الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
30. بَابُ الصَّلاَةُ مِنَ الإِيمَانِ:
30. باب: نماز ایمان کا جزو ہے۔
(30) Chapter. The (offering of) Salat (prayers) is a part of faith.
حدیث نمبر: Q40
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقول الله تعالى: {وما كان الله ليضيع إيمانكم} يعني صلاتكم عند البيت.وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ} يَعْنِي صَلاَتَكُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں۔ یعنی تمہاری وہ نمازیں جو تم نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی ہیں، قبول ہیں۔

حدیث نمبر: 40
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عمرو بن خالد، قال: حدثنا زهير، قال: حدثنا ابو إسحاق، عن البراء بن عازب،" ان النبي صلى الله عليه وسلم كان اول ما قدم المدينة نزل على اجداده، او قال: اخواله من الانصار، وانه صلى قبل بيت المقدس ستة عشر شهرا او سبعة عشر شهرا، وكان يعجبه ان تكون قبلته قبل البيت، وانه صلى اول صلاة صلاها صلاة العصر وصلى معه قوم، فخرج رجل ممن صلى معه فمر على اهل مسجد وهم راكعون، فقال: اشهد بالله لقد صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل مكة فداروا كما هم قبل البيت، وكانت اليهود قد اعجبهم إذ كان يصلي قبل بيت المقدس، واهل الكتاب، فلما ولى وجهه قبل البيت انكروا ذلك". قال قال زهير: حدثنا ابو إسحاق، عن البراء في حديثه هذا، انه مات على القبلة قبل ان تحول رجال، وقتلوا فلم ندر ما نقول فيهم، فانزل الله تعالى: وما كان الله ليضيع إيمانكم سورة البقرة آية 143.حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَوَّلَ مَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ نَزَلَ عَلَى أَجْدَادِهِ، أَوْ قَالَ: أَخْوَالِهِ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَأَنَّهُ صَلَّى قِبَلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ يُعْجِبُهُ أَنْ تَكُونَ قِبْلَتُهُ قِبَلَ الْبَيْتِ، وَأَنَّهُ صَلَّى أَوَّلَ صَلَاةٍ صَلَّاهَا صَلَاةَ الْعَصْرِ وَصَلَّى مَعَهُ قَوْمٌ، فَخَرَجَ رَجُلٌ مِمَّنْ صَلَّى مَعَهُ فَمَرَّ عَلَى أَهْلِ مَسْجِدٍ وَهُمْ رَاكِعُونَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ بِاللَّهِ لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ مَكَّةَ فَدَارُوا كَمَا هُمْ قِبَلَ الْبَيْتِ، وَكَانَتْ الْيَهُودُ قَدْ أَعْجَبَهُمْ إِذْ كَانَ يُصَلِّي قِبَلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَأَهْلُ الْكِتَابِ، فَلَمَّا وَلَّى وَجْهَهُ قِبَلَ الْبَيْتِ أَنْكَرُوا ذَلِكَ". قَالَ قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ فِي حَدِيثِهِ هَذَا، أَنَّهُ مَاتَ عَلَى الْقِبْلَةِ قَبْلَ أَنْ تُحَوَّلَ رِجَالٌ، وَقُتِلُوا فَلَمْ نَدْرِ مَا نَقُولُ فِيهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ سورة البقرة آية 143.
