الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
15. بَابُ: {وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا} :
15. باب: آیت کی تفسیر ”اور یقیناً تم لوگ بہت سی دل دکھانے والی باتیں ان سے سنو گے جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی سنو گے جو مشرک ہیں“۔
(15) Chapter. “...And you shall certainly hear much that will grieve you from those who received the Scripture before you (Jews and Christians) and from those who ascribe partners to Allah... ” (V.3:186)
حدیث نمبر: 4566
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عروة بن الزبير، ان اسامة بن زيد رضي الله عنهما اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ركب على حمار على قطيفة فدكية، واردف اسامة بن زيد وراءه يعود سعد بن عبادة، في بني الحارث بن الخزرج قبل وقعة بدر، قال: حتى مر بمجلس فيه عبد الله بن ابي ابن سلول، وذلك قبل ان يسلم عبد الله بن ابي، فإذا في المجلس اخلاط من المسلمين، والمشركين، عبدة الاوثان، واليهود، والمسلمين، وفي المجلس عبد الله بن رواحة، فلما غشيت المجلس عجاجة الدابة، خمر عبد الله بن ابي انفه بردائه، ثم قال: لا تغبروا علينا، فسلم رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهم، ثم وقف، فنزل، فدعاهم إلى الله وقرا عليهم القرآن، فقالعبد الله بن ابي ابن سلول: ايها المرء، إنه لا احسن مما تقول، إن كان حقا فلا تؤذينا به في مجلسنا، ارجع إلى رحلك، فمن جاءك فاقصص عليه، فقال عبد الله بن رواحة: بلى يا رسول الله، فاغشنا به في مجالسنا، فإنا نحب ذلك، فاستب المسلمون والمشركون واليهود حتى كادوا يتثاورون، فلم يزل النبي صلى الله عليه وسلم يخفضهم حتى سكنوا، ثم ركب النبي صلى الله عليه وسلم دابته، فسار حتى دخل على سعد بن عبادة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" يا سعد، الم تسمع ما قال ابو حباب؟ يريد عبد الله بن ابي، قال: كذا وكذا"، قال سعد بن عبادة: يا رسول الله، اعف عنه، واصفح عنه، فوالذي انزل عليك الكتاب، لقد جاء الله بالحق الذي انزل عليك، لقد اصطلح اهل هذه البحيرة على ان يتوجوه فيعصبوه بالعصابة، فلما ابى الله ذلك بالحق الذي اعطاك الله شرق بذلك، فذلك فعل به ما رايت، فعفا عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه يعفون عن المشركين واهل الكتاب كما امرهم الله، ويصبرون على الاذى، قال الله عز وجل: ولتسمعن من الذين اوتوا الكتاب من قبلكم ومن الذين اشركوا اذى كثيرا سورة آل عمران آية 186 الآية، وقال الله: ود كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من بعد إيمانكم كفارا حسدا من عند انفسهم سورة البقرة آية 109 إلى آخر الآية، وكان النبي صلى الله عليه وسلم يتاول العفو ما امره الله به، حتى اذن الله فيهم، فلما غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم بدرا فقتل الله به صناديد كفار قريش، قال ابن ابي ابن سلول ومن معه من المشركين وعبدة الاوثان: هذا امر قد توجه، فبايعوا الرسول صلى الله عليه وسلم على الإسلام، فاسلموا.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَكِبَ عَلَى حِمَارٍ عَلَى قَطِيفَةٍ فَدَكِيَّةٍ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَرَاءَهُ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، قَالَ: حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، فَإِذَا فِي الْمَجْلِسِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَالْمُشْرِكِينَ، عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ، وَالْيَهُودِ، وَالْمُسْلِمِينَ، وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا، فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ وَقَفَ، فَنَزَلَ، فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، فَقَالَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ: أَيُّهَا الْمَرْءُ، إِنَّهُ لَا أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ، إِنْ كَانَ حَقًّا فَلَا تُؤذْيِنَا بِهِ فِي مَجْلِسِنَا، ارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ، فَمَنْ جَاءَكَ فَاقْصُصْ عَلَيْهِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاغْشَنَا بِهِ فِي مَجَالِسِنَا، فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّى كَادُوا يَتَثَاوَرُونَ، فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَنُوا، ثُمَّ رَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَابَّتَهُ، فَسَارَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا سَعْدُ، أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ؟ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، قَالَ: كَذَا وَكَذَا"، قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اعْفُ عَنْهُ، وَاصْفَحْ عَنْهُ، فَوَالَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ، لَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالْحَقِّ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ، لَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ، فَلَمَّا أَبَى اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ اللَّهُ شَرِقَ بِذَلِكَ، فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ، فَعَفَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ يَعْفُونَ عَنِ الْمُشْرِكِينَ وَأَهْلِ الْكِتَابِ كَمَا أَمَرَهُمُ اللَّهُ، وَيَصْبِرُونَ عَلَى الْأَذَى، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا سورة آل عمران آية 186 الْآيَةَ، وَقَالَ اللَّهُ: وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ سورة البقرة آية 109 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَأَوَّلُ الْعَفْوَ مَا أَمَرَهُ اللَّهُ بِهِ، حَتَّى أَذِنَ اللَّهُ فِيهِمْ، فَلَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدْرًا فَقَتَلَ اللَّهُ بِهِ صَنَادِيدَ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، قَالَ ابْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَعَبَدَةِ الْأَوْثَانِ: هَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّهَ، فَبَايَعُوا الرَّسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَأَسْلَمُوا.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے کی پشت پر فدک کی بنی ہوئی ایک موٹی چادر رکھنے کے بعد سوار ہوئے اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ راستہ میں ایک مجلس سے آپ گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) بھی موجود تھا، یہ عبداللہ بن ابی کے ظاہری اسلام لانے سے بھی پہلے کا قصہ ہے۔ مجلس میں مسلمان اور مشرکین یعنی بت پرست اور یہودی سب ہی طرح کے لوگ تھے، انہیں میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سواری کی (ٹاپوں سے گرد اڑی اور) مجلس والوں پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے چادر سے اپنی ناک بند کر لی اور بطور تحقیر کہنے لگا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریب پہنچ گئے اور انہیں سلام کیا، پھر آپ سواری سے اتر گئے اور مجلس والوں کو اللہ کی طرف بلایا اور قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ اس پر عبداللہ بن ابی ابن سلول کہنے لگا، جو کلام آپ نے پڑھ کر سنایا ہے، اس سے عمدہ کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ یہ کلام بہت اچھا، پھر بھی ہماری مجلسوں میں آ آ کر آپ ہمیں تکلیف نہ دیا کریں، اپنے گھر بیٹھیں، اگر کوئی آپ کے پاس جائے تو اسے اپنی باتیں سنایا کریں۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا، ضرور یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں، ہم اسی کو پسند کرتے ہیں۔ اس کے بعد مسلمان، مشرکین اور یہودی آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور قریب تھا کہ فساد اور لڑائی تک کی نوبت پہنچ جاتی لیکن آپ نے انہیں خاموش اور ٹھنڈا کر دیا اور آخر سب لوگ خاموش ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے چلے آئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس کا ذکر کیا کہ سعد! تم نے نہیں سنا، ابوحباب، آپ کی مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول سے تھی، کیا کہہ رہا تھا؟ اس نے اس طرح کی باتیں کی ہیں۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اسے معاف فرما دیں اور اس سے درگزر کر دیں۔ اس ذات کی قسم! جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کے ذریعہ وہ حق بھیجا ہے جو اس نے آپ پر نازل کیا ہے۔ اس شہر (مدینہ) کے لوگ (پہلے) اس پر متفق ہو چکے تھے کہ اس (عبداللہ بن ابی) کو تاج پہنا دیں اور (شاہی) عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کے ذریعہ جو آپ کو اس نے عطا کیا ہے، اس باطل کو روک دیا تو اب وہ چڑ گیا ہے اور اس وجہ سے وہ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا جو آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے۔ آپ نے اسے معاف کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم مشرکین اور اہل کتاب سے درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی اذیتوں پر صبر کیا کرتے تھے۔ اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور یقیناً تم بہت سی دل آزاری کی باتیں ان سے بھی سنو گے، جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی جو مشرک ہیں اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے عزم و حوصلہ کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا بہت سے اہل کتاب تو دل ہی سے چاہتے ہیں کہ تمہیں ایمان (لے آنے) کے بعد پھر سے کافر بنا لیں، حسد کی راہ سے جو ان کے دلوں میں ہے۔ آخر آیت تک۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کفار کو معاف کر دیا کرتے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے ساتھ جنگ کی اجازت دے دی اور جب آپ نے غزوہ بدر کیا تو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق قریش کے کافر سردار اس میں مارے گئے تو عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے دوسرے مشرک اور بت پرست ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کر کے ان سب نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کر لی اور ظاہراً اسلام میں داخل ہو گئے۔

Narrated Usama bin Zaid: Allah's Messenger rode a donkey, equipped with a thick cloth-covering made in Fadak and was riding behind him. He was going to pay visit to Sa`d bin Ubada in Banu Al-Harith bin Al-Khazraj; and this incident happened before the battle of Badr. The Prophet passed by a gathering in which `Abdullah bin Ubai bin Salul was present, and that was before `Abdullah bin Ubai embraced Islam. Behold in that gathering there were people of different religions: there were Muslims, pagans, idol-worshippers and Jews, and in that gathering `Abdullah bin Rawaha was also present. When a cloud of dust raised by the donkey reached that gathering, `Abdullah bin Ubai covered his nose with his garment and then said, "Do not cover us with dust." Then Allah's Messenger greeted them and stopped and dismounted and invited them to Allah (i.e. to embrace Islam) and recited to them the Holy Qur'an. On that, `Abdullah bin Ubai bin Saluil said, "O man ! There is nothing better than that what you say. If it is the truth, then do not trouble us with it in our gatherings. Return to your mount (or residence) and if somebody comes to you, relate (your tales) to him." On that `Abdullah bin Rawaha said, "Yes, O Allah's Apostle! Bring it (i.e. what you want to say) to us in our gathering, for we love that." So the Muslims, the pagans and the Jews started abusing one another till they were on the point of fighting with one another. The Prophet kept on quietening them till they became quiet, whereupon the Prophet rode his animal (mount) and proceeded till he entered upon Sa`d bin Ubada. The Prophet said to Sa`d, "Did you not hear what 'Abu Hub-b said?" He meant `Abdullah bin Ubai. "He said so-andso." On that Sa`d bin Ubada said, "O Allah's Messenger ! Excuse and forgive him, for by Him Who revealed the Book to you, Allah brought the Truth which was sent to you at the time when the people of this town (i.e. Medina) had decided unanimously to crown him and tie a turban on his head (electing him as chief). But when Allah opposed that (decision) through the Truth which Allah gave to you, he (i.e. `Abdullah bin Ubai) was grieved with jealously. and that caused him to do what you have seen." So Allah's Messenger excused him, for the Prophet and his companions used to forgive the pagans and the people of Scripture as Allah had ordered them, and they used to put up with their mischief with patience. Allah said: "And you shall certainly hear much that will grieve you from those who received the Scripture before you and from the pagans........'(3.186) And Allah also said:--"Many of the people of the Scripture wish if they could turn you away as disbelievers after you have believed, from selfish envy.." (2.109) So the Prophet used to stick to the principle of forgiveness for them as long as Allah ordered him to do so till Allah permitted fighting them. So when Allah's Messenger fought the battle of Badr and Allah killed the nobles of Quraish infidels through him, Ibn Ubai bin Salul and the pagans and idolaters who were with him, said, "This matter (i.e. Islam) has appeared (i.e. became victorious)." So they gave the pledge of allegiance (for embracing Islam) to Allah's Messenger and became Muslims.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 89

   صحيح البخاري4566أسامة بن زيدألم تسمع ما قال أبو حباب يريد عبد الله بن أبي قال كذا وكذا
