الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
8. باب الْأَمْرِ بِقِتَالِ النَّاسِ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَيُؤْمِنُوا بِجَمِيعِ مَا جَاءَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَصَمَ نَفْسَهُ وَمَالَهُ إِلَّا بِحَقِّهَا وَوُكِّلَتْ سَرِيرَتُهُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَقِتَالِ مَنْ مَنَعَ الزَّكَاةَ أَوْ غَيْرَهَا مِنْ حُقُوقِ الْإِسْلَامِ وَاهْتِمَامِ الْإِمَامِ بِشَعَائِرِ الْإِسْلَامِ 
8. باب: جب تک لوگ «لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ» نہ کہیں ان سے لڑنے کا حکم۔
حدیث نمبر: 129
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو غسان المسمعي مالك بن عبد الواحد ، حدثنا عبد الملك بن الصباح ، عن شعبة ، عن واقد بن محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امرت ان اقاتل الناس، حتى يشهدوا ان، لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله، ويقيموا الصلاة، ويؤتوا الزكاة، فإذا فعلوا، عصموا مني، دماءهم، واموالهم إلا بحقها، وحسابهم على الله".حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ مَالِكُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ، حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا، عَصَمُوا مِنِّي، دِمَاءَهُمْ، وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ".
ابو غسان مسمعی، مالک بن عبد الواحد، عبد الملک بن الصباح، شعبہ، واقد بن محمدزید بن عبد اللہ، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ لا الہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی گواہی نہ دینے لگ جائیں اور نماز قائم نہ کر لیں اور زکوٰۃ ادر نہ کرنے شروع کر لیں اگر وہ ایسا کر یں گے تو انہوں نے مجھ سےاپنا جان وما ل بچا لیا مگر حق پر ان کا جان اور مال تعرض نہیں کیا جائے گا ان کے دل کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم ملا ہے: کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے پیغمبر ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں۔ پس جب وہ یہ سب کچھ کرنے لگیں، تو انھوں نے اپنے خون (جان) اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 22

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صححه)) فى الايمان، باب: ﴿ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ﴾ برقم (25) انظر ((التحفة)) برقم (7422)» ‏‏‏‏
   صحيح البخاري25عبد الله بن عمرأمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام وحسابهم على الله
   صحيح مسلم129عبد الله بن عمرأمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة فإذا فعلوا عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله
   مشكوة المصابيح12عبد الله بن عمرامرت ان اقاتل الناس حتى يشهدوا ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم واموالهم إلا بحق الإسلام وحسابهم على الله. إلا ان مسلما لم يذكر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 25  
´ایمان کے لیے عمل کی حاجت`
«. . . عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ . . .»
. . . ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے (اللہ کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔ (رہا ان کے دل کا حال تو) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/بَابُ: {فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ}:: 25]

تشریح:
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابواب ایمان میں لانے سے فرقہ ضالہ مرجیہ کی تردید مقصود ہے جن کا گمان ہے کہ ایمان کے لیے عمل کی حاجت نہیں۔ آیت اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے توبہ کرنے اور نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ان کا راستہ چھوڑ دو یعنی جنگ نہ کرو۔ اور حدیث میں اس کی تفسیر مزید کے طور پر نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ کلمہ شہات کا بھی ذکر کیا گیا اور بتلایا گیا کہ جو لوگ ان ظاہری اعمال کو بجا لائیں گے ان کو یقیناً مسلمان ہی تصور کیا جائے گا اور وہ جملہ اسلامی حقوق کے مستحق ہوں گے۔ رہا ان کے دل کا حال سو وہ اللہ کے حوالہ ہے کہ دلوں کے بھیدوں کا جاننے والا وہی ہے۔