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا، ان کو براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنی نانہال میں اترے، جو انصار تھے۔ اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ کی طرف ہو (جب بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہو گیا) تو سب سے پہلی نماز جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی طرف پڑھی عصر کی نماز تھی۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک آدمی نکلا اور اس کا مسجد (بنی حارثہ) کی طرف گزر ہوا تو وہ لوگ رکوع میں تھے۔ وہ بولا کہ میں اللہ کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ (یہ سن کر) وہ لوگ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے، یہود اور عیسائی خوش ہوتے تھے مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی طرف منہ پھیر لیا تو انہیں یہ امر ناگوار ہوا۔ زہیر (ایک راوی) کہتے ہیں کہ ہم سے ابواسحاق نے براء سے یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ قبلہ کی تبدیلی سے پہلے کچھ مسلمان انتقال کر چکے تھے۔ تو ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کی نمازوں کے بارے میں کیا کہیں۔ تب اللہ نے یہ آیت نازل کی «وما كان الله ليضيع إيمانكم‏» (البقرہ: 143)۔

Narrated Al-Bara' (bin 'Azib): When the Prophet came to Medina, he stayed first with his grandfathers or maternal uncles from Ansar. He offered his prayers facing Baitul-Maqdis (Jerusalem) for sixteen or seventeen months, but he wished that he could pray facing the Ka'ba (at Mecca). The first prayer which he offered facing the Ka'ba was the 'Asr prayer in the company of some people. Then one of those who had offered that prayer with him came out and passed by some people in a mosque who were bowing during their prayers (facing Jerusalem). He said addressing them, "By Allah, I testify that I have prayed with Allah's Apostle facing Mecca (Ka'ba).' Hearing that, those people changed their direction towards the Ka'ba immediately. Jews and the people of the scriptures used to be pleased to see the Prophet facing Jerusalem in prayers but when he changed his direction towards the Ka'ba, during the prayers, they disapproved of it. Al-Bara' added, "Before we changed our direction towards the Ka'ba (Mecca) in prayers, some Muslims had died or had been killed and we did not know what to say about them (regarding their prayers.) Allah then revealed: And Allah would never make your faith (prayers) to be lost (i.e. the prayers of those Muslims were valid).' " (2:143).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 40

   صحيح البخاري4486براء بن عازبصلى إلى بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا وكان يعجبه أن تكون قبلته قبل البيت وأنه صلى أو صلاها صلاة العصر وصلى معه قوم فخرج رجل ممن كان صلى معه فمر على أهل المسجد وهم راكعون قال أشهد بالله لقد صليت مع النبي قبل مكة فداروا كما هم
   صحيح البخاري4492براء بن عازبصلينا مع النبي نحو بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا ثم صرفه نحو القبلة
   صحيح البخاري399براء بن عازبصلى نحو بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا وكان رسول الله يحب أن يوجه إلى الكعبة فأنزل الله قد نرى تقلب وجهك في السماء
   صحيح البخاري7252براء بن عازبصلى نحو بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا وكان يحب أن يوجه إلى الكعبة فأنزل الله قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها
   صحيح البخاري40براء بن عازبصلى قبل بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا وكان يعجبه أن تكون قبلته قبل البيت وأنه صلى أول صلاة صلاها صلاة العصر وصلى معه قوم فخرج رجل ممن صلى معه فمر على أهل مسجد وهم راكعون فقال أشهد بالله لقد صليت مع رسول الله قبل مكة فداروا كم
   صحيح مسلم1177براء بن عازبصلينا مع رسول الله نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا ثم صرفنا نحو الكعبة
   صحيح مسلم1176براء بن عازبصليت مع النبي إلى بيت المقدس ستة عشر شهرا حتى نزلت الآية التي في البقرة وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره
   جامع الترمذي2962براء بن عازبصلى نحو بيت المقدس ستة أو سبعة عشر شهرا وكان رسول الله يحب أن يوجه إلى الكعبة فأنزل الله قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام
   سنن النسائى الصغرى489براء بن عازبصلينا مع النبي نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا وصرف إلى القبلة
   سنن النسائى الصغرى743براء بن عازبقدم رسول الله المدينة فصلى نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا ثم وجه إلى الكعبة فمر رجل قد كان صلى مع النبي على قوم من الأنصار فقال أشهد أن رسول الله قد وجه إلى الكعبة فانحرفوا إلى الكعبة
   سنن النسائى الصغرى490براء بن عازبفصلى نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا ثم إنه وجه إلى الكعبة فمر رجل قد كان صلى مع النبي على قوم من الأنصار فقال أشهد أن رسول الله قد وجه إلى الكعبة فانحرفوا إلى الكعبة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 489  
