الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
89. بَابُ إِكْرَامِ الْكَبِيرِ وَيَبْدَأُ الأَكْبَرُ بِالْكَلاَمِ وَالسُّؤَالِ:
89. باب: جو عمر میں بڑا ہو اس کی تعظیم کرنا اور پہلے اسی کو بات کرنے اور پوچھنے دینا۔
(89) Chapter. To respect the old ones, and the elder one should start talking or asking.
حدیث نمبر: 6143
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد هو ابن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار مولى الانصار، عن رافع بن خديج، وسهل بن ابي حثمة، انهما حدثاه، ان عبد الله بن سهل، ومحيصة بن مسعود، اتيا خيبر فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل، فجاء عبد الرحمن بن سهل، وحويصة، ومحيصة ابنا مسعود إلى النبي صلى الله عليه وسلم فتكلموا في امر صاحبهم، فبدا عبد الرحمن وكان اصغر القوم، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" كبر الكبر" قال يحيى: يعني ليلي الكلام الاكبر، فتكلموا في امر صاحبهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اتستحقون قتيلكم او قال صاحبكم بايمان خمسين منكم؟ قالوا: يا رسول الله، امر لم نره قال:" فتبرئكم يهود في ايمان خمسين منهم" قالوا: يا رسول الله، قوم كفار، فوداهم رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبله، قال سهل: فادركت ناقة من تلك الإبل فدخلت مربدا لهم فركضتني برجلها، قال الليث: حدثني يحيى، عن بشير، عن سهل، قال يحيى: حسبت انه قال: مع رافع بن خديج، وقال ابن عيينة، حدثنا يحيى، عن بشير، عن سهل وحده.حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ مَوْلَى الْأَنْصَارِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أنهما حدثاه، أن عبد الله بن سهل، ومحيصة بن مسعود، أتيا خيبر فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل، فجاء عبد الرحمن بن سهل، وحويصة، ومحيصة ابنا مسعود إلى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ، فَبَدَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَبِّرِ الْكُبْرَ" قَالَ يَحْيَى: يَعْنِي لِيَلِيَ الْكَلَامَ الْأَكْبَرُ، فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَسْتَحِقُّونَ قَتِيلَكُمْ أَوْ قَالَ صَاحِبَكُمْ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمْرٌ لَمْ نَرَهُ قَالَ:" فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ فِي أَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَوْمٌ كُفَّارٌ، فَوَدَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ، قَالَ سَهْلٌ: فَأَدْرَكْتُ نَاقَةً مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ فَدَخَلَتْ مِرْبَدًا لَهُمْ فَرَكَضَتْنِي بِرِجْلِهَا، قَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرٍ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ يَحْيَى: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: مَعَ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرٍ، عَنْ سَهْلٍ وَحْدَهُ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، وہ ابن زید ہیں، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے انصار کے غلام بشیر بن یسار نے، ان سے رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود خیبر سے آئے اور کھجور کے باغ میں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ عبداللہ بن سہل وہیں قتل کر دیئے گئے۔ پھر عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ اور محیصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنے مقتول ساتھی (عبداللہ رضی اللہ عنہ) کے مقدمہ میں گفتگو کی۔ پہلے عبدالرحمٰن نے بولنا چاہا جو سب سے چھوٹے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بڑے کی بڑائی کرو۔ (ابن سعید نے اس کا مقصد یہ) بیان کیا کہ جو بڑا ہے وہ گفتگو کرے، پھر انہوں نے اپنے ساتھی کے مقدمہ میں گفتگو کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے 50 آدمی قسم کھا لیں کہ عبداللہ کو یہودیوں نے مارا ہے تو تم دیت کے مستحق ہو جاؤ گے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے خود تو اسے دیکھا نہیں تھا (پھر اس کے متعلق قسم کیسے کھا سکتے ہیں؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر یہود اپنے پچاس آدمیوں سے قسم کھلوا کر تم سے چھٹکارا پا لیں گے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسم کا کیا بھروسہ) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن سہل کے وارثوں کو دیت خود اپنی طرف سے ادا کر دی۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان اونٹوں میں سے (جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیت میں دئیے تھے) ایک اونٹنی کو میں نے پکڑا وہ تھان میں گھس گئی، اس نے ایک لات مجھ کو لگائی۔ اور لیث نے کہا مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر نے اور ان سے سہل نے، یحییٰ نے یہاں بیان کیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بشیر نے «مع رافع بن خديج» کے الفاظ کہے تھے۔ اور سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر نے اور انہوں نے صرف سہل سے روایت کی۔

