الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
The Book of Ar-Riqaq (Softening of The Hearts)
20. بَابُ الصَّبْرِ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ:
20. باب: اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا ان سے صبر کئے رہنا۔
(20) Chapter. Refraining from doing things Allah has made illegal.
حدیث نمبر: Q6470
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقوله عز وجل: إنما يوفى الصابرون اجرهم بغير حساب سورة الزمر آية 10، وقال عمر: وجدنا خير عيشنا بالصبر.وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ سورة الزمر آية 10، وَقَالَ عُمَرُ: وَجَدْنَا خَيْرَ عَيْشِنَا بِالصَّبْرِ.
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلاشبہ صبر کرنے والوں کو ان کا ثواب بے حساب دیا جائے گا اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے سب سے عمدہ زندگی صبر ہی میں پائی ہے۔

حدیث نمبر: 6470
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عطاء بن يزيد الليثي، ان ابا سعيد الخدري، اخبره: ان اناسا من الانصار سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم يساله احد منهم إلا اعطاه حتى نفد ما عنده، فقال لهم حين نفد كل شيء:" انفق بيديه ما يكن عندي من خير لا ادخره عنكم، وإنه من يستعف يعفه الله، ومن يتصبر يصبره الله، ومن يستغن يغنه الله، ولن تعطوا عطاء خيرا واوسع من الصبر".حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ أُنَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَسْأَلْهُ أَحَدٌ مِنْهُمْ إِلَّا أَعْطَاهُ حَتَّى نَفِدَ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُمْ حِينَ نَفِدَ كُلُّ شَيْءٍ:" أَنْفَقَ بِيَدَيْهِ مَا يَكُنْ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ لَا أَدَّخِرْهُ عَنْكُمْ، وَإِنَّهُ مَنْ يَسْتَعِفَّ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ، وَلَنْ تُعْطَوْا عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عطاء بن یزید لیثی نے خبر دی اور انہیں ابوسعید رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ چند انصاری صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا اور جس نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیا، یہاں تک کہ جو مال آپ کے پاس تھا وہ ختم ہو گیا۔ جب سب کچھ ختم ہو گیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بھی اچھی چیز میرے پاس ہو گی میں اسے تم سے بچا کے نہیں رکھتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ جو تم میں (سوال سے) بچتا رہے گا اللہ بھی اسے غیب سے دے گا اور جو شخص دل پر زور ڈال کر صبر کرے گا اللہ بھی اسے صبر دے گا اور جو بےپرواہ رہنا اختیار کرے گا اللہ بھی اسے بےپرواہ کر دے گا اور اللہ کی کوئی نعمت صبر سے بڑھ کر تم کو نہیں ملی۔

Narrated Abu Sa`id: Some people from the Ansar asked Allah's Apostle (to give them something) and he gave to everyone of them, who asked him, until all that he had was finished. When everything was finished and he had spent all that was in his hand, he said to them, '"(Know) that if I have any wealth, I will not withhold it from you (to keep for somebody else); And (know) that he who refrains from begging others (or doing prohibited deeds), Allah will make him contented and not in need of others; and he who remains patient, Allah will bestow patience upon him, and he who is satisfied with what he has, Allah will make him self-sufficient. And there is no gift better and vast (you may be given) than patience."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 477

   صحيح البخاري6470سعد بن مالكأنفق بيديه ما يكن عندي من خير لا أدخره عنكم وإنه من يستعف يعفه الله ومن يتصبر يصبره الله ومن يستغن يغنه الله ولن تعطوا عطاء خيرا وأوسع من الصبر
   صحيح البخاري1469سعد بن مالكما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستعفف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله ومن يتصبر يصبره الله وما أعطي أحد عطاء خيرا وأوسع من الصبر
   صحيح مسلم2424سعد بن مالكما يكن عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستعفف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله ومن يصبر يصبره الله وما أعطي أحد من عطاء خير وأوسع من الصبر
   جامع الترمذي2024سعد بن مالكما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستغن يغنه الله ومن يستعفف يعفه الله ومن يتصبر يصبره الله وما أعطي أحد شيئا هو خير وأوسع من الصبر
