الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
The Virtues and Merits of The Companions of The Prophet
2. بَابُ مَنَاقِبِ الْمُهَاجِرِينَ وَفَضْلِهِمْ:
2. باب: مہاجرین کے مناقب اور فضائل کا بیان۔
(2) Chapter. The virtues ot tne emigrants (i.e., Muhajirun) and their merits.
حدیث نمبر: Q3652
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقول الله تعالى: للفقراء المهاجرين الذين اخرجوا من ديارهم واموالهم يبتغون فضلا من الله ورضوانا وينصرون الله ورسوله اولئك هم الصادقون سورة الحشر آية 8 , وقال الله: إلا تنصروه فقد نصره الله إلى قوله إن الله معنا سورة التوبة آية 40 قالت: عائشة , وابو سعيد , وابن عباس رضي الله عنهم , وكان ابو بكر مع النبي صلى الله عليه وسلم في الغار.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ سورة الحشر آية 8 , وَقَالَ اللَّهُ: إِلا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِلَى قَوْلِهِ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا سورة التوبة آية 40 قَالَتْ: عَائِشَةُ , وَأَبُو سَعِيدٍ , وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ , وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَارِ.
‏‏‏‏ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یعنی عبداللہ بن ابی قحافہ تیمی رضی اللہ عنہ بھی مہاجرین میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الحشر) میں ان مہاجرین کا ذکر کیا، ان مفلس مہاجروں کا یہ (خاص طور پر) حق ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے جدا کر دئیے گئے ہیں جو اللہ کا فضل اور رضا مندی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرنے کو آئے ہیں یہی لوگ سچے ہیں۔ اور (سورۃ التوبہ میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا «إلا تنصروه فقد نصره الله‏» اگر تم لوگ ان کی (یعنی رسول کی) مدد نہ کرو گے تو ان کی مدد تو خود اللہ کر چکا ہے۔ آخر آیت «إن الله معنا‏» تک۔ عائشہ، ابو سعید خدری اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ہجرت کے وقت) غار ثور میں رہے تھے۔

حدیث نمبر: 3652
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن رجاء، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: اشترى ابو بكر رضي الله عنه من عازب رحلا بثلاثة عشر درهما، فقال ابو بكر لعازب: مر البراء فليحمل إلي رحلي، فقال عازب: لا حتى تحدثنا كيف صنعت انت ورسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرجتما من مكة والمشركون يطلبونكم، قال: ارتحلنا من مكة فاحيينا او سرينا ليلتنا ويومنا حتى اظهرنا وقام قائم الظهيرة، فرميت ببصري هل ارى من ظل فآوي إليه , فإذا صخرة اتيتها فنظرت بقية ظل لها فسويته، ثم فرشت للنبي صلى الله عليه وسلم فيه، ثم قلت: له اضطجع يا نبي الله , فاضطجع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم انطلقت انظر ما حولي هل ارى من الطلب احدا , فإذا انا براعي غنم يسوق غنمه إلى الصخرة يريد منها الذي اردنا فسالته، فقلت له: لمن انت يا غلام؟ قال: لرجل من قريش , سماه فعرفته، فقلت: هل في غنمك من لبن؟، قال: نعم، قلت: فهل انت حالب لنا؟ قال: نعم , فامرته , فاعتقل شاة من غنمه، ثم امرته ان ينفض ضرعها من الغبار، ثم امرته ان ينفض كفيه، فقال: هكذا ضرب إحدى كفيه بالاخرى فحلب لي كثبة من لبن وقد جعلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم إداوة على فمها خرقة , فصببت على اللبن حتى برد اسفله , فانطلقت به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فوافقته قد استيقظ، فقلت: اشرب يا رسول الله فشرب حتى رضيت، ثم قلت: قد آن الرحيل يا رسول الله، قال:" بلى" , فارتحلنا والقوم يطلبوننا فلم يدركنا احد منهم غير سراقة بن مالك بن جعشم على فرس له، فقلت: هذا الطلب قد لحقنا يا رسول الله، فقال:" لا تحزن إن الله معنا".