´قبلہ کی فرضیت کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، یہ شک سفیان کی طرف سے ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ (خانہ کعبہ) کی طرف پھیر دئیے گئے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 489]
489 ۔ اردو حاشیہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما انصاری صحابی ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے ہجرت تک کے بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھیں۔ تو حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ ہجرت سے سولہ سترہ ماہ بعد تک قبلہ بیت القدس ہی رہا۔ 15رجب یا شعبان 2ہجری میں بیت اللہ کو قبلہ مقرر کیا گیا۔ قبلے سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کے لیے کتاب القبلۃ کا ابتدائی ملاحظہ فرمائیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 489   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 490  
´قبلہ کی فرضیت کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ نے سولہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے، تو ایک آدمی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا، انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے ہیں، (لوگوں نے یہ سنا) تو وہ بھی قبلہ کی طرف پھر گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 490]
490 ۔ اردو حاشیہ:
➊انصار کے اس قبیلے کا نام بنوحارثہ تھا۔
➋انصار کا نماز ہی میں بیت اللہ کی طرف رخ کرنا تمام نمازیوں کے لیے کچھ نہ کچھ حرکات کا باعث بنا کیونکہ بیت اللہ، بیت المقدس سے بالکل مخالف جانب ہے۔ ظاہر ہے امام کو صفیں چیر کر دوسری جانب آنا پڑا اور مقتدیوں کو بھی صفیں بدلنی پڑیں۔ معلوم ہوا کہ نماز کی اصلاح کے لیے جو بھی حرکت کرنی پڑے، وہ نماز کے فساد کا موجب نہیں، قلیل ہو یا کثیر۔
➌ثابت ہوا کہ خبرواحد حجت ہے۔
➍کسی حکم کے علم سے قبل اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ تبدیلی قبلہ کا حکم تو اس قبیلے کے نماز شروع کرنے سے قبل آچکا تھا مگر چونکہ ان کو علم نماز کے دوران میں ہوا، لہٰذا پہلے سے پڑھی ہوئی نماز جو دوسرے قبلے کی طرف تھی، فاسد نہیں ہوئی۔
➎یہ بات اختلافی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا وحی سے تھا یا اہل کتاب سے موافقت کی بنا پر۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 490   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 743  
´قبلہ رخ ہونے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے سولہ ماہ تک بیت المقدس کی جانب نماز پڑھی، پھر آپ خانہ کعبہ کی طرف پھیر دیئے گئے، ایک شخص جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا، انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف کر دیا گیا ہے، وہ لوگ (یہ سنتے ہی نماز کی حالت میں) کعبہ کی طرف پھر گئے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 743]
743 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 489، 490۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 743   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2962  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تو سولہ یا سترہ مہینے تک آپ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، حالانکہ آپ کی خواہش یہی تھی کہ قبلہ کعبہ کی طرف کر دیا جائے، تو اللہ نے آپ کی اس خواہش کے مطابق «قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام» ہم آپ کے چہرے کو باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں، آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں (البقرہ: ۱۴۴)، پھر آپ کعبہ کی طرف پھیر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2962]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ہم آپﷺ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں،
اب ہم آپﷺ کو اس قبلہ کی جانب پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں،
آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں (البقرۃ: 144)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2962   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 40  
40. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب (ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے ددھیال یا ننھیال، جو انصار سے تھے، کے ہاں اترے اور (مدینے میں) سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے، البتہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ کعبے کی طرف ہو جائے (چنانچہ ہو گیا)۔ اور پہلی نماز جو آپ نے (کعبے کی طرف) پڑھی، وہ عصر کی نماز تھی اور آپ کے ہمراہ کچھ اور لوگ بھی تھے، پھر ان میں سے ایک شخص نکلا اور کسی مسجد والوں کے پاس سے اس کا گزر ہوا، وہ (بیت المقدس کی طرف منہ کیے ہوئے) رکوع کی حالت میں تھے تو اس نے کہا: میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مکے کی طرف نماز پڑھی ہے۔ (یہ سنتے ہی) وہ لوگ جس حالت میں تھے اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے۔ اور جب آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے تو یہودی اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:40]
