الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
2ق. باب الإِسْلاَمُ مَا هُوَ وَبَيَانُ خِصَالِهِ:
2ق. باب: اسلام کی حقیقت اور اس کے خصال کا بیان۔
حدیث نمبر: 99
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا جرير ، عن عمارة وهو ابن القعقاع ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سلوني؟ فهابوه ان يسالوه، فجاء رجل فجلس عند ركبتيه، فقال: يا رسول الله، ما الإسلام؟ قال:" لا تشرك بالله شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان"، قال: صدقت، قال: يا رسول الله، ما الإيمان؟ قال:" ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتابه، ولقائه، ورسله، وتؤمن بالبعث، وتؤمن بالقدر كله"، قال: صدقت، قال: يا رسول الله، ما الإحسان؟ قال:" ان تخشى الله، كانك تراه، فإنك إن لا تكن تراه، فإنه يراك"، قال: صدقت، قال: يا رسول الله، متى تقوم الساعة؟ قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، وساحدثك عن اشراطها" إذا رايت المراة تلد ربها، فذاك من اشراطها، وإذا رايت الحفاة العراة الصم البكم ملوك الارض، فذاك من اشراطها، وإذا رايت رعاء البهم يتطاولون في البنيان، فذاك من اشراطها، في خمس من الغيب، لا يعلمهن إلا الله"، ثم قرا إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت إن الله عليم خبير سورة لقمان آية 34، قال: ثم قام الرجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ردوه علي، فالتمس فلم يجدوه"، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذا جبريل، اراد ان تعلموا إذ لم تسالوا.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ وَهُوَ ابْنُ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَلُونِي؟ فَهَابُوهُ أَنْ يَسْأَلُوهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَجَلَسَ عِنْدَ رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الإِسْلَامُ؟ قَالَ:" لَا تُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الإِيمَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكِتَابِهِ، وَلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّهِ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَال: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تَخْشَى اللَّهَ، كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا" إِذَا رَأَيْتَ الْمَرْأَةَ تَلِدُ رَبَّهَا، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا رَأَيْتَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الصُّمَّ الْبُكْمَ مُلُوكَ الأَرْضِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا رَأَيْتَ رِعَاءَ الْبَهْمِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، فِي خَمْسٍ مِنَ الْغَيْبِ، لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ"، ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34، قَالَ: ثُمَّ قَامَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُدُّوهُ عَلَيَّ، فَالْتُمِسَ فَلَمْ يَجِدُوهُ"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا جِبْرِيلُ، أَرَادَ أَنْ تَعَلَّمُوا إِذْ لَمْ تَسْأَلُوا.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے (دین کے بارے میں) پوچھ لو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنے مرعوب ہوئے کہ سوال نہ کر سکے، تب ایک آدمی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں گھٹنوں کے قریب بیٹھ گیا، پھر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اسلام کیا؟ آپ نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز کا اہتمام کرو، زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ (پھر) پوچھا: اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتاب، (قیات کے روز) اس سے ملاقات اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، مرنے کے بعد اٹھنے پر ایمان لاؤ اور ہر (امر کی) تقدیر پر ایمان لاؤ۔ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ (پھر) کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ سےاس طرح ڈرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پھر اگر تم اسے نہیں رہے تو وہ یقینا ً تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس نے کہا: آپ نے صحیح فرمایا: (پھر) پوچھا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ نے جواب دیا: جس سے قیامت کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ میں تمہیں اس کی علامات بتائے دیتا ہوں: جب دیکھو کہ عورت اپنے آقا کو جنم دیتی ہے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے اور جب دیکھو کہ ننگے پاؤں اور ننگے بدن والے، گونگے اور بہرے زمین کے بادشاہ ہیں تو یہ اس کی علامات میں سے ہے اور جب دیکھو کہ بھیڑ بکریوں کے چروا ہے اونچی سے اونچی عمارات بنانے میں باہم مقابلہ کر رہے ہیں تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ (قیامت کا وقوع) غیب کی ان پانچ چیزوں میں سے ہے۔جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ارحام (ماؤں کے پیٹوں) میں کیا ہےاور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ آنے والے کل میں کیا کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ (کہاں) کس زمین میں فوت ہو گا ...... سورت کے آخر تک۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر وہ آدمی کھڑا ہو گیا (اور چلا گیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے میرے پاس واپس لاؤ۔ اسے تلاش کیا گیا تو وہ انہیں (صحابہ کرام کو) نہ ملا۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبریل تھے، انہوں نے چاہا کہ تم نہیں پوچھ رہے تو تم (دین) سیکھ لو (انہوں نے آکر تمہاری طرف سے سوال کیا