Narrated Rafi` bin Khadij and Sahl bin Abu Hathma: `Abdullah bin Sahl and Muhaiyisa bin Mas`ud went to Khaibar and they dispersed in the gardens of the date-palm trees. `Abdullah bin Sahl was murdered. Then `Abdur-Rahman bin Sahl, Huwaiyisa and Muhaiyisa, the two sons of Mas`ud, came to the Prophet and spoke about the case of their (murdered) friend. `Abdur-Rahman who was the youngest of them all, started talking. The Prophet said, "Let the older (among you) speak first." So they spoke about the case of their (murdered) friend. The Prophet said, "Will fifty of you take an oath whereby you will have the right to receive the blood money of your murdered man," (or said, "..your companion"). They said, "O Allah's Apostle! The murder was a thing we did not witness." The Prophet said, "Then the Jews will release you from the oath, if fifty of them (the Jews) should take an oath to contradict your claim." They said, "O Allah's Apostle! They are disbelievers (and they will take a false oath)." Then Allah's Apostle himself paid the blood money to them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 164


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6143  
6143. حضرت رافع بن خدیج اور حضرت سہل بن ابی حشمہ ؓ سے روایت ہے ان دونوں نے کہا کہ عبداللہ بن سہل ؓ اور محیصہ بن مسعود ؓ خیبر میں آئے اور کھجوروں کے باغ میں جدا جدا ہو گئے۔ وہاں حضرت عبداللہ بن سہل ؓ کو قتل کر دیا گیا۔ پھر عبدالرحمن بن سہل ؓ اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصی اور محیصہ ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھی کے متعلق گفتگو کرنے لگے۔ عبدالرحمن ؓ نے پہلے بات کرنا چاہی اور وہ سب سے چھوٹے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بڑے کو بات کرنے دو۔ مقصد یہ ہے کہ جو بڑا ہے وہ بات کرے۔ پھر انہوں نے اپنے ساتھی کے قتل کے متعلق بات کی تو نبی ﷺ نے فرمایا: اگر تم میں سے پچاس آدمی قسم اٹھالیں تو تم دیت کے مستحق ہو سکتے ہو؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے خود تو اس معاملے کو نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے دیت ادا کر دی۔ حضرت سہل ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان اونٹوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6143]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں قسامت کا ذکر ہے جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
کسی مقتول سے متعلق عینی شہادت نہ ہو تو اس کی قوم کے پچاس آدمی اپنے خیال میں قاتل کا نام لے کر قسمیں کھائیں گے کہ واللہ وہی قاتل ہے تو وہ دیت کے حق دار ہو جائیں گے، یہی قسامت ہے۔
حدیث میں ہرامر میں بڑوں کو مقدم رکھنے کا حکم ہے، باب سے یہی تعلق ہے۔
شریعت اسلامی میں قتل ناحق کا معاملہ کتنا اہم ہے اس سے یہی ظاہر ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6143   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6143  
6143. حضرت رافع بن خدیج اور حضرت سہل بن ابی حشمہ ؓ سے روایت ہے ان دونوں نے کہا کہ عبداللہ بن سہل ؓ اور محیصہ بن مسعود ؓ خیبر میں آئے اور کھجوروں کے باغ میں جدا جدا ہو گئے۔ وہاں حضرت عبداللہ بن سہل ؓ کو قتل کر دیا گیا۔ پھر عبدالرحمن بن سہل ؓ اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصی اور محیصہ ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھی کے متعلق گفتگو کرنے لگے۔ عبدالرحمن ؓ نے پہلے بات کرنا چاہی اور وہ سب سے چھوٹے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بڑے کو بات کرنے دو۔ مقصد یہ ہے کہ جو بڑا ہے وہ بات کرے۔ پھر انہوں نے اپنے ساتھی کے قتل کے متعلق بات کی تو نبی ﷺ نے فرمایا: اگر تم میں سے پچاس آدمی قسم اٹھالیں تو تم دیت کے مستحق ہو سکتے ہو؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے خود تو اس معاملے کو نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے دیت ادا کر دی۔ حضرت سہل ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان اونٹوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6143]
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی مقتول کے متعلق عینی گواہ موجود نہ ہو تو اس کی قوم کے پچاس آدمی گواہی دیں کہ اس کا قاتل فلاں شخص ہے تو وہ دیت کے حق دار ہو سکتے ہیں، یہی قسامت ہے۔
اس کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے بڑے کا اکرام ثابت کیا ہے کہ اسے بات کرنے کا موقع دینا چاہیے، چنا نچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر میں بڑے آدمی کو اس لیے گفتگو کرنے کا حکم دیا کہ واقعے کی پوری طرح صورت و کیفیت واضح ہو جائے بصورت دیگر اصل دعوے دار تو مقتول کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن تھے لیکن وہ عمر میں چھوٹے تھے۔
بہرحال ہر معاملے میں بڑوں کو مقدم رکھنے کا حکم ہے ہاں، اگر چھوٹے کے پاس ایسی معلومات ہوں جو بڑوں کے پاس نہیں ہیں تو اسے بات کرنے کا سب سے پہلے موقع دیا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6143   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.