الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
Chapters on Supplication
حدیث نمبر: 3556
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، قال: انبانا جعفر بن ميمون صاحب الانماط، عن ابي عثمان النهدي، عن سلمان الفارسي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله حيي كريم يستحيي إذا رفع الرجل إليه يديه ان يردهما صفرا خائبتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ورواه بعضهم ولم يرفعه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَعْفَرُ بْنُ مَيْمُونٍ صَاحِبُ الْأَنْمَاطِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا خَائِبَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
سلمان فارسی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ «حيي كريم» ہے یعنی زندہ و موجود ہے اور شریف ہے اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ جب کوئی آدمی اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دے تو وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو خالی اور ناکام و نامراد واپس کر دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، بعض دوسروں نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 358 (1488)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 13 (3865) (تحفة الأشراف: 4494)، و مسند احمد (5/485) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3865)

قال الشيخ زبير على زئي: (3556) إسناده ضعيف / د 1488، جه 3865
   جامع الترمذي3556سلمان بن الإسلامالله حيي كريم يستحيي إذا رفع الرجل إليه يديه أن يردهما صفرا خائبتين
   سنن أبي داود1488سلمان بن الإسلامربكم حيي كريم يستحيي من عبده إذا رفع يديه إليه أن يردهما صفرا
   سنن ابن ماجه3865سلمان بن الإسلامربكم حيي كريم يستحيي من عبده أن يرفع إليه يديه فيردهما صفرا أو قال خائبتين
   بلوغ المرام1344سلمان بن الإسلام إن ربكم حيي كريم يستحي من عبده إذا رفع إليه يديه أن يردهما صفرا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3865  
´دعا میں دونوں ہاتھ اٹھانے کا بیان۔`
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب «حی» (بڑا باحیاء، شرمیلا) اور کریم ہے، اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ اس کا بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے تو وہ انہیں خالی یا نامراد لوٹا دے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3865]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ تعالی بندے کی ہر دعا قبول فرماتا ہے (بشرطیکہ کوئی ایسی وجہ موجود نہ ہو جو قبولیت کے راستے میں رکاوٹ ہو۔)
لیکن قبولیت کا اثر بعض اوقات دنیا میں ظاہر ہوتا ہے اور بعض اوقات آخرت میں۔

(2)
دعا کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھانے چاہئیں۔

(3)
اس حدیث میں اللہ تعالی کی صفت علو کا اثبات ہے، یعنی وہ اپنی ذات کے لحاظ سے عرش پر مستوی ہے، ہر جگہ موجود نہیں، البتہ اس کا علم، اس کی قدرت اور رحمت ہر شے کو محیط ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3865   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1344  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا پروردگار بڑا شرم و حیاء والا، سخی و کریم ہے۔ جب بندہ اس کے حضور اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹاتے شرم آتی ہے۔ نسائی کے سوا چاروں نے اسے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1344»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الدعاء حديث:1488، والترمذي، الدعوات، حديُ:3556، وابن ماجه، الدعاء، حديث:3865، والحاكم:1 /497 جعفر بن ميمون ضعّفه الجمهور، وللحديث شواهد ضعيفة.»
تشریح:
1.مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ سنن ابن ماجہ (اردو) کی تحقیق میں اسے حسن قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ موقوف ہے‘ نیز شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں: «‏‏‏‏إِسْنَادُ الْمَوْقُوفِ أَصَحُّ» مذکورہ روایت سند کے لحاظ سے موقوفاً زیادہ درست ہے۔
لیکن پھر انھوں نے اس کے مرفوع شواہد کا تذکرہ بھی کیا ہے اور آخر میں لکھا ہے: «فَالْحَدِیثُ صَحِیحٌ قَطْعًا» یہ حدیث قطعی طور پر صحیح ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (المشکاۃ للألباني‘ التحقیق الثاني:۲ /۴۱۳‘ رقم: ۲۱۸۴‘ وسنن ابن ماجہ، (اردو) طبع دارالسلام بتحقیق زبیر علیزئي‘ رقم: ۳۸۶۵) 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے اور یہ آداب دعا میں سے ہے۔
3.اللہ کی بارگاہ میں اٹھے ہوئے بندۂ محتاج کے ہاتھ خالی واپس نہیں کیے جاتے۔
4.دعائے استسقا کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ عام معمول سے زیادہ ہی بلند فرماتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کی جو نفی ہے‘ اس سے مراد استسقا کی طرح رفع الیدین میں مبالغہ کرنے کی نفی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1344   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1488  
´دعا کا بیان۔`
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب بہت باحیاء اور کریم (کرم والا) ہے، جب اس کا بندہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہیں خالی لوٹاتے ہوئے اسے اپنے بندے سے شرم آتی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1488]
1488. اردو حاشیہ: اللہ عزوجل کا حیا کرنا اس کی خاص صفت ہے۔ اور اسی طرح ہے جس طرح اس کی ذات کو لائق ہے۔ اہل السنۃ کا اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پرایمان ہے۔ ان کی تفصیل وکنہ میں جانا اور پڑنا درست نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1488   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.