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: اشْتَرَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ عَازِبٍ رَحْلًا بِثَلَاثَةَ عَشَرَ دِرْهَمًا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعَازِبٍ: مُرْ الْبَرَاءَ فَلْيَحْمِلْ إِلَيَّ رَحْلِي، فَقَالَ عَازِبٌ: لَا حَتَّى تُحَدِّثَنَا كَيْفَ صَنَعْتَ أَنْتَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجْتُمَا مِنْ مَكَّةَ وَالْمُشْرِكُونَ يَطْلُبُونَكُمْ، قَالَ: ارْتَحَلْنَا مِنْ مَكَّةَ فَأَحْيَيْنَا أَوْ سَرَيْنَا لَيْلَتَنَا وَيَوْمَنَا حَتَّى أَظْهَرْنَا وَقَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ، فَرَمَيْتُ بِبَصَرِي هَلْ أَرَى مِنْ ظِلٍّ فَآوِيَ إِلَيْهِ , فَإِذَا صَخْرَةٌ أَتَيْتُهَا فَنَظَرْتُ بَقِيَّةَ ظِلٍّ لَهَا فَسَوَّيْتُهُ، ثُمَّ فَرَشْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ، ثُمَّ قُلْتُ: لَهُ اضْطَجِعْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , فَاضْطَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ انْطَلَقْتُ أَنْظُرُ مَا حَوْلِي هَلْ أَرَى مِنَ الطَّلَبِ أَحَدًا , فَإِذَا أَنَا بِرَاعِي غَنَمٍ يَسُوقُ غَنَمَهُ إِلَى الصَّخْرَةِ يُرِيدُ مِنْهَا الَّذِي أَرَدْنَا فَسَأَلْتُهُ، فَقُلْتُ لَهُ: لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلَامُ؟ قَالَ: لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ , سَمَّاهُ فَعَرَفْتُهُ، فَقُلْتُ: هَلْ فِي غَنَمِكَ مِنْ لَبَنٍ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: فَهَلْ أَنْتَ حَالِبٌ لَنَا؟ قَالَ: نَعَمْ , فَأَمَرْتُهُ , فَاعْتَقَلَ شَاةً مِنْ غَنَمِهِ، ثُمَّ أَمَرْتُهُ أَنْ يَنْفُضَ ضَرْعَهَا مِنَ الْغُبَارِ، ثُمَّ أَمَرْتُهُ أَنْ يَنْفُضَ كَفَّيْهِ، فَقَالَ: هَكَذَا ضَرَبَ إِحْدَى كَفَّيْهِ بِالْأُخْرَى فَحَلَبَ لِي كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ وَقَدْ جَعَلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِدَاوَةً عَلَى فَمِهَا خِرْقَةٌ , فَصَبَبْتُ عَلَى اللَّبَنِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ , فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَافَقْتُهُ قَدِ اسْتَيْقَظَ، فَقُلْتُ: اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ، ثُمَّ قُلْتُ: قَدْ آنَ الرَّحِيلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" بَلَى" , فَارْتَحَلْنَا وَالْقَوْمُ يَطْلُبُونَنَا فَلَمْ يُدْرِكْنَا أَحَدٌ مِنْهُمْ غَيْرُ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ عَلَى فَرَسٍ لَهُ، فَقُلْتُ: هَذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا".
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے اور ان سے براء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (ان کے والد) عازب رضی اللہ عنہ سے ایک پالان تیرہ درہم میں خریدا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عازب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ براء (اپنے بیٹے) سے کہو کہ وہ میرے گھر یہ پالان اٹھا کر پہنچا دیں اس پر عازب رضی اللہ عنہ نے کہا یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک آپ وہ واقعہ بیان نہ کریں کہ آپ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ سے ہجرت کرنے کے لیے) کس طرح نکلے تھے حالانکہ مشرکین آپ دونوں کو تلاش بھی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مکہ سے نکلنے کے بعد ہم رات بھر چلتے رہے اور دن میں بھی سفر جاری رکھا۔ لیکن جب دوپہر ہو گئی تو میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ کہیں کوئی سایہ نظر آ جائے اور ہم اس میں کچھ آرام کر سکیں۔ آخر ایک چٹان دکھائی دی اور میں نے اس کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ سایہ ہے۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک فرش وہاں بچھا دیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اب آرام فرمائیں۔ چنانچہ آپ لیٹ گئے۔ پھر میں چاروں طرف دیکھتا ہوا نکلا کہ کہیں لوگ ہماری تلاش میں نہ آئے ہوں۔ پھر مجھ کو بکریوں کا ایک چرواہا دکھائی دیا جو اپنی بکریاں ہانکتا ہوا اسی چٹان کی طرف آ رہا تھا۔ وہ بھی ہماری طرح سایہ کی تلاش میں تھا۔ میں نے بڑھ کر اس سے پوچھا کہ لڑکے تم کس کے غلام ہو۔ اس نے قریش کے ایک شخص کا نام لیا تو میں نے اسے پہچان لیا۔ پھر میں نے اس سے پوچھا: کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے۔ اس نے کہا جی ہاں۔ میں نے کہا: کیا تم دودھ دوہ سکتے ہوں؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا اور اس نے اپنے ریوڑ کی ایک بکری باندھ دی۔ پھر میرے کہنے پر اس نے اس کے تھن کے غبار کو جھاڑا۔ اب میں نے کہا کہ اپنا ہاتھ بھی جھاڑ لے۔ اس نے یوں اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارا اور میرے لیے تھوڑا سا دودھ دوہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک برتن میں نے پہلے ہی سے ساتھ لے لیا تھا اور اس کے منہ کو کپڑے سے بند کر دیا تھا (اس میں ٹھنڈا پانی تھا) پھر میں نے دودھ پر وہ پانی (ٹھنڈا کرنے کے لیے) ڈالا اتنا کہ وہ نیچے تک ٹھنڈا ہو گیا تو اسے آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا۔ آپ بھی بیدار ہو چکے تھے۔ میں نے عرض کیا: دودھ پی لیجئے۔ آپ نے اتنا پیا کہ مجھے خوشی حاصل ہو گئی، پھر میں نے عرض کیا کہ اب کوچ کا وقت ہو گیا ہے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے، چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور مکہ والے ہماری تلاش میں تھے لیکن سراقہ بن مالک بن جعشم کے سوا ہم کو کسی نے نہیں پایا، وہ اپنے گھوڑے پر سوار تھا، میں نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ یا رسول اللہ! ہمارا پیچھا کرنے والا دشمن ہمارے قریب آ پہنچا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فکر نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔

Narrated Al-Bara: Abu Bakr bought a (camel) saddle from `Azib for thirteen Dirhams. Abu Bakr said to `Azib, "Tell Al- Bara' to carry the saddle for me." `Azib said, "No, unless you relate to me what happened to you and Allah 's Apostle when you left Mecca while the pagans were in search of you." Abu Bakr said, "We left Mecca and we travel led continuously for that night and the following day till it was midday. I looked (around) searching for shade to take as shelter, and suddenly I came across a rock, and found a little shade there. So I cleaned the place and spread a bed for the Prophet in the shade and said to him, 'Lie down, O Allah's Apostle.' So the Prophet lay down and I went out, looking around to see if there was any person pursuing us. Suddenly I saw a shepherd driving his sheep towards the rock, seeking what we had already sought from it. I asked him, 'To whom do you belong, O boy?' He said, 'I belong to a man from Quraish.' He named the man and I recognized him. I asked him, 'Is there any milk with your sheep?' He said, 'Yes.' I said, 'Will you then milk (some) for us?' He said, 'Yes.' Then I asked him to tie the legs of one of the sheep and clean its udder, and then ordered him to clean his hands from dust. Then the shepherd cleaned his hands by striking his hands against one another. After doing so, he milked a small amount of milk. I used to keep for Allah's Apostle a leather water-container, the mouth of which was covered with a piece of cloth. I poured water on the milk container till its lower part was cold. Then I took the milk to the Prophet whom I found awake. I said to him, 'Drink, O Allah's Apostle.' So he drank till I became pleased. Then I said, 'It is time for us to move, O Allahs Apostle!' He said, 'Yes.' So we set out while the people (i.e. Quraish pagans) were searching for us, but none found us except Suraiqa bin Malik bin Jushum who was riding his horse. I said, 'These are our pursuers who have found us. O Allah's Apostle!' He said, 'Do not grieve, for Allah is with us."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 4

   صحيح البخاري3908براء بن عازبتبعه سراقة بن مالك بن جعشم فدعا عليه النبي فساخت به فرسه قال ادع الله لي ولا أضرك فدعا له عطش رسول الله فمر براع قال أبو بكر فأخذت قدحا فحلبت فيه كثبة من لبن فأتيته فشرب حتى رضيت
   صحيح البخاري3615براء بن عازبأسرينا ليلتنا ومن الغد حتى قام قائم الظهيرة وخلا الطريق لا يمر فيه أحد فرفعت لنا صخرة طويلة لها ظل لم تأت عليه الشمس فنزلنا عنده وسويت للنبي مكانا بيدي ينام عليه وبسطت فيه فروة وقلت نم يا رسول الله وأنا أنفض لك ما حولك فنام وخرجت أنفض م
