الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تقدیر کے بیان میں
The Book of Al-Qadar (Divine Preordainment)
14. بَابُ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ:
14. باب: اس آیت کا بیان کہ اللہ پاک بندے اور اس کے دل کے درمیان میں حائل ہو جاتا ہے۔
(14) Chapter. “...(Allah) comes in between a person and his heart (i.e., He prevents an evil person to decide anything)..." (V.8:24)
حدیث نمبر: 6618
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا علي بن حفص، وبشر بن محمد، قالا: اخبرنا عبد الله اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لابن صياد:" خبات لك خبيئا"، قال: الدخ؟ قال:" اخسا، فلن تعدو قدرك"، قال عمر: ائذن لي فاضرب عنقه، قال:" دعه إن يكن هو فلا تطيقه، وإن لم يكن هو فلا خير لك في قتله".حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ، وَبِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ صَيَّادٍ:" خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئَا"، قَالَ: الدُّخُّ؟ قَالَ:" اخْسَأْ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ"، قَالَ عُمَرُ: ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، قَالَ:" دَعْهُ إِنْ يَكُنْ هُوَ فَلَا تُطِيقُهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ هُوَ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ".
ہم سے علی بن حفص اور بشر بن محمد نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ عبداللہ نے ہمیں خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد سے فرمایا کہ میں نے تیرے لیے ایک بات دل میں چھپا رکھی ہے (بتا وہ کیا ہے؟) اس نے کہا کہ دھواں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدبخت! اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو، اگر یہ وہی (دجال) ہوا تو تم اس پر قابو نہیں پا سکتے اور اگر یہ وہ نہ ہوا تو اسے قتل کرنے میں تمہارے لیے کوئی بھلائی نہیں۔

Narrated Ibn `Umar: The Prophet said to Ibn Saiyad, "I have kept for you a secret." Ibn Saiyad said, "Ad-Dukh." The Prophet said, "Keep quiet, for you cannot go beyond your limits (or you cannot exceed what has been foreordained for you)." On that, `Umar said (to the Prophet ), "Allow me to chop off his neck!" The Prophet said, "Leave him, for if he is he (i.e., Ad-Dajjal), then you will not be able to overcome him, and if he is not, then you gain no good by killing him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 77, Number 615

   صحيح البخاري6618عبد الله بن عمرخبأت لك خبيئا قال الدخ قال اخسأ فلن تعدو قدرك قال عمر ائذن لي فأضرب عنقه قال دعه إن يكن هو فلا تطيقه وإن لم يكن هو فلا خير لك في قتله
   صحيح البخاري3055عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين فقال ابن صياد للنبي أتشهد أني رسول الله قال له النبي آمنت بالله ورسله قال النبي ماذا ترى قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب قال النبي صل
   صحيح البخاري3056عبد الله بن عمرانطلق النبي وأبي بن كعب يأتيان النخل الذي فيه ابن صياد حتى إذا دخل النخل طفق النبي يتقي بجذوع النخل وهو يختل ابن صياد أن يسمع من ابن صياد شيئا قبل أن يراه وابن صياد مضطجع على فراشه في قطيفة له فيها رمزة فرأت أم ابن صياد
   صحيح البخاري6173عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله فنظر إليه فقال أشهد أنك رسول الأميين ثم قال ابن صياد أتشهد أني رسول الله فرضه النبي ثم قال آمنت بالله ورسله ثم قال لابن صياد ماذا ترى قال يأتيني صادق وكاذب قال رسول الله خلط عليك الأمر قال رسول الل
   صحيح البخاري2638عبد الله بن عمرانطلق رسول الله وأبي بن كعب الأنصاري يؤمان النخل التي فيها ابن صياد حتى إذا دخل رسول الله طفق رسول الله يتقي بجذوع النخل وهو يختل أن يسمع من ابن صياد شيئا قبل أن يراه وابن صياد مضطجع على فراشه في قط
   صحيح البخاري1354عبد الله بن عمرتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين فقال ابن صياد للنبي أتشهد أني رسول الله فرفضه وقال آمنت بالله وبرسله فقال له ماذا ترى قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب فقال النبي خلط عليك الأمر ثم قال له
   صحيح مسلم7354عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين فقال ابن صياد لرسول الله أتشهد أني رسول الله فرفضه رسول الله وقال آمنت بالله وبرسله ثم قال له رسول الله ماذا ترى قال ابن صياد يأتيني
   جامع الترمذي2249عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد قال أشهد أنك رسول الأميين ثم قال ابن صياد للنبي أتشهد أنت أني رسول الله فقال النبي آمنت بالله وبرسله ثم قال النبي ما يأتيك قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب فقال
   سنن أبي داود4329عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله قال فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين ثم قال ابن صياد للنبي أتشهد أني رسول الله فقال له النبي آمنت بالله ورسله ثم قال له النبي ما يأتيك قال يأتيني صادق وكاذب فقال له
   بلوغ المرام1126عبد الله بن عمر الإسلام يعلو ولا يعلى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1126  
´جزیہ اور صلح کا بیان`
سیدنا عائذ بن عمرو المذنی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا۔ (سنن دارقطنی) «بلوغ المرام/حدیث: 1126»
تخریج:
«أخرجه الدار قطني: 3 /252 وسنده ضعيف، وللحديث شواهد عند الطحاوي في معاني الآثار:2 /150 وغيره، وعلقه البخاري، الجنائز، قبل حديث:1354.»