حدیث حاشیہ:
مبارک خواب:
ایمان میں اعمال صالحہ بھی داخل ہیں، یہ بحث پیچھے بھی مفصل آچکی ہے مگروہاں یہ آیت نہ تھی الحمدللہ ایک رات تہجد کے وقت خواب میں مجھ کو باربار تاکید کے ساتھ یہ آیت پڑھ کر کہا گیا کہ اس کو یہاں بھی لکھو چنانچہ حدیث 39 میں یہ آیت میں نے اسی خواب کی بنا پر نقل کی ہے:
﴿وَكَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا﴾ (راز)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 40   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:40  
40. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب (ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے ددھیال یا ننھیال، جو انصار سے تھے، کے ہاں اترے اور (مدینے میں) سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے، البتہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ کعبے کی طرف ہو جائے (چنانچہ ہو گیا)۔ اور پہلی نماز جو آپ نے (کعبے کی طرف) پڑھی، وہ عصر کی نماز تھی اور آپ کے ہمراہ کچھ اور لوگ بھی تھے، پھر ان میں سے ایک شخص نکلا اور کسی مسجد والوں کے پاس سے اس کا گزر ہوا، وہ (بیت المقدس کی طرف منہ کیے ہوئے) رکوع کی حالت میں تھے تو اس نے کہا: میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مکے کی طرف نماز پڑھی ہے۔ (یہ سنتے ہی) وہ لوگ جس حالت میں تھے اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے۔ اور جب آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے تو یہودی اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:40]
حدیث حاشیہ:

اس سے مراد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ اعمال کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے حالانکہ قرآن کریم میں نماز کو ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور نماز کا خصوصی تعلق ہے کیونکہ نماز ایمان کا عظیم شعار ہے بندے اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے، دین کا مستحکم ستون ہے، اس تعلق کی وجہ سے صلاۃ گویا عین ایمان ہے۔
جب یہ عمل ایمان ٹھہرا تو اس میں کمی بیشی بھی ممکن ہے۔
نماز پر ایمان کا اطلاق، اطلاق الکل علی الجزء ہے لہٰذا ایمان کے لیے نماز ایک جز ثابت ہوئی۔
ھذا ھوالمقصود2۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی وہ نماز جو بیت اللہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئی نماز عصر تھی روایات کی رو سے وہ نماز ظہر تھی۔
دراصل واقعات یہ ہیں کہ بنو سلمہ جو مسجد نبوی سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے وہاں حضرت بشر بن براء کی وفات ہوگئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جنازے کے لیے تشریف لے گئے۔
وہیں نماز ظہر کا وقت ہو گیا تو آپ نے ظہر کی نماز مسجد بنو سلمہ میں اد افرمائی دو رکعت پڑھنے کے بعد تحویل قبلہ کا حکم آ گیا۔
آپ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اسی حالت میں بیت اللہ کی جانب متوجہ ہو گئے۔
اس مسجد کا نام مسجد قبلتین ہے۔
آج بھی اس مسجد میں دو محرابیں ہیں۔
اس کے بعد وہ پہلی نماز جو پوری بیت اللہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئی وہ نماز عصر تھی جو مسجد نبوی میں ادا ہوئی پھر ان کی وساطت سے دوسری مساجد تک اطلاع پہنچی چنانچہ ایک آدمی مسجد بنی حارثہ کے پاس سے گزرا تو وہ ابھی نماز عصر پڑھ رہے تھے انھیں دوران نماز میں تحویل قبلہ کی اطلاع دی گئی وہ بلا تردد گھوم گئے۔
پھر اگلے دن مدینے سے باہر اہل قباء کو نماز فجر کے وقت اطلاع ملی۔
اب ان مختلف روایات (ظہر عصر اور فجر)
میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔
(فتح الباري: 1؍ 131، 651)

روایت کے آخر میں زہیر راوی کا ایک طریق ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر (حدیث نمبر: 4488)
میں متصلا ذکر فرمایا ہے۔
اس میں تحویل قبلہ سے پہلے چند صحابہ کے مقتول ہونے کا ذکر ہے۔
حالانکہ اس وقت تک کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہوئی تھی لیکن ضروری نہیں کہ جنگ ہی سے قتل کا واقعہ پیش آئے کفار سے دشمنی کی وجہ سے بھی قتل کی نوبت آسکتی ہے۔
ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی تعداد جو تحویل قبلہ سے پہلے فوت ہوئے دس ہے تین مکہ مکرمہ میں عبد اللہ بن شہاب، مطلب بن ازہر اور سکران بن عمرو عامری اور پانچ حبشہ میں خطاب بن حارث، عمرو بن امیہ، عبد اللہ بن حارث، عمروبن عبد العزیٰ اور عدی بن نضلہ اور مدینہ منورہ میں براء بن معرور اور اسعد بن زرارۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان حضرات کے متعلق تشویش تھی جس کا روایت میں ذکر ہے چنانچہ آیت کے نزول سے تسلی ہو گئی۔
(فتح الباري: 132/1)

اس حدیث سے خبرواحد کی حجیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ایک قطعی چیز کومحض ایک صحابی کے حلفیہ بیان سے بدل دیا۔
اس کا مطلب ہے کہ بعض اوقات خبر واحد بھی قطعیت کا فائدہ دیتی ہے بالخصوص جب مقرون بالقرائن ہو۔
اگرچہ یقین کے مراتب مختلف ہوتے ہیں تاہم فقہاء کا یہ کہنا محل نظرہے کہ خبر واحد ہر وقت ظن کا فائدہ دیتی ہے۔
حدیث فقہاء کے اس خود ساختہ اصول کی تردید کرتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 40   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.