Narrated Al-Miswar bin Makhrama: The group of people whom `Umar had selected as candidates for the Caliphate gathered and consulted each other. `Abdur-Rahman said to them, "I am not going to compete with you in this matter, but if you wish, I would select for you a caliph from among you." So all of them agreed to let `Abdur-Rahman decide the case. So when the candidates placed the case in the hands of `Abdur-Rahman, the people went towards him and nobody followed the rest of the group nor obeyed any after him. So the people followed `Abdur-Rahman and consulted him all those nights till there came the night we gave the oath of allegiance to `Uthman. Al-Miswar (bin Makhrama) added: `Abdur-Rahman called on me after a portion of the night had passed and knocked on my door till I got up, and he said to me, "I see you have been sleeping! By Allah, during the last three nights I have not slept enough. Go and call Az-Zubair and Sa`d.' So I called them for him and he consulted them and then called me saying, 'Call `Ali for me." I called `Ali and he held a private talk with him till very late at night, and then 'Al, got up to leave having had much hope (to be chosen as a Caliph) but `Abdur-Rahman was afraid of something concerning `Ali. `Abdur-Rahman then said to me, "Call `Uthman for me." I called him and he kept on speaking to him privately till the Mu'adh-dhin put an end to their talk by announcing the Adhan for the Fajr prayer. When the people finished their morning prayer and that (six men) group gathered near the pulpit, `Abdur-Rahman sent for all the Muhajirin (emigrants) and the Ansar present there and sent for the army chief who had performed the Hajj with `Umar that year. When all of them had gathered, `Abdur- Rahman said, "None has the right to be worshipped but Allah," and added, "Now then, O `Ali, I have looked at the people's tendencies and noticed that they do not consider anybody equal to `Uthman, so you should not incur blame (by disagreeing)." Then `Abdur-Rahman said (to `Uthman), "I gave the oath of allegiance to you on condition that you will follow Allah's Laws and the traditions of Allah's Apostle and the traditions of the two Caliphs after him." So `Abdur-Rahman gave the oath of allegiance to him, and so did the people including the Muhajirin (emigrants) and the Ansar and the chiefs of the army staff and all the Muslims.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 314
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7207
حدیث حاشیہ:
عبد الرحمن رضی اللہ عنہ یہ ڈرتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مزاج میں ذرا سختی ہے اور عام لوگ ان سے خوش نہیں ہیں۔
ان سے خلافت سنبھلتی ہے یا نہیں ایسا نہ ہو کوئی فتنہ کھڑا ہو جائے بعضے کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مزاج شریف میں ظرافت اور خوش طبعی بہت تھی۔
عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو یہ ڈر ہوا کہ اس مزاج کے ساتھ خلافت کا کام اچھی طرح سے چلے گا یا نہیں۔
چنانچہ ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اسی ظرافت اور خوش طبعی کی نسبت کہا ھذا الذي أخرك إلی الرابعة پس بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کر لی امر الٰہی یہی تھا کہ پہلے عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں اور اخیر میں جناب مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو خلافت ملے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7207
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7207
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مشتمل شوری تشکیل دی اور فرمایا:
اگر میری موت جلد واقع ہو جائے تو یہ حضرات جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آخری وقت تک راضی رہے خلیفے کا انتخاب کریں۔
مسلمانوں میں سے کوئی شخص بھی ملکی امور کوسمجھنے اور سیاست کرنے میں ان کے ہم پلہ نہ تھا۔
حضرت عبدالرحمٰن کی تحریک پر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دست بردار ہو گئے۔
حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت کے سلسلے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
اب معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں میں سے ایک کے انتخاب کا تھا۔
حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دن رات بھاگ دوڑ اور محنت کی اور آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر کسی دوسرے کو نہیں سمجھتے۔
اس لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے طویل سر گوشی کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اگرچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیداور توقع تھی کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے گی لیکن لوگوں کے اتفاق نے انھیں مجبور کیا کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتخب کریں اس موقع پر لشکروں کے سپہ سالار موجود تھے ان میں شام کے امیرحضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حمص کے امیر حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفے کے امیر حضرت مغیرہ بن شعبہ، بصرے کے امیر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مصر کے امیر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ قابل ذکر ہیں اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر سب لوگ متفق تھے۔
۔
۔
رضی اللہ عنه۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7207