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے پوچھ لو! صحابہؓ نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سوال کرنے میں ہیبت محسوس کی (آپ کی عظمت کی بناء پر سوال نہ کیا) تو ایک آدمی آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گیا پھر کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ! اسلام کیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، نماز کا اہتمام کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا! پوچھا اے اللہ کے رسولؐ! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: یہ کہ تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کی ملاقات اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اور مرنے کے بعد اٹھنے کا یقین رکھے اور ہر قسم کی تقدیر کو تسلیم کرے۔ اس نے کہا آپؐ نے درست فرمایا۔ کہنے لگا اے اللہ کے رسولؐ! احسان کیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: تو اللہ سے اس طرح ڈرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے، بلاشبہ اگرچہ تو اسے نہیں دیکھ رہا ہے وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے (اور اصل چیز آقا اور مالک کا دیکھنا ہے) اس نے کہا آپؐ نے صحیح فرمایا۔ پوچھا اے اللہ کے رسولؐ! قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب دیا: جس سے قیامت کے وقوع کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا اور میں تمھیں اس کی علامات بتائے دیتا ہوں۔ جب دیکھو کہ لونڈی اپنے آقا کو جَن رہی ہےتو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہےاور جب دیکھو ننگے پاؤں، ننگے بدن، بہرے، گونگے زمین کے بادشاہ ہیں تو یہ بھی اس کی علامات میں سے ہےاور جب دیکھو بھیڑ بکریوں کے چرواہے عمارات بنانے میں ایک دوسرے پر فخر کر رہے ہیں تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ قیامت ان پانچ غیبی چیزوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپؐ نے پڑھا قیامت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے، کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ آنے والے کل کیا کرے گا، اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے وہ کس زمین میں (کہاں) فوت ہو گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا خبردینے والاہے۔ (لقمان:34) پھر آدمی اٹھ کر چلا گیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے میرے پاس واپس لاؤ۔ اسے تلاش کیا گیا تو وہ انھیں (صحابہ کرام ؓ کو) نہ ملا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبرائیل ؑ تھےانھوں نے چاہا تم (دین) سیکھ لو کیونکہ تم نے سوال نہ کیا تھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 10

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14915) وهو في ((جامع الاصول)) برقم (10)» ‏‏‏‏
   صحيح البخاري50عبد الرحمن بن صخرالإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وبلقائه ورسله وتؤمن بالبعث قال ما الإسلام قال الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤدي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان قال ما الإحسان قال أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك قال متى الساعة
   صحيح البخاري4777عبد الرحمن بن صخرالإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله ولقائه وتؤمن بالبعث الآخر قال يا رسول الله ما الإسلام قال الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان قال يا رسول الله ما الإحسان قال الإحسان أن تعبد الله كأنك ترا
   صحيح مسلم99عبد الرحمن بن صخرلا تشرك بالله شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان قال صدقت قال يا رسول الله ما الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتابه ولقائه ورسله وتؤمن بالبعث وتؤمن بالقدر كله قال صدقت قال يا رسول الله ما الإحسان قال أن تخشى الله كأنك تراه فإنك
   صحيح مسلم97عبد الرحمن بن صخرتؤمن بالله وملائكته وكتابه ولقائه ورسله وتؤمن بالبعث الآخر قال يا رسول الله ما الإسلام قال الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة المكتوبة وتؤدي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان قال يا رسول الله ما الإحسان قال أن تعبد الله كأنك تراه فإنك إن
   سنن ابن ماجه4044عبد الرحمن بن صخرمتى الساعة فقال ما المسئول عنها بأعلم من السائل ولكن سأخبرك عن أشراطها إذا ولدت الأمة ربتها فذاك من أشراطها وإذا كانت الحفاة العراة رءوس الناس فذاك من أشراطها وإذا تطاول رعاء الغنم في البنيان فذاك من أشراطها في خمس لا يعلمهن إلا الله فتلا رسول الله إن الل
   سنن ابن ماجه64عبد الرحمن بن صخرما الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله ولقائه وتؤمن بالبعث الآخر قال يا رسول الله ما الإسلام قال أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة المكتوبة وتؤتى الزكاة المفروضة وتصوم رمضان قال يا رسول الله ما الإحسان قال أن تعبد الله
   مشكوة المصابيح3عبد الرحمن بن صخروإذا رايت الحفاة العراة الصم البكم ملوك الارض في خمس لا يعلمهن إلا الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 50  
´دین اور اسلام اور ایمان ایک ہیں`
«. . . كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَارِزًا يَوْمًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: مَا الْإِيمَانُ؟ . . .»
. . . ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 50]

تشریح:
شارحین بخاری لکھتے ہیں: «مقصود البخاري من عقد ذلك الباب ان الدين والاسلام والايمان واحد لااختلاف فى مفهومهما والواو فى ومابين وقوله تعالي بمعني مع» یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس باب کے منعقد کرنے سے اس امر کا بیان مقصود ہے کہ دین اور اسلام اور ایمان ایک ہیں، اس کے مفہوم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور «وما بين» میں اور «وقوله تعاليٰ» میں ہر دو جگہ واؤ مع کے معنی میں ہے جس کا مطلب یہ کہ باب میں:
پہلا ترجمہ سوال جبرئیل سے متعلق ہے جس کے مقصد کو آپ نے «فجعل ذالك كله من الايمان» سے واضح فرما دیا۔ یعنی دین اسلام احسان اور اعتقاد قیامت سب پر مشتمل ہے۔
دوسرا ترجمہ «وما بين لوفد عبدالقيس» ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس کے لیے ایمان کی جو تفصیل بیان فرمائی تھی اس میں اعمال بیان فرماکر ان سب کو داخل ایمان قرار دیا گیا تھا خواہ وہ اوامر سے ہوں یا نواہی سے۔
تیسرا ترجمہ یہاں آیت کریمہ «ومن يبتغ غير الاسلام» ہے جس سے ظاہر ہے کہ اصل دین دین اسلام ہے۔ اور دین اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ کیونکہ اگر دین اسلام سے مغائر ہوتا تو آیت شریفہ میں اسلام کا تلاش کرنے والا شریعت میں معتبر ہے۔ یہاں ان کے لغوی معانی سے کوئی بحث نہیں ہے۔ حضرت الامام کا مقصد یہاں بھی مرجیہ کی تردید ہے جو ایمان کے لیے اعمال کو غیر ضروری بتلاتے ہیں۔

تعصب کا برا ہو:
فرقہ مرجیہ کی ضلالت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے اور امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی گمراہ فرقوں کی تردید کے لیے یہ جملہ تفصیلات پیش فرما رہے ہیں۔ مگر تعصب کا برا ہو عصر حاضر کے بعض مترجمین و شارحین بخاری کو یہاں بھی خالصاً حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر تعریض نظر آئی ہے اور اس خیال کے پیش نظر انہوں نے یہاں حضرت امام بخاری کو غیرفقیہ زود رنج قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالی ہے صاحب انوارالباری کے لفظ یہ ہیں:
امام بخاری میں تاثر کا مادہ زیادہ تھا وہ اپنے اساتذہ حمیدی، نعیم بن حماد، خرامی، اسحاق بن راہویہ، اسماعیل، عروہ سے زیادہ متاثر ہو گئے۔ جن کو امام صاحب وغیرہ سے للّٰہی بغض تھا۔ دوسرے وہ زود رنج تھے۔ فن حدیث کے امام بے مثال تھے مگر فقہ میں وہ پایہ نہ تھا۔ اسی لیے ان کا کوئی مذہب نہ بن سکا امام اعظم رحمہ اللہ کی فقہی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ اونچے درجہ کی فقہ کی ضرورت تھی۔ جو نہ سمجھا وہ ان کا مخالف ہو گیا۔ [انوارالباری، جلد: دوم، ص: 168]
اس بیان پر تفصیلی تبصرہ کے لیے دفاتر بھی ناکافی ہیں۔ مگر آج کے دور میں ان فرسودہ مباحث میں جا کر علمائے سلف کا باہمی حسد و بغض ثابت کر کے تاریخ اسلام کو مجروح کرنا یہ خدمت ایسے متعصبین حضرات ہی کو مبارک ہو ہمارا تو سب کے لیے یہ عقیدہ ہے «تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ» [2-البقرة:134] رحمہم اللہ اجمعین۔ آمین۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو زود رنج اور غیر فقیہ قرار دینا خود ان لکھنے والوں کے زود رنج اور کم فہم ہونے کی دلیل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 50   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 3  
