الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
5. بَابُ ذِكْرِ إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} :
5. باب: ادریس علیہ السلام کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا ”اور ہم نے ان کو بلند مکان (آسمان) پر اٹھا لیا تھا“۔
(5) Chapter. The reference to Idris. He was Nuh’s (Noah) great-grandfather, and it is said that he was Nuh’s grandfather. The Statement of Allah: "We raised him (i.e., Idris) to a high station". (V.19:57)
حدیث نمبر: Q3342
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال ابن عباس: يذكر بخير سلام على إل ياسين سورة الصافات آية 130 إنا كذلك نجزي المحسنين سورة الصافات آية 131 إنه من عبادنا المؤمنين سورة الصافات آية 132 يذكر عن ابن مسعود وابن عباس ان إلياس هو إدريس.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يُذْكَرُ بِخَيْرٍ سَلامٌ عَلَى إِلْ يَاسِينَ سورة الصافات آية 130 إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ سورة الصافات آية 131 إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ سورة الصافات آية 132 يُذْكَرُ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ إِلْيَاسَ هُوَ إِدْرِيسُ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «تركنا عليه في الآخرين‏» کے متعلق کہا کہ بھلائی کے ساتھ انہیں یاد کیا جاتا رہے گا۔ سلامتی ہو الیاسین پر، بیشک ہم اسی طرح مخلصین کو بدلہ دیتے ہیں۔ بیشک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔ ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ الیاس، ادریس علیہ السلام کا نام تھا۔

حدیث نمبر: 3342
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
قال عبدان، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن الزهري، ح حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، قال: قال انس بن مالك كان ابو ذر رضي الله عنه يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" فرج سقف بيتي وانا بمكة فنزل جبريل ففرج صدري، ثم غسله بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فافرغها في صدري، ثم اطبقه، ثم اخذ بيدي فعرج بي إلى السماء فلما جاء إلى السماء الدنيا، قال جبريل: لخازن السماء افتح، قال: من هذا؟ قال: هذا جبريل، قال: معك احد، قال: معي محمد، قال: ارسل إليه، قال: نعم، فافتح فلما علونا السماء الدنيا إذا رجل عن يمينه اسودة وعن يساره اسودة، فإذا نظر قبل يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قلت: من هذا يا جبريل؟، قال: هذا آدم وهذه الاسودة عن يمينه وعن شماله نسم بنيه فاهل اليمين منهم اهل الجنة والاسودة التي عن شماله اهل النار، فإذا نظر قبل يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى، ثم عرج بي جبريل حتى اتى السماء الثانية، فقال: لخازنها افتح، فقال له: خازنها مثل ما، قال: الاول ففتح، قال انس: فذكر انه وجد في السموات إدريس وموسى وعيسى وإبراهيم ولم يثبت لي كيف منازلهم غير انه قد ذكر انه وجد آدم في السماء الدنيا و إبراهيم في السادسة، وقال انس: فلما مر جبريل بإدريس، قال: مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، فقلت: من هذا؟، قال: هذا إدريس ثم مررت بموسى، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، قلت: من هذا؟ قال: هذا موسى ثم مررت بعيسى، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، قلت: من هذا؟ قال: عيسى ثم مررت بإبراهيم، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قلت: من هذا؟، قال: هذا إبراهيم، قال: واخبرني ابن حزم ان ابن عباس وابا حية الانصاري كانا يقولان، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ثم عرج بي حتى ظهرت لمستوى اسمع صريف الاقلام، قال: ابن حزم وانس بن مالك رضي الله عنهما، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ففرض الله علي خمسين صلاة فرجعت بذلك حتى امر بموسى، فقال موسى: ما الذي فرض على امتك، قلت: فرض عليهم خمسين صلاة، قال: فراجع ربك فإن امتك لا تطيق ذلك فرجعت فراجعت ربي فوضع شطرها فرجعت إلى موسى، فقال: راجع ربك فذكر مثله فوضع شطرها فرجعت إلى موسى فاخبرته، فقال: راجع ربك فإن امتك لا تطيق ذلك فرجعت فراجعت ربي، فقال: هي خمس وهي خمسون لا يبدل القول لدي فرجعت إلى موسى، فقال: راجع ربك، فقلت: قد استحييت من ربي، ثم انطلق حتى اتى بي السدرة المنتهى فغشيها الوان لا ادري ما هي، ثم ادخلت الجنة فإذا فيها جنابذ اللؤلؤ وإذا ترابها المسك".