الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
17. بَابُ قَوْلِهِ: {لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} :
17. باب: آیت کی تفسیر ”بیشک اللہ نے نبی پر مہاجرین و انصار پر رحمت فرمائی، وہ لوگ جنہوں نے نبی کا ساتھ تنگی کے وقت (جنگ تبوک) میں دیا، بعد اس کے کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل پیدا ہو گیا تھا۔ پھر (اللہ نے) ان لوگوں پر رحمت کے ساتھ توجہ فرما دی، بیشک وہ ان کے حق میں بڑا ہی شفیق بڑا ہی رحم کرنے والا ہے“۔
(17) Chapter. The Statement of Allah: “Allah has forgiven the Prophet (ﷺ), the Muhajirun and the Ansar...’ (V.9:117)
حدیث نمبر: 4676
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا احمد بن صالح، قال: حدثني ابن وهب، قال: اخبرني يونس. ح قال احمد: وحدثنا عنبسة، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عبد الرحمن بن كعب بن مالك، قال: اخبرني عبد الله بن كعب، وكان قائد كعب من بنيه حين عمي، قال: سمعت كعب بن مالك في حديثه،وعلى الثلاثة الذين خلفوا سورة التوبة آية 118، قال في آخر حديثه: إن من توبتي، ان انخلع من مالي صدقة إلى الله وإلى رسوله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" امسك بعض مالك فهو خير لك".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ. ح قَالَ أَحْمَدُ: وَحَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبٍ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ فِي حَدِيثِهِ،وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا سورة التوبة آية 118، قَالَ فِي آخِرِ حَدِيثِهِ: إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي، أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمْسِكْ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ".
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی (دوسری سند) احمد بن صالح نے بیان کیا کہ ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبدالرحمٰن بن کعب نے خبر دی، کہا کہ مجھے عبداللہ بن کعب نے خبر دی کہ (ان کے والد) کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک سے ان کے واقعہ کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں آیت «وعلى الثلاثة الذين خلفوا‏» نازل ہوئی تھی۔ آپ نے آخر میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) عرض کیا تھا کہ اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں خیرات کرتا ہوں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اپنا کچھ تھوڑا مال اپنے پاس ہی رہنے دو۔ یہ تمہارے حق میں بھی بہتر ہے۔

Narrated `Abdullah bin Ka`b: I heard Ka`b bin Malik talking about the Verse:-- 'And to the three (He also forgave) who remained behind.' (9.118) saying in the last portion of his talk, "(I said), 'As a part (sign) of my repentance, I would like to give up all my property in the cause of Allah and His Apostle,' The Prophet said to me, 'Keep some of your wealth as it is good for you." (To the three (He also forgave) who remained behind till for them the earth, vast as it is, was straitened..." (9.118)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 198

   صحيح البخاري4418كعب بن مالكيا كعب بن مالك أبشر قال فخررت ساجدا وعرفت أن قد جاء فرج وآذن رسول الله بتوبة الله علينا حين صلى صلاة الفجر فذهب الناس يبشروننا وذهب قبل صاحبي مبشرون وركض إلي رجل فرسا وسعى ساع من أسلم فأوفى على الجبل وكان الصوت أسرع من الفرس فلما جاءني الذي سمعت صوته يبشر
   صحيح البخاري2757كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك قلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر
   صحيح البخاري7225كعب بن مالكلما تخلف عن رسول الله في غزوة تبوك فذكر حديثه ونهى رسول الله المسلمين عن كلامنا فلبثنا على ذلك خمسين ليلة وآذن رسول الله بتوبة الله علينا
   صحيح البخاري6255كعب بن مالكنهى رسول الله عن كلامنا وآتي رسول الله فأسلم عليه فأقول في نفسي هل حرك شفتيه برد السلام أم لا حتى كملت خمسون ليلة وآذن النبي بتوبة الله علينا حين صلى الفجر
   صحيح البخاري3556كعب بن مالكإذا سر استنار وجهه حتى كأنه قطعة قمر وكنا نعرف ذلك منه
   صحيح البخاري4678كعب بن مالكما أعلم أحدا أبلاه الله في صدق الحديث أحسن مما أبلاني ما تعمدت منذ ذكرت ذلك لرسول الله إلى يومي هذا كذبا وأنزل الله على رسوله لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار إلى قوله وكونوا مع الصادقين
   صحيح البخاري4673كعب بن مالكما أنعم الله علي من نعمة بعد إذ هداني أعظم من صدقي رسول الله أن لا أكون كذبته
   صحيح البخاري4676كعب بن مالكأمسك بعض مالك فهو خير لك
   صحيح البخاري6690كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك
   صحيح مسلم7016كعب بن مالكلم أتخلف عن رسول الله في غزوة غزاها قط إلا في غزوة تبوك غير أني قد تخلفت في غزوة بدر ولم يعاتب أحدا تخلف عنه إنما خرج رسول الله والمسلمون يريدون عير قريش حتى جمع الله بينهم وبين عدوهم على غير ميعاد ولقد شهدت مع رسول الله ليلة العقبة حين تواثقنا على الإسلا