تشریح:
1. اس حدیث میں خبر و اطلاع بھی ہے اور پیش گوئی بھی کہ اسلام ہمیشہ غالب بن کر رہنے کے لیے آیا ہے‘ مغلوب بن کر رہنے کے لیے نہیں‘ لہٰذا اہل اسلام کو چاہیے کہ نظریاتی اور عملی طور پر اسے غالب رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔
اسلام کی صحیح تبلیغ و اشاعت کریں۔
اور اس کے مطابق پہلے خود اپنی عملی زندگی ڈھالیں تاکہ ان کے عمل و کردار اور اخلاق و اطوار سے متاثر ہو کر غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوں۔
2.اس حدیث کو ہدنہ (صلح) کی تمہید اور ابتدا کے طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ باہمی مصالحت میں اگر بفرض محال کوئی شرط بظاہر اسلام کے ماننے والے کے مفاد کے خلاف بھی معلوم ہو تو پریشان ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
3. اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔
وہ اسے ہمیشہ سربلند و بالاتر اور اعلیٰ و غالب رکھے گا۔
اس کے ماننے والے اگر اس کے مطابق عمل کریں گے تو سرخرو ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اسلام اور اہل اسلام کی نصرت و مدد فرمائے گا۔
4. اسلام کا دلائل و براہین کے اعتبار سے سب پر غالب رہنا تو ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عائذ بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابو ہبیرہ ان کی کنیت تھی۔
بصرہ میں فروکش ہوگئے تھے۔
نیک ترین صحابہ میں سے تھے۔
بیعت رضوان میں حاضر تھے۔
یزید بن معاویہ کے عہد میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1126   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2249  
´ابن صائد (ابن صیاد) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہا تھا، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2249]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔

2؎:
بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبردی گئی ہے،
لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے،
معلوم ہوتا ہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے،
ابن صیاد تو ان دجاجلہ،
کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ ﷺ نے خبردی تھی،
اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہوچکا ہے،
رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھا کر ابن صیاد کو دجال کہا حتی کہ آپ ﷺ کے سامنے بھی اسے دجال کہا گیا اور آپﷺ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2249   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4329  
´ابن صیاد کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، وہ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، وہ ایک کمسن لڑکا تھا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا جب تک آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پشت پر مار نہ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو ابن صیاد نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، اور بولا: ہاں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4329]
فوائد ومسائل:
علامہ ابنِ اثیر النہایہ میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک یہودی تھا جو ان کے ساتھ ملا جلا رہتا تھا۔
اس کا نام صَا فُ کہا گیا ہے۔
اس کے پاس کہانت اور جادو کا علم تھا اور وہ اپنے وقت میں اللہ کے نیک بندوں کے لیئے ایک امتحان تھا تا کہ جو ہلاک ہو دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے دلیل ک ساتھ زندہ رہے۔
اکثر کہتے ہیں کہ یہ مدینہ میں مرا اور یہ بھی کہا گیا کہ واقعہ حرا کے مو قعے پر اسے گم پایا گیا اور پھر ملا نہیں۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4329   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6618  