   صحيح مسلم4659أسامة بن زيدألم تسمع إلى ما قال أبو حباب يريد عبد الله بن أبي قال كذا وكذا قال اعف عنه يا رسول الله واصفح فوالله لقد أعطاك الله الذي أعطاك ولقد اصطلح أهل هذه البحيرة أن يتوجوه فيعصبوه بالعصابة فلما رد الله ذلك بالحق الذي أعطاكه شرق بذلك فذلك فعل به ما رأيت فعفا عنه ا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4566  
4566. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر علاقہ فدک کی بنی ہوئی موٹی چادر ڈالی گئی تھی اور مجھے بھی اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ آپ قبیلہ حارث بن خزرج کے محلے میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے۔ راستے میں آپ ایک مجلس سے گزرے جس میں ملے جلے لوگ، یعنی مسلمان، مشرکین اور یہودی موجود تھے۔ ان میں عبداللہ بن ابی سلول (رئیس المنافقین) بھی موجود تھا، جو ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا اور اسی مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی موجود تھے۔ جب سواری کی گرد و غبار ان لوگوں پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک پر چادر ڈالی اور کہنے لگا: ہم پر گرد وغبار نہ اڑاؤ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے السلام علیکم کہا اور ٹھہر گئے۔ اپنی سواری سے اتر کر آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن پڑھ کر سنایا تو عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4566]
حدیث حاشیہ:
آیت میں مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین سے تم کو ہوشیار رہنا ہوگا وہ ہمیشہ تم کو ستاتے ہی رہیں گے اور کبھی باز نہیں آئیں گے، ہاتھ سے زبان سے ایذائیں دیتے رہیں گے، تمہارے لیے ضروری ہے کہ ان سے ہوشیار رہو ان کی چکنی چیڑی باتوں سے دھوکا نہ کھاؤ بلکہ صبر واستقلال کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہو، آخر میں کامیابی تمہارے ہی لیے مقدر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4566   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4566  
4566. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر علاقہ فدک کی بنی ہوئی موٹی چادر ڈالی گئی تھی اور مجھے بھی اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ آپ قبیلہ حارث بن خزرج کے محلے میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے۔ راستے میں آپ ایک مجلس سے گزرے جس میں ملے جلے لوگ، یعنی مسلمان، مشرکین اور یہودی موجود تھے۔ ان میں عبداللہ بن ابی سلول (رئیس المنافقین) بھی موجود تھا، جو ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا اور اسی مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی موجود تھے۔ جب سواری کی گرد و غبار ان لوگوں پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک پر چادر ڈالی اور کہنے لگا: ہم پر گرد وغبار نہ اڑاؤ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے السلام علیکم کہا اور ٹھہر گئے۔ اپنی سواری سے اتر کر آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن پڑھ کر سنایا تو عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4566]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؒ نے اس مقام پر یہودیوں کی ایذا رسانی کے کچھ واقعات بھی تحریر کیے ہیں جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے۔
چنانچہ حضرت کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت کعب بن اشرف یہودی کے متعلق نازل ہوئی جو بدبخت رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اشعار کے ذریعے سے ہجو کیا کرتا تھا اور اہل بیت خواتین استہزا کا نشانہ بناتا تھا حتی کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ کون ہے جو کعب بن اشرف کو لگام دے اور اس کا کام تمام کرے کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو بہت تکلیف دی ہے۔
(صحیح البخاري، في الرھن في الحضر، حدیث: 2510۔
وفتح الباري: 291/8)


اللہ تعالیٰ نے ایسی جگر پاش اور دل دوز تکالیف کا علاج بھی تجویز کیا ہے:
"اور اگر تم صبر کرو اللہ سے ڈرتے رہو تو یہ بڑے حوصلے کاکام ہے۔
" (آل عمران: 186/3)
ایسے حالات میں صبر سے کام لینا ہو گا اور تقوی اختیار کرنا ہوگا صبر اور تقوی ہی سے حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس انتباہ کے ذریعے سے مسلمانوں کو اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی تلقین کی ہے اور بتایا ہے کہ ابتلاء او آزمائش سے صبر و استقامت کی عادت پیدا ہوتی ہے اخلاقی کمزوریوں کا علاج ہوتا ہے۔
درجات بلند ہوتے ہیں اس سے اہل ایمان اور اہل نفاق کے درمیان امتیاز بھی ہو جاتا ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4566   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.