   جامع الترمذي3102كعب بن مالكأبشر يا كعب بن مالك بخير يوم أتى عليك منذ ولدتك أمك فقلت يا نبي الله أمن عند الله أم من عندك قال بل من عند الله ثم تلا هؤلاء الآيات لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة من بعد ما كاد يزيغ قلوب فريق منهم ثم تاب عليهم إنه ب
   سنن أبي داود3317كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك قال فقلت إني أمسك سهمي الذي بخيبر
   سنن أبي داود3321كعب بن مالكلا قلت فنصفه قال لا قلت فثلثه قال نعم قلت فإني سأمسك سهمي من خيبر
   سنن أبي داود4600كعب بن مالكعن كلامنا أيها الثلاثة حتى إذا طال علي تسورت جدار حائط أبي قتادة وهو ابن عمي فسلمت عليه فوالله ما رد علي السلام ثم ساق خبر تنزيل توبته
   سنن النسائى الصغرى3854كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك
   سنن النسائى الصغرى732كعب بن مالكأما هذا فقد صدق فقم حتى يقضي الله فيك فقمت فمضيت
   سنن النسائى الصغرى3857كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك قلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر
   سنن النسائى الصغرى3855كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك فقلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر
   سنن النسائى الصغرى3856كعب بن مالكأمسك عليك مالك فهو خير لك قلت فإني أمسك علي سهمي الذي بخيبر
   سنن ابن ماجه1393كعب بن مالكلما تاب الله عليه خر ساجدا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 732  
´بغیر نماز پڑھے مسجد میں بیٹھنے اور اس سے نکلنے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اپنا وہ واقعہ بیان کر رہے تھے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو تشریف لائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کر لیا تو جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ کے پاس آئے، آپ سے معذرت کرنے لگے، اور آپ کے سامنے قسمیں کھانے لگے، وہ اسّی سے کچھ زائد لوگ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہری بیان کو قبول کر لیا، اور ان سے بیعت کر لی، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی، اور ان کے دلوں کے راز کو اللہ عزوجل کے سپرد کر دیا، یہاں تک کہ میں آیا تو جب میں نے سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرائے جیسے کوئی غصہ میں مسکراتا ہے، پھر فرمایا: آ جاؤ! چنانچہ میں آ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ۱؎، تو آپ نے مجھ سے پوچھا: تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے؟ کیا تم نے اپنی سواری خرید نہیں لی تھی؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور کے پاس ہوتا تو میں اس کے غصہ سے اپنے آپ کو یقیناً بچا لیتا، مجھے باتیں بنانی خوب آتی ہے لیکن اللہ کی قسم، میں جانتا ہوں کہ اگر آپ کو خوش کرنے کے لیے میں آج آپ سے جھوٹ موٹ کہہ دوں تو قریب ہے کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے، اور اگر میں آپ سے سچ سچ کہہ دوں تو آپ مجھ پر ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف کر دے گا، اللہ کی قسم جب میں آپ سے پیچھے رہ گیا تھا تو اس وقت میں زیادہ طاقتور اور زیادہ مال والا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا یہ شخص تو اس نے سچ کہا، اٹھو چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے، چنانچہ میں اٹھ کر چلا آیا، یہ حدیث لمبی ہے یہاں مختصراً منقول ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 732]
732 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ واقعہ بہت لمبا ہے، یہاں صرف ایک حصہ بیان ہوا ہے۔ تفصیل صحیحین میں مذکور ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4418: و صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 2769]
➋ حدیث میں صراحت نہیں کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے تحیۃ المسجد پڑھی ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کی تبویب سے یہی غرض ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 732   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1393  
´شکرانہ کی نماز اور سجدہ شکر کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی تو وہ سجدے میں گر پڑے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1393]
اردو حاشہ:
فائده:
 حضرت کعب بن مالک،   حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم غزوہ تبوک سے محض سستی کی بنا پر کسی معقول عذر کے بغیر پیچھے رہ گئے تھے۔
جس پر اللہ کے حکم سے تمام مسلمانوں نے ان تینوں حضرات سے پچاس دن تک بائیکاٹ کردیا۔
اتنی طویل مدت تک یہ حضرات پریشان رہے اور توبہ کرتے رہے۔
آخر پچاس دن بعد توبہ قبول ہوئی۔
تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کو ان کی زندگی کا افضل ترین دن قراردیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب حدیث کعب بن مالك، حدیث: 4418)
قرآن مجید میں سورہ توبہ آیت 118 میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1393   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3102  
´سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
کعب بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی غزوے کیے ان میں سے غزوہ تبوک کو چھوڑ کر کوئی بھی غزوہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ کے ساتھ میں نہ رہا ہوں۔ رہا بدر کا معاملہ سو بدر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے کسی کی بھی آپ نے سرزنش نہیں کی تھی۔ کیونکہ آپ کا ارادہ (شام سے آ رہے) قافلے کو گھیرنے کا تھا، اور قریش اپنے قافلے کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پھر دونوں قافلے بغیر پہلے سے طے کئے ہوئے جگہ میں جا ٹکرائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت: «إذ أنتم بالعدوة الدنيا وهم بالعدوة القصوى والركب أسفل منكم ولو تواعدتم لاختلفتم في الميعا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3102]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اللہ تعالیٰ نے توجہ فرمائی اپنے نبی پر اور ان مہاجرین وانصار کی طرف جنہوں نے اس کی مدد کی کٹھن گھڑی میں جب کہ ان میں سے ایک فریق کے دلوں کے پلٹ جانے اور کج روی اختیار کرلینے کا ڈر موجود تھا،
پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی۔
بے شک وہ ان پر نرمی والا اور مہر بان ہے (التوبة: 117)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3102   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3317  
´جو اپنا سارا مال صدقہ میں دے دینے کی نذر مانے اس کے حکم کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے سارے مال سے دستبردار ہو کر اسے اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کر دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے تو میں نے عرض کیا: میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے لیے روک لیتا ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3317]
فوائد ومسائل:
کسی گناہ اور تقصیر کی توبہ میں صدقہ کرنا بہت افضل عمل ہے۔
لیکن انسان خالی ہاتھ ہوکر رہ جائے یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔
البتہ صدیقین کے لئے جائز ہے۔
جو اس کے نتائج کو بخیر وخوبی برداشت کرسکتے ہیں۔
جس کی مثال ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3317   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4676  
4676. حضرت عبداللہ بن کعب سے روایت ہے۔۔ جب کعب ؓ نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں سے یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے تھے۔۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے حضرت کعب بن مالک ؓ سے ان کے اس واقعے کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی: اور ان تین آدمیوں پر بھی (مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی) جن کا معاملہ ملتوی رکھا گیا تھا۔ آپ نے آخر میں کہا تھا کہ میں اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں صدقہ کرتا ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: نہیں کچھ مال اپنے لیے بھی رکھ لو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4676]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ خیرات بھی وہی بہتر ہے جو طاقت کے موافق کی جائے۔
اگر کوئی محض خیرات کے نتیجہ میں خود بھوکا ننگا رہ جائے تو وہ خیرات عند اللہ بہتر نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4676   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4676  
4676. حضرت عبداللہ بن کعب سے روایت ہے۔۔ جب کعب ؓ نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں سے یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے تھے۔۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے حضرت کعب بن مالک ؓ سے ان کے اس واقعے کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی: اور ان تین آدمیوں پر بھی (مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی) جن کا معاملہ ملتوی رکھا گیا تھا۔ آپ نے آخر میں کہا تھا کہ میں اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں صدقہ کرتا ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: نہیں کچھ مال اپنے لیے بھی رکھ لو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4676]
حدیث حاشیہ:

عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اس میں کعب ؓ کی توبہ،اللہ کی طرف سے شرف قبولیت اور پھر اس کی خوشی میں حضرت کعب ؓ کے صدقہ کرنے کا ذکر ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خیرات بھی وہی بہتر ہے جو طاقت کے مطابق کی جائے۔
اگر کوئی خیرات کرکے خود بھوکا ننگا ہوجاتا ہے تو وہ خیرات اللہ کے ہاں بہترنہیں ہے۔

امام بخاری ؒ نے بقدر ضرورت حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا ہے، مفصل حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔
دیکھئے:
(حدیث: 4418)
اس کے فوائد وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4676   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.