«الا بحق الاسلام» کا مطلب یہ کہ قوانین اسلام کے تحت اگر وہ کسی سزا یا حد کے مستحق ہوں گے تو اس وقت ان کا ظاہری اسلام اس بارے میں رکاوٹ نہ بن سکے گا اور شرعی سزا بالضرور ان پر لاگو ہو گی۔ جیسے محصن زانی کے لیے رجم ہے۔ ناحق خون ریزی کرنے والے کے لیے قصاص ہے۔ یا جیسے وہ لوگ تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد زکوٰۃ سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صاف صاف فرما دیا کہ «لاقاتلن من فرق بين الصلوة والزكوٰة» جو لوگ نماز کی فرضیت کے قائل ہیں مگر زکوٰۃ کی فرضیت اور ادائیگی سے انکار کر رہے ہیں ان سے میں ضرور مقابلہ کروں گا۔ «الابحق الاسلام» میں ایسے جملہ امور داخل ہیں۔

آیت شریفہ مذکورہ سورۃ توبہ میں ہے جو پوری یہ ہے «فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ» [9-التوبة:5] یعنی حرمت کے مہینے گزرنے کے بعد (مدافعانہ طور پر) مشرکین سے جنگ کرو اور جہاں بھی تمہارا داؤ لگے ان کو مارو، پکڑو، قید کرو اور ان کے پکڑنے یا زیر کرنے کے لیے ہر گھات میں بیٹھو۔ پھر اگر وہ شرارت سے توبہ کریں اور (اسلام قبول کر کے) نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ کیونکہ اللہ پاک بخشنے والا مہربان ہے۔

آیت شریفہ کا تعلق ان مشرکین عرب کے ساتھ ہے جنہوں نے مسلمانوں کو ایک لمحہ کے لیے بھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیا اور ہر وقت وہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی فکر میں رہے اور خود جیو اور دوسروں کو جینے دو کا فطری اصول قطعاً بھلا دیا۔ آخر مسلمانوں کو مجبوراً مدافعت کے لیے قدم اٹھانا پڑا۔ آیت کا تعلق ان ہی لوگوں سے ہے اس پر بھی ان کو آزادی دی گئی کہ اگر وہ جارحانہ اقدام سے باز آ جائیں اور جنگ بند کر کے جزیہ ادا کریں تو ان کو امن دیا جائے گا اور اگر اسلام قبول کر لیں تو پھر وہ اسلامی برادری کے فرد بن جائیں گے اور جملہ اسلامی حقوق ان کو حاصل ہوں گے۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ويؤخذ من هذا الحديث قبول الاعمال الظاهرة والحكم بمايقتضيه الظاهر والاكتفاءفي قبول الايمان بالاعتقاد الجازم۔» یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال ظاہری کو قبول کیا جائے گا اور ظاہری حال ہی پر حکم لگایا جائے گا اور پختہ اعتقاد کو قبولیت ایمان کے لیے کافی سمجھا جائے گا۔

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ويوخذ منه ترك تكفير اهل البدع المقرين بالتوحيد الملتزمين للشرائع وقبول توبة الكافر من كفره من غير تفصيل بين كفر ظاهر اوباطن» یعنی اس حدیث سے یہ بھی لیا جائے گا کہ جو اہل بدعت توحید کے اقراری اور شرائع کا التزام کرنے والے ہیں ان کی تکفیر نہ کی جائے گی اور یہ کہ کافر کی توبہ قبول کی جائے گی اور اس کی تفصیل میں نہ جائیں گے کہ وہ توبہ ظاہری کر رہا ہے یا اس کے دل سے بھی اس کا تعلق ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ اللہ کے حوالہ ہے۔ ہاں جو لوگ محبت بدعت میں گرفتار ہوکر علانیہ توہین و انکار سنت کریں گے وہ ضرور آیت کریمہ «فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ» [3-آل عمران:32] کے مصداق ہوں گے۔

حضرت امام المحدثین مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے اور یہ بتلاتے ہوئے کہ اعمال بھی ایمان ہی میں داخل ہیں، تفصیل مزید کے طور پر آگے بتلانا چاہتے ہیں کہ بہت سی آیات قرآنی و احادیث نبوی میں لفظ عمل استعمال ہوا ہے اور وہاں اس سے ایمان مراد ہے۔ پس مرجیہ کا یہ قول کہ ایمان قول بلا عمل کا نام ہے، باطل ہے۔