قَالَ عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، ح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ فَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ فَلَمَّا جَاءَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، قَالَ جِبْرِيلُ: لِخَازِنِ السَّمَاءِ افْتَحْ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا جِبْرِيلُ، قَالَ: مَعَكَ أَحَدٌ، قَالَ: مَعِي مُحَمَّدٌ، قَالَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، فَافْتَحْ فَلَمَّا عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا إِذَا رَجُلٌ عَنْ يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ وَعَنْ يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ، فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟، قَالَ: هَذَا آدَمُ وَهَذِهِ الْأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ فَأَهْلُ الْيَمِينِ مِنْهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَالْأَسْوِدَةُ الَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ، فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، ثُمَّ عَرَجَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ: لِخَازِنِهَا افْتَحْ، فَقَالَ لَهُ: خَازِنُهَا مِثْلَ مَا، قَالَ: الْأَوَّلُ فَفَتَحَ، قَالَ أَنَسٌ: فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَوَاتِ إِدْرِيسَ وَمُوسَى وَعِيسَى وَإِبْرَاهِيمَ وَلَمْ يُثْبِتْ لِي كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ غَيْرَ أَنَّهُ قَدْ ذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَ إِبْرَاهِيمَ فِي السَّادِسَةِ، وَقَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِيلُ بِإِدْرِيسَ، قَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، قَالَ: هَذَا إِدْرِيسُ ثُمَّ مَرَرْتُ بِمُوسَى، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا مُوسَى ثُمَّ مَرَرْتُ بِعِيسَى، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: عِيسَى ثُمَّ مَرَرْتُ بِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، قَالَ: هَذَا إِبْرَاهِيمُ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا حَيَّةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَا يَقُولَانِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ صَرِيفَ الْأَقْلَامِ، قَالَ: ابْنُ حَزْمٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَفَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى أَمُرَّ بِمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى: مَا الَّذِي فَرَضَ عَلَى أُمَّتِكَ، قُلْتُ: فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ: فَرَاجِعْ رَبَّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ رَبِّي فَوَضَعَ شَطْرَهَا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ فَذَكَرَ مِثْلَهُ فَوَضَعَ شَطْرَهَا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ رَبِّي، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَقُلْتُ: قَدِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي، ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى أَتَى بِي السِّدْرَةَ الْمُنْتَهَى فَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ".
عبدان نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی اور انہیں زہری نے، (دوسری سند) اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ نے، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے گھر کی چھت کھولی گئی۔ میرا قیام ان دنوں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور میرا سینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف لے کر چلے، جب آسمان دنیا پر پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھولو، پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں جبرائیل، پھر پوچھا کہ آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا کہ میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پوچھا کہ انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا۔ جواب دیا کہ ہاں، اب دروازہ کھلا، جب ہم آسمان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی، کچھ انسانی روحیں ان کے دائیں طرف تھیں اور کچھ بائیں طرف، جب وہ دائیں طرف دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو رو پڑتے۔ انہوں نے کہا خوش آمدید، نیک نبی، نیک بیٹے! میں نے پوچھا، جبرائیل! یہ صاحب کون بزرگ ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور یہ انسانی روحیں ان کے دائیں اور بائیں طرف تھیں ان کی اولاد بنی آدم کی روحیں تھیں ان کے جو دائیں طرف تھیں وہ جنتی تھیں اور جو بائیں طرف تھیں وہ دوزخی تھیں، اسی لیے جب وہ دائیں طرف دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو روتے تھے، پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے اوپر لے کر چڑھے اور دوسرے آسمان پر آئے، اس آسمان کے داروغہ سے بھی انہوں نے کہا کہ دروازہ کھولو، انہوں نے بھی اسی طرح کے سوالات کئے جو پہلے آسمان پر ہو چکے تھے، پھر دروازہ کھولا، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے تفصیل سے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف آسمانوں پر ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو پایا، لیکن انہوں نے ان انبیاء کرام کے مقامات کی کوئی تخصیص نہیں کی، صرف اتنا کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدم علیہ السلام کو آسمان دنیا (پہلے آسمان پر) پایا اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے پر اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر جب جبرائیل علیہ السلام، ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا خوش آمدید، نیک نبی، نیک بھائی، میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں، پھر میں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انہوں نے بھی کہا خوش آمدید نیک نبی، نیک بھائی، میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ تو بتایا کہ عیسیٰ علیہ السلام۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے فرمایا کہ خوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے، میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں، ابن شہاب سے زہری نے بیان کیا اور مجھے ایوب بن حزم نے خبر دی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوحیہ انصاری رضی اللہ عنہم بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر مجھے اوپر لے کر چڑھے اور میں اتنے بلند مقام پر پہنچ گیا جہاں سے قلم کے لکھنے کی آواز صاف سننے لگی تھی، ابوبکر بن حزم نے بیان کیا اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے پچاس وقت کی نمازیں مجھ پر فرض کیں۔ میں اس فریضہ کے ساتھ واپس ہوا اور جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر کیا چیز فرض کی گئی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ پچاس وقت کی نمازیں ان پر فرض ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں، کیونکہ آپ کی امت میں اتنی نمازوں کی طاقت نہیں ہے، چنانچہ میں واپس ہوا اور رب العالمین کے دربار میں مراجعت کی، اس کے نتیجے میں اس کا ایک حصہ کم کر دیا گیا، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور اس مرتبہ بھی انہوں نے کہا کہ اپنے رب سے پھر مراجعت کریں پھر انہوں نے اپنی تفصیلات کا ذکر کیا کہ رب العالمین نے ایک حصہ کی پھر کمی کر دی، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور انہیں خبر کی، انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب سے مراجعت کریں، کیونکہ آپ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے، پھر میں واپس ہوا اور اپنے رب سے پھر مراجعت کی، اللہ تعالیٰ نے اس مرتبہ فرما دیا کہ نمازیں پانچ وقت کی کر دی گئیں اور ثواب پچاس نمازوں کا ہی باقی رکھا گیا، ہمارا قول بدلا نہیں کرتا۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے اب بھی اسی پر زور دیا کہ اپنے رب سے آپ کو پھر مراجعت کرنی چاہئے۔ لیکن میں نے کہا کہ مجھے اللہ پاک سے باربار درخواست کرتے ہوئے اب شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر آگے بڑھے اور سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لائے جہاں مختلف قسم کے رنگ نظر آئے، جنہوں نے اس درخت کو چھپا رکھا تھا میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے۔ اس کے بعد مجھے جنت میں داخل کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ موتی کے گنبد بنے ہوئے ہیں اور اس کی مٹی مشک کی طرح خوشبودار تھی۔

