Narrated `Urwa-bin Az-Zubair: Usama bin Zaid said, "The Prophet rode over a donkey with a saddle underneath which there was a thick soft Fadakiya velvet sheet. Usama bin Zaid was his companion rider, and he was going to pay a visit to Sa`d bin Ubada (who was sick) at the dwelling place of Bani Al-Harith bin Al-Khazraj, and this incident happened before the battle of Badr. The Prophet passed by a gathering in which there were Muslims and pagan idolators and Jews, and among them there was `Abdullah bin Ubai bin Salul, and there was `Abdullah bin Rawaha too. When a cloud of dust raised by the animal covered that gathering, `Abdullah bin Ubai covered his nose with his Rida (sheet) and said (to the Prophet), "Don't cover us with dust." The Prophet greeted them and then stopped, dismounted and invited them to Allah (i.e., to embrace Islam) and also recited to them the Holy Qur'an. `Abdullah bin Ubai' bin Salul said, "O man! There is nothing better than what you say, if what you say is the truth. So do not trouble us in our gatherings. Go back to your mount (or house,) and if anyone of us comes to you, tell (your tales) to him." On that `Abdullah bin Rawaha said, "(O Allah's Apostle!) Come to us and bring it(what you want to say) in our gatherings, for we love that." So the Muslims, the pagans and the Jews started quarreling till they were about to fight and clash with one another. The Prophet kept on quietening them (till they all became quiet). He then rode his animal, and proceeded till he entered upon Sa`d bin 'Ubada, he said, "O Sa`d, didn't you hear what Abu Habbab said? (He meant `Abdullah bin Ubai). He said so-and-so." Sa`d bin 'Ubada said, "O Allah's Apostle! Excuse and forgive him, for by Allah, Allah has given you what He has given you. The people of this town decided to crown him (as their chief) and make him their king. But when Allah prevented that with the Truth which He had given you, it choked him, and that was what made him behave in the way you saw him behaving." So the Prophet excused him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 271
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6254
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے جہاں باب کا مضمون واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے وہاں آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال دانائی، دوراندیشی، عفو، حلم کی بھی ایک شاندار تفصیل ہے کہ آپ نے ایک انتہائی گستاخ کو دامن عفو میں لے لیا اور عبد اللہ بن ابی جیسے خفیہ دشمن اسلام کی حرکت شنیعہ کو معاف فرما دیا۔
اللہ پاک ایسے پیارے رسول پر ہزارہا ہزار ان گنت درود وسلام نازل فرمائے۔
آمین۔
اس میں آج کے ٹھیکہ داران اسلام کے لئے بھی درس ہے جو ہر وقت شعلہ جوالہ بن کر اپنے علم وفضل کی دھاک بٹھانے کے لئے اخلاق نبوی کا عملا ً مضحکہ اڑاتے رہتے ہیں اور ذراسی خلاف مزاج بات پاکر غیظ وغضب کا مظاہرہ کرنے لگ جاتے ہیں۔
اکثر مقلدین جامدین کا یہی حال ہے إلا ماشاء اللہ۔
اللہ پاک ان مذہب کے ٹھیکہ داروں کو اپنا مقام سمجھنے کی توفیق بخشے آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6254
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6254
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو معاف کرکے کمال دانائی اور دور اندیشی کی ایک شاندار روایت برقراررکھی۔
اللہ تعالیٰ آپ پر ان گنت درودوسلام نازل فرمائے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے یہ مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی مجلس میں مسلمان اور کافر اکٹھے ہوں تو انھیں سلام کہا جا سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب انسان کسی ایسی مجلس سے گزرے جہاں کافر اور مسلمان دونوں قسم کے لوگ موجود ہوں تو عام الفاظ سے سلام کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی نیت مسلمانوں کو سلام کہنے کی ہو کیونکہ حدیث میں کافر اور اہل کتاب کو ابتداءً سلام کہنے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس امر کی صراحت ہے۔
(مسند أحمد: 143/4)
اور جوابًا بھی صرف وعلیکم کہنے کا حکم ہے اگرچہ بعض اہل علم نے اس کے متعلق نرم گوشہ رکھا ہے اور بطور دلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلام کا حوالہ دیا ہے جو انھوں نے گھر سے رخصت ہوتے وقت اپنے باپ کو کہا تھا۔
(مریم19: 47)
لیکن یہ سلام شرعی نہیں اور نہ بطور دعا ہی تھا بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کے ارادے سے کہا تھا۔
(فتح الباري: 48/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6254