
یہ ان تین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک تھے جو معرکۂتبوک کے موقع پر پیچھے رہ گئے‘ پھر پچاس روز کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1050   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3179  
´سورۃ النور سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی، ہلال نے کہا: جب ہم میں سے کوئی کسی شخص کو اپنی بیوی سے ہمبستری کرتا ہوا دیکھے گا تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے کہ تم گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی۔ ہلال نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں سچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3179]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی میں اس پر حد جاری کر کے ہی رہتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3179   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2255  
´لعان کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت دونوں کو لعان کا حکم فرمایا تو ایک شخص کو حکم دیا کہ پانچویں بار میں اپنا ہاتھ مرد کے منہ پر رکھ دے اور کہے: یہ (عذاب کو) واجب کرنے والا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2255]
فوائد ومسائل:
قاضی کو چاہیے کہ موقع بموقع فریقین کو قسم کے اقدام سے باز رہنے کی تلقین کرے کیونکہ دنیا کی عار اور یہاں کی سزا تو عارضی ہے مگر اللہ کی لعنت اور غضب دائمی ہے۔
لاحول ولا قوة إلا بالله۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2255   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.