   سنن أبي داود1644سعد بن مالكما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستعفف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله ومن يتصبر يصبره الله وما أعطى الله أحدا من عطاء أوسع من الصبر
   سنن أبي داود1628سعد بن مالكمن سأل وله قيمة أوقية فقد ألحف فقلت ناقتي الياقوتة هي خير من أوقية قال هشام خير من أربعين درهما فرجعت فلم أسأله شيئا
   سنن النسائى الصغرى2596سعد بن مالكمن استغنى أغناه الله ومن استعف أعفه الله ومن استكفى كفاه الله ومن سأل وله قيمة أوقية فقد ألحف
   سنن النسائى الصغرى2589سعد بن مالكما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستعفف يعفه الله ومن يصبر يصبره الله وما أعطي أحد عطاء هو خير وأوسع من الصبر
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم615سعد بن مالكما يكون عندي من خير فلن ادخره عنكم، ومن يستعفف يعفه الله، ومن يستغن يغنه الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 615  
´مانگنے والے اور محتاج کو ایک سے زیادہ دفعہ صدقات و خیرات وغیرہ دینا جائز ہے`
«. . . عن ابى سعيد الخدري ان ناسا من الانصار سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاهم ثم سالوه فاعطاهم، ثلاثا، حتى نفد ما عنده، ثم قال: ما يكون عندي من خير فلن ادخره عنكم، ومن يستعفف يعفه الله، ومن يستغن يغنه الله، ومن يتصبر يصبره الله. وما اعطي احد عطاء هو خير واوسع من الصبر . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین دفعہ (مال) مانگا تو آپ نے انہیں (تین دفعہ) عطا فرمایا حتی کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جو بھی خیر ہو گی (بہترین مال ہو گا) تو میں اسے تم سے (روک کر) ہرگز ذخیرہ نہیں کروں گا (بلکہ تمہیں دے دوں گا) اور جو شخص مانگنے سے بچے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو بےنیازی اختیار کرے گا تو اللہ اسے بےنیاز کر دے گا جو شخص صبر کرے گا تو اللہ اسے صابر و شاکر بنا دے گا اور صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی چیز (لوگوں کو) عطا نہیں کی گئی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 615]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1469، ومسلم 1053، من حديث مالك به]

تفقه
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ سخی اور اپنی امت کے خیر خواہ تھے۔
➋ مانگنے والے اور محتاج کو ایک سے زیادہ دفعہ صدقات و خیرات وغیرہ دینا جائز ہے۔
➌ جس شخص کے پاس (ضرورت سے زائد) مال نہ ہو تو وہ مانگنے والے کے سامنے اپنا عذر بیان کر سکتا ہے۔
➍ بہترین اخلاق یہی ہے کہ ضرورت مند بھی کچھ نہ مانگے بلکہ صبر اور توکل سے ہمیشہ کام لے۔ دوسرے لوگوں کے ہاتھوں کی طرف لالچ کی وجہ سے دیکھتے رہنا اور بغیر شرعی عذر کے مانگنا اچھی روش نہیں ہے جیسا کہ دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ نیز دیکھئے: [ح: 174]
➎ علاء بن عبدالرحمٰن بن یعقوب رحمہ اللہ نے فرمایا: «ما نقصت صدقة من مال وما زاد الله عبدًا بعفو إلا عزًا وما تواضع عبد إلا رفعه الله» صدقہ مال سے کوئی کمی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے بندے کی عزت بہت زیادہ کرتا ہے اور جو بندہ تواضع (عاجزی وانکساری) کرتا ہے تو اللہ اس کا مرتبہ بلند کردیتا ہے۔ [الموطأ رواية يحييٰ 2/1000 ح1949ب وسنده صحيح]
یہ روایت (اثر) صحیح مسلم میں «العلاء بن عبد الرحمن عن ابيه عن ابي هريرة» کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے بھی موجود ہے۔ [صحیح مسلم 2588 وترقيم دارالسلام: 6592]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 78   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2024  
´صبر کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ چند انصاریوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ نے انہیں دیا، انہوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا، پھر فرمایا: جو مال بھی میرے پاس ہو گا میں اس کو تم سے چھپا کر ہرگز جمع نہیں رکھوں گا، لیکن جو استغناء ظاہر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دے گا ۱؎، جو سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے محفوظ رکھے گا، اور جو صبر کی توفیق مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا کرے گا، کسی شخص کو بھی صبر سے بہتر اور کشادہ کوئی چیز نہیں ملی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2024]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جو قناعت سے کام لے گا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ بڑھانے اور سوال کرنے سے بچے گاتو اللہ تعالیٰ اسے اطمینان قلب بخشے گا اور دوسروں سے بے نیاز کردے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2024   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1628  
´زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟`
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو سوال کرے حالانکہ اس کے پاس ایک اوقیہ ہو تو اس نے الحاف کیا، میں نے (اپنے جی میں) کہا: میری اونٹنی یاقوتہ ایک اوقیہ سے بہتر ہے۔ (ہشام کی روایت میں ہے: چالیس درہم سے بہتر ہے)، چنانچہ میں لوٹ آیا اور میں نے آپ سے کچھ نہیں مانگا ۱؎۔ ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اوقیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس درہم کا ہوتا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1628]
1628. اردو حاشیہ: (الحاف) مانگنے کی اس کیفیت کو کہتے ہیں جب مانگنے والا بے جا اصرار کرے۔اور چمٹ کر مانگے۔باوقار فقراء کی صفت قرآن مجید ن یہ بتائی ہے کہ <قرآن> (يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَاف)(البقرہ 237) بے خبر لوگ ان کو غنی سمجھتے ہیں۔ آپ ان کو ان کی علامات سے پہچانتے ہیں۔یہ لوگوں سے لپٹ کر (اصرار سے) سوال نہیں کرتے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1628   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6470  
6470. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ انصار میں سے چند لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا۔ جس نے بھی آپ سے جو مانگا آپ نے اسے دیا حتی کہ جو مال آپ کے پاس تھا وہ ختم ہو گیا۔ جب سب کچھ ختم ہو گیا جو آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دیا تھا تو آپ نے فرمایا: جو اچھی چیز میرے پاس ہے وہ میں تم سے چھپا کر نہیں رکھتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ جو تم میں سے بچتا رہے گا اللہ اس کو بچائے گا۔ جو صبر کرنا چاہے اللہ اسے صبر دے گا اور جو کوئی غنا چاہتا ہے اللہ اسے مستغنی کر دے گا۔ اور تمہیں اللہ کی نعمت صبر سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ملی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6470]
حدیث حاشیہ:
صبر تلخ است و لیکن برشیریں دار و....صبر عجیب نعمت ہے صابر آدمی کی طرف آخر میں سب کے دل مائل ہو جاتے ہیں سب اس کی ہمدردی کرنے لگتے ہیں سچ ہے۔
﴿واللہُ مَعَ الصابرینَ﴾
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6470   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6470  
6470. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ انصار میں سے چند لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا۔ جس نے بھی آپ سے جو مانگا آپ نے اسے دیا حتی کہ جو مال آپ کے پاس تھا وہ ختم ہو گیا۔ جب سب کچھ ختم ہو گیا جو آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دیا تھا تو آپ نے فرمایا: جو اچھی چیز میرے پاس ہے وہ میں تم سے چھپا کر نہیں رکھتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ جو تم میں سے بچتا رہے گا اللہ اس کو بچائے گا۔ جو صبر کرنا چاہے اللہ اسے صبر دے گا اور جو کوئی غنا چاہتا ہے اللہ اسے مستغنی کر دے گا۔ اور تمہیں اللہ کی نعمت صبر سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ملی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6470]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں لوگوں سے بے نیاز رہنے کی ترغیب ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے صبر کے ذریعے سے لوگوں سے نہ مانگنے پر ابھارا گیا ہے، نیز انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے رزق کا انتظار کرے اور بے صبری کو اپنے پاس نہ آنے دے کیونکہ صبر سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں، اس پر بلا حد و حساب اجروثواب کا وعدہ ہے۔
(2)
بلا ضرورت سوال کرنا حرام ہے اور صبر کے ذریعے سے اس حرام کے ارتکاب سے باز رہنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
عنوان کا مقصد بھی یہی ہے۔
(3)
بہرحال صبر ایک عجیب نعمت ہے۔
صابر انسان کی طرف لوگوں کے دل مائل ہو جاتے ہیں اور وہ اس سے ہمدردی کرنے کے لیے بے چین ہو جاتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
(البقرة: 153/2)
حدیث کے آخری الفاظ:
کسی بندے کو صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی۔
قابل غور ہیں، واقعہ یہی ہے کہ صبر دل کی جس کیفیت کا نام ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں ایک مقام پر صبر کو نماز پر مقدم کیا گیا ہے۔
(البقرة: 45/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6470   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.