حدثنا محمد بن بشار، حدثنا مرحوم بن عبد العزيز العطار، حدثنا ابو نعامة السعدي، عن ابي عثمان النهدي، عن ابي موسى الاشعري رضي الله عنه، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة، فلما قفلنا اشرفنا على المدينة فكبر الناس تكبيرة ورفعوا بها اصواتهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن ربكم ليس باصم ولا غائب، هو بينكم وبين رءوس رحالكم ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثم قال: " يا عبد الله بن قيس، الا اعلمك كنزا من كنوز الجنة: لا حول ولا قوة إلا بالله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وابو عثمان النهدي اسمه عبد الرحمن بن مل، وابو نعامة السعدي اسمه عمرو بن عيسى.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا أَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَلَمَّا قَفَلْنَا أَشْرَفْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ فَكَبَّرَ النَّاسُ تَكْبِيرَةً وَرَفَعُوا بِهَا أَصْوَاتَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَصَمَّ وَلَا غَائِبٍ، هُوَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رُءُوسِ رِحَالِكُمْ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثُمَّ قَالَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، أَلَا أُعَلِّمُكَ كَنْزًا مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ، وَأَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ عِيسَى.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے جب ہم لوٹے اور ہمیں مدینہ دکھائی دینے لگا تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آواز سے تکبیر کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا رب بہرہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب و غیر حاضر ہے، وہ تمہارے درمیان موجود ہے، وہ تمہارے کجاؤں اور سواریوں کے درمیان (یعنی بہت قریب) ہے پھر آپ نے فرمایا: ”عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ «لا حول ولا قوة إلا بالله»(جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوعثمان نہدی کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے اور ابونعامہ سعدی کا نام عمرو بن عیسیٰ ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: جو اس کلمے کا ورد کرے گا وہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانے کا مالک ہو جائے گا، کیونکہ اس کلمے کا مطلب برائی سے پھر نے اور نیکی کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ ”جب بندہ اس کا باربار اظہار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بے انتہا خوش ہوتا ہے، بندے کی طرف سے اس طرح کی عاجزی کا اظہار تو عبادت حاصل ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3824
´لاحول ولا قوۃ إلا باللہ کی فضیلت۔` ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «لا حول ولا قوة إلا بالله»”گناہوں سے دوری اور عبادات و طاعت کی قوت صرف اللہ رب العزت کی طرف سے ہے“ پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں وہ کلمہ نہ بتلاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک حزانہ ہے“؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہا کرو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3824]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) یہ جملہ اللہ کے ذکر میں اہم جملہ ہےکیو نکہ اس میں اس بات کا اقرار ہےکہ ہر قوت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔
(2) اس میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد و توکل کے ساتھ ساتھ اس کے سامنے عاجزی اورمسکینی کا اظہار ہے، اور عبودیت کا یہ اظہار اللہ تعالٰی کو پسند ہے۔
(3) نیکی کا کام انجام دے کر یا گناہ سے اجتناب کر کے دل میں فخر کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ”نیکی برباد گناہ لازم“ کی کیفیت پیش آ سکتی ہے، اس سے بچاؤ کے لیے اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ یہ سب میری کوشش اور بہادری سے نہیں بلکہ محض اللہ کی توفیق اور اس کے احسان سے ہے۔
(4) اس سوچ کے ساتھ یہ الفاظ پڑھنے سےیقینا جنت کی عظیم نعمتیں اور بلند درجات حاصل ہوں گے، اس لیے اسے ”جنت کا خزانہ“ قرار دیا گیا ہے۔
(5) اللہ کا ذکر سری طور پر کرنا بہتر ہے کیونکہ اس میں ریا کاری نہیں ہوتی، البتہ جن مقامات پر ذکر بلند آواز کرنا مسنون ہے، وہاں بلند آواز ہی سے کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3824
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1341
´ذکر اور دعا کا بیان` سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب ہو کر کہا ” اے عبداللہ بن قیس! کیا میں تجھے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ جو یہ ہے «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہ برائی سے منہ موڑنا اور نیکی پر زور سوائے اللہ کی مدد کے ممکن نہیں ہے۔“(بخاری و مسلم) اور نسائی میں اتنا اضافہ ہے «ولا ملجأ من الله إلا إليه» کہ ” اللہ کے سوا کہیں پناہ نہیں۔“ «بلوغ المرام/حدیث: 1341»
تخریج: «أخرجه البخاري، الدعوات، باب الدعاء إذا علا عقبة، حديث:6384، ومسلم، الذكر والدعاء، باب استحباب خفض الصوت بالذكر...، حديث:2704، والنسائي في الكبرٰي:6 /97، حديث:10190.»
تشریح: اس حدیث میں بھی لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ کی فضیلت کا بیان ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چیز جس قدر نفیس اور قیمتی ہوتی ہے اس کی حفاظت اور دیکھ بھال بھی اسی طرح بہت اہتمام سے کی جاتی ہے۔ اسے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ اور یہ کلمات تو جنت کا خزانہ ہیں‘ اس لیے ان کی بھی محافظت کرنی چاہیے اور انھیں کثرت سے پڑھنا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1341
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3374
´دعا سے متعلق ایک اور باب۔` ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے جب ہم لوٹے اور ہمیں مدینہ دکھائی دینے لگا تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آواز سے تکبیر کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا رب بہرہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب و غیر حاضر ہے، وہ تمہارے درمیان موجود ہے، وہ تمہارے کجاؤں اور سواریوں کے درمیان (یعنی بہت قریب) ہے پھر آپ نے فرمایا: ”عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ «لا حول ولا قوة إلا بالله»(جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3374]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی: جو اس کلمے کا ورد کرے گا وہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانے کا مالک ہو جائے گا، کیونکہ اس کلمے کا مطلب ہے ”برائی سے پھرنے اور نیکی کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں“۔ جب بندہ اس کا بار باراظہار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بے انتہا خوش ہوتا ہے، بندے کی طرف سے اس طرح کی عاجزی کا اظہار تو عبادت حاصل ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3374
حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا ابو عاصم، عن حميد ابي المليح، عن ابي صالح، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ حُمَيْدٍ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
اس سند سے ابوالملیح نے ابوصالح سے، اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