Narrated Anas (ra): Abu Dhar (ra) used to say that Allah's Messenger (saws) said, "While I was at Makkah, the roof of my house was opened and Jibril descended, opened my chest, and washed it with Zamzam water. Then he brought a golden tray full of wisdom and faith, and having poured its contents into my chest, he closed it. Then he took my hand and ascended with me to the heaven. When Jibril reached the nearest heaven, he said to the gatekeeper of the heaven, 'Open (the gate).' The gatekeeper asked, 'who is it?' Jibril answered, 'Jibril'. He asked, 'Is there anyone with you?' Jibril replied, 'Muhammad (saws) is with me.' He asked, 'Has he been called?', Jibril said, 'Yes'. So, the gate was opened and we went over the nearest heaven, and there we saw a man sitting with Aswida (a large number of people) of his right and Aswida on his left. When he looked towards his right, he laughed and when he looked towards his left he wept. He said (to me), 'Welcome, O pious Prophet and pious son'. I said, 'Who is this man O Jibril?' Jibril replied, 'He is Adam, and the people on his right and left are the souls of his offspring. Those on the right are the people of Paradise, and those on the left are the people of the (Hell) Fire. So, when he looks to the right, he laughs, and when he looks to the left he weeps.' Then Jibril ascended with me till he reached the second heaven and said to the gatekeeper, 'Open (the gate).' The gatekeeper said to him the same as the gatekeeper of the first heaven has said, and he opened the gate."Anas added: Abu Dhar mentioned that Prophet (saws) met Idris, Musa (Moses), 'Isa (Jesus) and Ibrahim (Abraham) over the heavens, but he did not specify their places (i.e., on which heavens each of them was), but he mentioned that he (the Prophet (saws)) had met Adam on the nearest heaven, and Ibrahim on the sixth. Anas said, "When Jibril and the Prophet (saws) passed by Idris, the latter said, 'Welcome, O pious Prophet and pious brother!' the Prophet (saws) asked, 'Who is he?' Jibril said, 'He is Idris.' " The Prophet (saws) added, "Then I passed by Musa who said, 'Welcome, O pious Prophet and pious brother!' I said, 'Who is he?' Jibril said, 'He is Musa.' Then I passed by 'Isa who said, 'Welcome, O pious Prophet and pious brother!' I said, 'Who is he?' He replied, 'He is 'Isa.' Then I passed by the Prophet Ibrahim who said, 'Welcome, O pious Prophet and pious son!' I said, 'Who is he?' Jibril replied, 'He is Ibrahim'."Narrated Ibn 'Abbas and Abu Haiyya Al-Ansari: The Prophet (saws) said, "Then Jibril ascended with me to a place where I heard the creaking of pens." Ibn Hazm and Anas bin Malik state the Prophet (saws) said, "Allah enjoined fifty Salat (prayers) on me. When I returned with this order of Allah, I passed by Musa who asked me, 'What has Allah enjoined on your followers?' I replied, 'He has enjoined fifty Salat (prayers) on them.' On the Musa said to me, 'Go back to your Lord (and appeal for reduction), for your followers will not be able to bear it.' So, I returned to my Lord and asked for some reduction, and He reduced it to half. When I passed by Musa again and informed him about it, he once more said to me, 'Go back to your Lord, for your followers will not be able to bear it.' So, I returned to my Lord similarly as before, and half of it was reduced. I again passed by Musa and he said to me, 'Go back to your Lord, for your followers will not be able to bear it.' I again returned to my Lord and He said, 'These are five (Salat-prayers) and they are all (equal to) fifty (in reward), for My Word does not change.' I returned to Musa, he again told me to return to my Lord (for further reduction) but I said to him 'I feel shy of asking my Lord now.' Then Jibril took me till we reached Sidrat-ul-Muntaha (i.e., lote tree of utmost boundary) which was shrouded in colors indescribable. Then I was admitted into Paradise where I found small tents (made) of pearls and its earth was musk (a kind of perfume)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 557