6618. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ابن صیاد سے فرمایا: میں نے تیرے لیے ایک بات اپنے دل میں چھپا رکھی ہے (بتا وہ کیا ہے؟) اس نے کہا: وہ دخ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بد بخت، دور ہو جا! تو اپنی حیثیت سے ہرگز آگے نہیں بڑھ سکےگا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کی: آپ مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن اڑاؤں۔ آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، اگر یہ وہی ہے تو تم اسے قتل نہیں کر سکتے اور اگر یہ وہ نہیں تو اس کے قتل کرنے میں تمہیں کوئی فائدہ نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6618]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لیے کہا کہ خس کم جہاں پاک آئندہ دجال کا اندیشہ ہی نہ رہے۔
اس حدیث کی مناسبت کتاب القدر سے یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ دجال ہے تب تو تم اسے مار ہی نہ سکو گے کیوں کہ اللہ نے تقدیر یوں لکھی ہے کہ وہ قیامت کے قریب نکلے گا اور لوگوں کو گمراہ کرے گا آخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے قتل ہوگا۔
تقدیر کے خلاف نہیں ہو سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ دجال کے لفظی معنی کے لحاظ سے ابن صیاد بھی دجالوں کی فہرست ہی کا ایک فرد تھا اس کے سارے کاموں میں دجل اور فریب کا پورا پورا دخل تھا، ایسے لوگ امت میں بہت ہوئے ہیں اور آج بھی موجود ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ان کو دجالون کذابون کہا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6618   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6618  
6618. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ابن صیاد سے فرمایا: میں نے تیرے لیے ایک بات اپنے دل میں چھپا رکھی ہے (بتا وہ کیا ہے؟) اس نے کہا: وہ دخ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بد بخت، دور ہو جا! تو اپنی حیثیت سے ہرگز آگے نہیں بڑھ سکےگا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کی: آپ مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن اڑاؤں۔ آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، اگر یہ وہی ہے تو تم اسے قتل نہیں کر سکتے اور اگر یہ وہ نہیں تو اس کے قتل کرنے میں تمہیں کوئی فائدہ نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6618]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ وہی دجال ہے جس کا خروج اور لوگوں کو گمراہ کرنا، اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے تو تمہارا خالق و مالک تمہیں اسے قتل کرنے کی قدرت نہیں دے گا بلکہ درمیان میں حائل ہو جائے گا۔
اگر تجھے اسے قتل کرنے کی قدرت دے دے تو اللہ تعالیٰ کے علم میں نقص آئے گا جو محال ہے۔
مقصد یہ ہے کہ تقدیر کا فیصلہ قطعی اور اٹل ہے۔
اگر کہیں کسی کے لیے ٹل سکتا تو آج حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہہ کر مایوس نہ کیا جاتا کہ تم اس بچے (ابن صیاد)
کو قتل کر ہی نہیں سکتے۔
(2)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دنیا میں دوبارہ آنا اور تشریف لا کر دجال کو قتل کرنا تقدیر کے ان حتمی فیصلوں میں داخل ہو چکا ہے جو اٹل ہیں۔
یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے بہادر کی قوت آزمائی بھی بے کار ہے۔
یہ قدرت کے راز ہیں، اگر وہ کسی قید و شرط کو بیان کر کے اپنے فیصلے کو ٹال دیتا تو آج ہی یہ امت ان ہولناک مصائب سے نجات پا لیتی جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، مگر اس ذات بے نیاز کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔
(3)
اس وضاحت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ وسوسہ بھی پیدا نہیں ہوا کہ لاؤ، ذرا آزمائش تو کر کے دیکھوں کہ مجھ میں اس کے قتل کی طاقت ہے یا نہیں۔
بہرحال تقدیر میں جس طرح دجال کا قتل مقدر ہو چکا ہے۔
اسی طرح اس کا قاتل بھی مقدر ہو چکا ہے، یہ ناممکن ہے کہ وہ قتل تو ہو جائے مگر ہو کسی اور سبب سے، وہ یقیناً قتل ہو گا مگر اسی سبب سے جو اس کے لیے مقدر ہو چکا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6618   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.