´ثقہ راوی کی زیادت مقبول اور حجت ہوتی ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَرَوَاهُ أَبُو هُرَيْرَة مَعَ اخْتِلَافٍ وَفِيهِ: " وَإِذَا رَأَيْتَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الصُّمَّ الْبُكْمَ مُلُوكَ الْأَرْضِ فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ. ثُمَّ قَرَأَ: (إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ) ‏‏‏‏الْآيَة ‏‏‏‏ . . .»
. . . الفاظ کی کمی بیشی سے سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ حدیث مروی ہے اور اس میں اتنا زیادہ ہے کہ جب ننگے پاؤں والوں اور ننگے بدن والوں اور بہرے گونگوں کو تم دیکھو گے کہ یہ بادشاہ بنے ہوئے ہیں تو سمجھنا قیامت آنے ہی والی ہے۔ قیامت کا علم من جملہ ان پانچ باتوں کے ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے جن کا بیان اس آیت میں ہے «إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ» آخر تک . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 3]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 50]،
[صحيح مسلم 93]

فقہ الحدیث
➊ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی پوری حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے، وہ فرماتے ہیں کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے پوچھو، صحابہ نے سوال کرنے سے خوف محسوس کیا تو ایک آدمی آیا اور (آ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گیا۔ پھر کہا: اے اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کے ساتھ کچھ (بھی) شرک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو (یہ اسلام ہے) اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایمان یہ ہے) کہ تم اس (اللہ) کے فرشتوں، کتابوں، ملاقات (آخرت) اور رسولوں پر ایمان لاؤ، مرنے کے بعد (دوبارہ) زندگی کا یقین رکھو اور ساری تقدیر کو مانو (کہ خیر و شر اللہ ہی کی طرف سے ہے) اس نے کہا: آپ نے سچ کہا:، اے اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے اس طرح ڈرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر تم اسے نہیں دیکھتے (یعنی یہ درجہ حاصل نہ ہو سکے تو کم از کم یہ یقین کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے، اس نے کہا کہ آپ نے سچ کہا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا اور میں تمہیں اس کی نشانیاں بتاتا ہوں، جب تم دیکھو کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، گونگے، بہرے، چرواہے زمین کے بادشاہ بن رہے ہیں تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ (قیامت) ان پانچ چیزوں میں سے ہے، جسے سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (جس کا ترجمہ درج ذیل ہے) بےشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل کرتا ہے اور (تمام) ارحام میں کیا ہے وہی جانتا ہے۔ کسی انسان کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کل کیا کمائے گا اور نہ کسی جان دار کو یہ معلوم ہے کہ وہ زمین کے کس حصے میں فوت ہو گا۔ پھر وہ آدمی کھڑا ہو گا (اور چلا گیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے واپس بلاؤ، اسے تلاش کیا گیا (لیکن) وہ نہ ملا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبریل علیہ السلام ہیں، یہ اس لئے تشریف لائے تھے کہ تمہیں (دین) سکھائیں، کیونکہ تم خود سوال نہیں کرنا چاہتے تھے۔
➋ قیامت کا علم اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے۔