   صحيح البخاري2439براء بن عازبانطلقت فإذا أنا براعي غنم يسوق غنمه فقلت لمن أنت قال لرجل من قريش فسماه فعرفته فقلت هل في غنمك من لبن فقال نعم فقلت هل أنت حالب لي قال نعم فأمرته فاعتقل شاة من غنمه ثم أمرته أن ينفض ضرعها من الغبار ثم أمرته أن ينفض كفيه فقال هكذا ضرب إ
   صحيح البخاري3917براء بن عازبأخذ علينا بالرصد فخرجنا ليلا فأحثثنا ليلتنا ويومنا قام قائم الظهيرة ثم رفعت لنا صخرة فأتيناها ولها شيء من ظل فرشت لرسول الله فروة معي ثم اضطجع عليها النبي فانطلقت أنف
   صحيح البخاري3652براء بن عازباشترى أبو بكر من عازب رحلا بثلاثة عشر درهما فقال أبو بكر لعازب مر البراء فليحمل إلي رحلي فقال عازب لا حتى تحدثنا كيف صنعت أنت ورسول الله حين خرجتما من مكة والمشركون يطلبونكم قال ارتحلنا من مكة فأحيينا أو سرينا ليلتنا ويو
   صحيح مسلم7521براء بن عازبأسرينا ليلتنا كلها حتى قام قائم الظهيرة وخلا الطريق فلا يمر فيه أحد حتى رفعت لنا صخرة طويلة لها ظل لم تأت عليه الشمس بعد فنزلنا عندها فأتيت الصخرة فسويت بيدي مكانا ينام فيه النبي في ظلها ثم بسطت عليه فروة ثم قلت نم يا رسول الله وأنا أنف
   صحيح مسلم5239براء بن عازبأخذت قدحا فحلبت فيه لرسول الله كثبة من لبن فأتيته به فشرب حتى رضيت
   صحيح مسلم5238براء بن عازبحلبت له كثبة من لبن فأتيته بها فشرب حتى رضيت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  صحيح مسلم مختصر مع شرح نووي: تحت الحديث صحيح مسلم 7521  
´حربی کا مال`
. . . میں مدینہ والوں میں سے ایک شخص کا غلام ہوں (مراد مدینہ سے شہر ہے یعنی مکہ والوں میں سے) میں نے کہا: تیری بکریوں میں دودھ ہے؟ وہ بولا: ہاں ہے۔ میں نے کہا: تو دودھ دوہئے گا ہم کو؟ وہ بولا: ہاں۔ پھر اس نے ایک بکری کو پکڑا، میں نے کہا: اس کا تھن صاف کر لے بالوں اور مٹی اور کوڑے سے تا کہ دودھ میں یہ چیزیں نہ پڑیں۔ (راوی نے کہا:) میں نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتے تھے، جھاڑتے تھے۔ خیر اس لڑکے نے دودھ دوھا لکڑی کے ایک پیالہ میں تھوڑا دودھ اور میرے ساتھ ایک ڈول تھا جس میں پانی رکھتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے اور وضو کرنے کے لیے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں رسول اللہ کے پاس آیا اور مجھے برا معلوم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگانا لیکن میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بخود جاگ اٹھے ہیں۔ میں نے دودھ پر پانی ڈالا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ پھر میں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ دودھ پیجئیے . . . [صحيح مسلم/كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ: 7521]

تشریح:
نووی رحمہ اللہ نے کہا: یہ جو آپ نے اس لڑکے کے ہاتھ سے دودھ پیا حالانکہ وہ اس دودھ کا مالک نہ تھا اس کی چار توجیہیں کی ہیں ایک یہ کہ مالک کی طرف سے مسافروں اور مہمانوں کو پلانے کی اجازت تھی۔ دوسرے یہ کہ وہ جانور کسی دوست کے ہوں گے جس کے مال میں تصرف کر سکتے ہوں گے۔ تیسرے یہ کہ وہ حربی کا مال تھا جس کو امان نہیں ملی اور ایسا مال لینا جائز ہے۔ چوتھے یہ کہ وہ مضطر تھے۔ اول کی دو توجیہیں عمدہ ہیں۔
   مختصر شرح نووی، حدیث\صفحہ نمبر: 7521   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3652  
3652. حدیث میں سبقت سے مراد یہ ہے کہ دین سے بے پروائی کی وجہ سے ان میں حرص اور لالچ کا غلبہ ہوگا بس یہی ہو گاکہ جس چیز سے ابتدا کریں شہادت سے یا قسم سے، گویا ان دونوں کی وجہ سے ایک دوڑ لگی ہوگی۔ اس کا مصداق دیکھنا ہوگا تو ہماری عدالتوں میں تیار شدہ گواہوں کودیکھ لیاجائے۔ دولت کی لالچ میں وہ جھوٹی گواہی اور جھوٹی قسم دینے کے لیے ہروقت تیار بیٹھے ہیں، حالانکہ گواہی چشم دید واقعہ اور قسم یقینی امر کی ہوتی ہے لیکن انھیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ تُرِيحُونَ کے معنی شام کو چرانا اور تَسْرَحُونَ کے معنی صبح کو چرانا ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3652]
حدیث حاشیہ:
واقعہ ہجرت حیات نبوی کا ایک اہم واقعہ ہے جس میں آپ کے بہت سے معجزات کا ظہور ہوا یہاں بھی چند معجزات کا بیان ہوا ہے چنانچہ باب مہاجرین کے فضائل سے متعلق ہے، اس لیے اس میں ہجرت کے ابتدائی واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔
یہی باب اور حدیث کا تعلق ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3652   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.