   صحيح البخاري3342فرج سقف بيتي وأنا بمكة فنزل جبريل ففرج صدري ثم غسله بماء زمزم ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فأفرغها في صدري ثم أطبقه ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء فلما جاء إلى السماء الدنيا قال جبريل لخازن السماء افتح قال من هذا قال هذا جبريل قال معك أحد قال معي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3342  
3342. حضرت انس ؓسے روایت ہے، وہ حضرت ابو ذر ؓسے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب میں مکہ میں تھاتو میرے گھر کی چھت کھول دی گئی۔ پھر حضرت جبریل ؑ نازل ہوئے اور انھوں نے میرے سینے کو چاک کیا۔ پھر اسے آب زمزم سے دھویا۔ اس کے بعد سونے کا ایک تھال لائے۔ جو حکمت اور ایمان سے بھراہوا تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا۔ پھر چاک شدہ سینے کو بند کردیا، پھر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان پر لے گئے۔ جب آسمان اول کے قریب آئے تو انھوں نے آسمان کے نگران سے کہا: دروازہ کھولو۔ اس نے پوچھا: یہ کون ہے؟ کہا: میں جبریل ؑ ہوں۔ اس نے پوچھا: آپ کےہمراہ کوئی ہے؟ انھوں نے بتایا: میرے ہمراہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا آپ کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں، دروازہ کھولو۔ (اس نے دروازہ کھول دیا۔) جب ہم آسمان دنیا پر چڑھے تو وہاں ایک شخص تھا جس کے دائیں بائیں کچھ لوگ تھے۔ جب وہ اپنی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3342]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث شریف میں حضرت ادریس ؑ کا ذکر خیر آیا۔
اسی مناسبت سے اسے یہاں درج کیاگیا۔
معراج کا واقعہ اپنی جگہ پر بیان کیا جائے گا، إن شاءاللہ تعالیٰ۔
نوٹ:
حدیث معراج کا یہ عقیدہ لازماً رکھنا چاہئے کہ معراج جسمانی برحق ہے اور اس میں سینہ چاک ہونے وغیرہ وغیرہ جتنے بھی کوائف مذکور ہوئے ہیں اپنے ظاہری معانی کے لحاظ سے برحق ہیں۔
ظاہر پر ایمان لانا اور دیگر کوائف اللہ کے حوالہ کرنا ایمان والوں کا شیوہ ہے۔
اس میں مزید کرید کرنا جائز نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3342   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3342  
3342. حضرت انس ؓسے روایت ہے، وہ حضرت ابو ذر ؓسے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب میں مکہ میں تھاتو میرے گھر کی چھت کھول دی گئی۔ پھر حضرت جبریل ؑ نازل ہوئے اور انھوں نے میرے سینے کو چاک کیا۔ پھر اسے آب زمزم سے دھویا۔ اس کے بعد سونے کا ایک تھال لائے۔ جو حکمت اور ایمان سے بھراہوا تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا۔ پھر چاک شدہ سینے کو بند کردیا، پھر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان پر لے گئے۔ جب آسمان اول کے قریب آئے تو انھوں نے آسمان کے نگران سے کہا: دروازہ کھولو۔ اس نے پوچھا: یہ کون ہے؟ کہا: میں جبریل ؑ ہوں۔ اس نے پوچھا: آپ کےہمراہ کوئی ہے؟ انھوں نے بتایا: میرے ہمراہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا آپ کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں، دروازہ کھولو۔ (اس نے دروازہ کھول دیا۔) جب ہم آسمان دنیا پر چڑھے تو وہاں ایک شخص تھا جس کے دائیں بائیں کچھ لوگ تھے۔ جب وہ اپنی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3342]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں حضرت ادریس ؑ کا ذکر ہے۔
اس مناسبت سے اسے یہاں بیان کیا گیا ہے۔

معراج کا واقعہ اور اس کی تفصیلات آئندہ بیان کی جائیں گی۔
صرف دو باتیں یہاں بیان کی جاتی ہیں۔
(ا)
معراج کے متعلق ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ نیند کی حالت میں نہیں بلکہ بیداری کے عالم میں ہوا اور روحانی نہیں جبکہ جسمانی ہے۔
اس میں سینہ چاک ہونے کے جو کوائف بیان ہوئے ہیں وہ اپنے ظاہری معانی کے اعتبار سے برحق ہیں۔
ہم اس کے ظاہر پر ایمان رکھتے ہیں اور باقی معاملات ہم اللہ کے حوالے کرتے ہیں ان کے متعلق کرید کرنا جائز نہیں۔
(ب)
دیگر روایات کی روشنی میں ساتویں آسمان پر جانے کے بعد واقعات کی ترتیب اس طرح ہے پہلے سدرۃ المنتہیٰ پھر بیت المعمور پھر پانچ نمازیں فرض کی گئیں اس روایت میں تریب ذکری ہے مکانی نہیں کیونکہ نمازوں کی فرضیت کے بعد آپ اوپر نہیں گئے جیسا کہ اس حدیث میں مذکورہے بلکہ آپ نیچے آئے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3342   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.