➌ ثقہ راوی کی زیادت مقبول اور حجت ہوتی ہے۔
➍ قرآن و حدیث میں قیامت کی جتنی نشانیاں مذکور ہیں، ان کے وقوع کے بعد ہی قیامت آئے گی۔
➎ تقدیر پر ایمان لانا فرض اور رکن ایمان ہے، جو لوگ تقدیر کا انکار کرتے ہیں، وہ اہل بدعت اور گمراہ ہیں۔
➏ حدیث قرآن کی شرح ہے۔ «وغير ذلك من الفوئد»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 3   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث64  
´ایمان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں میں باہر بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، اس سے ملاقات اور یوم آخرت پر ایمان رکھو ۱؎۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو، فرض نماز قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو۔‏‏‏‏ اس نے کہا: اللہ کے رسول! احسان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 64]
اردو حاشہ:
(1)
مستقبل کا صحیح علم صرف اللہ کو ہے۔
آیت مبارکہ میں مذکور تمام امور کا تعلق مستقبل سے ہے۔
قیامت کے متعلق جو علامات بیان کی گئی ہیں ان کے ظہور کا متعین وقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، چہ جائیکہ قیامت کے وقت کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے، اسی طرح دوسرے امور بھی ہیں جن کے متعلق انسان اندازے لگاتا رہتا ہے جو صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی، مثلا:
بادل دیکھ کر ہم بارش کی امید کر سکتے ہیں لیکن سو فیصد یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ بادل برسے گا یا بغیر برسے ہی آگے گزر جائے گا۔
اسی طرح آثاروعلامات کی روشنی میں بچے کی امید کر سکتے ہیں لیکن ان کا مذکر یا مونث ہونا، ذہین یا کم عقل ہونا، کسی جسمانی یا ذہنی معذوری میں مبتلا ہونا وغیرہ ایسے امور ہیں جن کے بارے میں کوئی شخص مکمل وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔
ہم مستقبل کے پروگرام تو بنا سکتے ہیں لیکن ناگہانی رکاوٹوں اور اچانک پیش آنے والے حالات سے قبل از وقت واقف نہیں ہو سکتے، اس طرح کسی کی زندگی اور موت کے بارے میں صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔
انسان صرف اندازہ کر سکتا ہے لیکن یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کا اندازہ بالکل صحیح ہو گا۔

(2)
اگر عالم کو کوئی مسئلہ معلوم نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کہہ دے مجھے معلوم نہیں اور اسے اپنی عزت و شان کے منافی نہ سمجھے۔

(3)
عالم کو چاہیے کہ سوال کرنے والے کو نرمی اور محبت سے سمجھائے، ناراضی کا اظہار نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 64   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 99  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الصم:
اصم کی جمع ہے،
بہرے (کان رکھنے کے باوجود حق قبول نہ کرنا،
گویا قوت سماع سے محروم ہونا)
(2)
البكم:
ابكم کی جمع ہے،
گونگے (زبان رکھنے کے باوجود حق کا اظہار نہ کرنا،
زبان سے محروم ہونا ہے)
(3)
ملوك:
ملك کی جمع ہے،
بادشاہ،
صاحب اقتدار۔
(4)
غيب:
جو چیز حواس اور بداہت عقلی سے معلوم نہ ہو سکے اور اس پر کوئی دلیل بھی قائم نہ ہو۔
فوائد ومسائل:

حدیث میں دین کے تین درجات بیان کیے گئے ہیں،
اسلام،
ایمان اور احسان ہر بعد والا درجہ پہلے سے بلند اور اس پر مشتمل ہے،
ایمان کے اندر اسلام داخل ہے اور احسان،
اسلام اور ایمان دونوں پر مشتمل ہے اور آخری بلند ترین رتبہ ہے۔

اسلام:
جس طرح پورے دین کا نام ہے ﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا﴾ جو اسلام کے سوا کسی دین کا متلاشی ہوگا،
اسی طرح دین کے عملی پیکر جو محسوس ہو کا نام بھی ہے،
جو پانچ ارکان سے تشکیل پاتا ہے۔

ایمان:
دین کا دوسرا مرتبہ ہے جو دین اسلام کے چھ بنیادی ارکان پر مشتمل ہے اور اسلام کے عملی اور محسوس ہونے والے پانچ ارکان کے لیے قوت محرکہ کا کام دیتا ہے،
اس لیے اس پر مشتمل اور برتر درجہ ہے۔

احسان:
دین کا آخری اور تیسرا مرتبہ ہے،
جو پہلے دونوں درجوں پر مشتمل اور ان سے بلند ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ ہر قول وفعل اور عقیدہ وعمل کے پس منظر میں یہ جذبہ اور داعیہ موجود ہو کہ گویا کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے،
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا دیکھنا تو ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی مسلمان منکر نہیں،
ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اس حقیقت کے تصور کے ساتھ اس تصور کو بھی قائم کرے کہ میں بھی اسے دیکھ رہا ہوں،
لیکن آج ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس حقیقت مسلمہ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے اس کا تصور بھی مفقود ہے۔
اس لیے کم از کم ہمیں ہر عقیدہ وعمل کے ساتھ،
اس حقیقت کا استحضار (تصور وخیال میں)
کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے کیونکہ اجر وثواب یا جزا وسزا میں تو اس کے دیکھنے کا اعتبار ہے۔
5 - جس طرح انسان کو اپنی موت کے وقت دن اورجگہ کا علم نہیں اسی طرح پورے عالم یا کائنات کے فنا اور خاتمہ کا بھی کسی کو علم نہیں،
ہاں قیامت سے پہلے اس کے قرب اوروقوع کی علامات اور نشانیوں کا آہستہ آہستہ،
بتدریج ظہور شروع ہوجائے گا،
اور اس حدیث میں،
ان میں سے صرف تین نشانیوں کو بیان فرمایا گیا ہے:
(1)
ننگے بدن،
ننگے پاؤں،
بکریوں کے چرواہے جو علم وفضل سے محروم جاہل اور ناداں ہوتے ہیں،
وہ لوگوں کے سردار وقائد اور دولت وثروت کے مالک ہوں گے،
جن کا کام عمارات بنانے میں ایک دوسرے سے بڑھنا اور اس پر فخر ومباہات کرنا ہوگا۔
(2)
جب فقیر وقلاش لو گ جو بہرے گونگے ہوں گے یعنی صلاحیت واہلیت اور استعداد وقابلیت سے محروم ہوں گے،
امانت ودیانت اور علم وفضل سے تہی دامن ہوں گے وہ بادشاہ ہوں گے،
انہیں اپنے حقوق و فرائض کا علم نہ ہوگا۔
انہیں تو صرف مال ودولت سمیٹنے اور محلات بنانے کی فکر ہوگی،
اس سے دین ودنیا کا نظم ونسق تباہ و برباد ہوگا۔
(3)
علم اور دیانت سے محرومی کی بنا پر بیٹیاں،
ماؤں کی نافرمان ہوں گی بلکہ مالکہ کی طرح ان پر حکم چلائیں گی۔
6 - ماالمسئول عنھا اعلم من السائل:
آپ نے یہ نہیں فرمایا،
میں اسے تجھ سے زیادہ نہیں جانتا بلکہ یہ فرمایا:
مسئول عنہ،
سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔
اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس مسئلہ میں میری اور تیری تخصیص نہیں بلکہ ہر سائل اور مسئول اس کے جواب میں برابر ہیں،
کسی شخص کو بھی اس کا علم نہیں دیا گیا۔
7 - راوی جب استاد سے اکیلا روایت سنے تو حدثنی کہتا ہے اور جب دوسرے ساتھیوں کے ساتھ سماع کرے تو حدثنا اسی طرح جب اکیلا،
استاد کو روایت سنائے تو اخبرنی اورجب ساتھیوں کے ساتھ قراءت کرے تو اخبرنا استعمال کرتا ہے۔
امام صاحب کی بھی صورت حال یہی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 99   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.