حضرت علامہ مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وفي الحديث رد على المرجئة فى قولهم ان الايمان غيرمفتقر الي الاعمال وفيه تنبيه على ان الاعمال من الايمان والحديث موافق لقوله تعالىٰ فان تابوا واقامواالصلوة فخلوا سبيلهم متفق عليه اخرجه البخاري فى الايمان والصلوة ومسلم فى الايمان الا ان مسلمالم يذكر الابحق الاسلام لكنه مراد والحديث اخرجه ايضا الشيخان من حديث ابي هريرة والبخاري من حديث انس ومسلم من حديث جابر» [مرعاة جلد: اول ص: 36] مراد وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب الایمان اور کتاب الصلوٰۃ میں نقل کیا ہے اور امام مسلم نے صرف ایمان میں اور وہاں لفظ «الابحق الاسلام» ذکر نہیں ہوا لیکن مراد وہی ہے نیز اس حدیث کو شیخان نے حدیث ابوہریرۃ سے اور بخاری نے حدیث انس سے اور مسلم نے حدیث جابر سے بھی روایت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 25   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 12  
´کافروں سے جہاد کب کیا جائے گا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَق الْإِسْلَام وحسابهم على الله. إِلَّا أَنَّ مُسْلِمًا لَمْ يَذْكُرْ» إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَام " . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز ادا کریں اور زکوۃ دیں۔ جب وہ یہ سب کچھ کرنے لگیں گے تو انہوں نے مجھ سے اپنے جان و مال کو بچا لیا، اسلامی حق کے علاوہ ان کا حساب اللہ کےذمہ ہے . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 12]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 25]،
[صحيح مسلم 129]

فقہ الحدیث
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کلمہ شہادت «لا اله الا الله محمد رسول الله» کی گواہی دینے کے بعد، نماز اور زکوٰۃ، دین اسلام کے دو انتہائی اہم ارکان ہیں۔ ان ارکان کی ادائیگی کے بعد ہی لوگوں کی جانیں اور مال محفوظ رہ سکتے ہیں، ورنہ ان کے خلاف بزور طاقت جہاد کیا جائے گا۔
➋ اسلام کے احکام ظاہر پر مبنی ہیں، اگر کسی شخص نے ظاہری طور پر اسلام قبول کر لیا اور بظاہر ارکان اسلام پر عمل پیرا ہوا، نواقض اسلام کا ارتکاب نہیں کیا تو اسے دنیا میں اہل اسلام کے تمام حقوق حاصل ہوں گے، اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اگر باطن میں وہ کافر و منافق ہوا تو قیامت کے دن یہ ظاہری اسلام اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔ ديكهئے: [مشكوة مترجم ج 1 ص 124 مع فوائد غزنويه، بتصرف يسير]
«امرت» مجھے حکم دیا گیا کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے سوا، کوئی حکم دینے والا نہیں ہے۔
➍ اس حدیث میں نماز سے مراد فرض نماز ہے۔ امام مالک و امام شافعی رحمہما اللہ کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ جان بوجھ کر، کسی شرعی عذر کے بغیر فرض نماز ترک کرنے والے کو، اس کی حد میں قتل کیا جائے گا۔ جبکہ امام احمد کی طرف منسوب ہے کہ اس تارک نماز کو کفر اور ارتداد کی وجہ سے قتل کیا جائے گا اور اس آخری قول کے استدلال میں نظر ہے۔ دیکھئے: [مرعاة المفاتيح 59/1]
➎ بحق الاسلام سے مراد تمام وہ امور ہیں، جن کی سزا اسلام میں قتل ہے، مثلاً:
① شادی شدہ زانی کا سنگسار ہونا
② قتل کا بدلہ قتل: قصاص
③ مسلمان کا مرتد ہو جانا، وغیرہ جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
➏ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان حاکم کو اجازت ہے کہ وہ مانعین زکوٰۃ سے جنگ کرے، اور اسی طرح اس پر یہ لازم ہے کہ توحید کے ساتھ ساتھ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ قائم کرے۔
➐ اس حدیث میں مرجیہ فرقے پر رد ہے، جو کہ اعمال کو ایمان میں داخل نہیں سمجھتے۔
«أقاتل الناس» سے مراد «أقاتل المشركين» ہے جیسا کہ صحیح روایت سے واضح ہے۔ دیکھئے: [السنن الكبريٰ للبيهقي 92/3، وسنده صحيح، والسنن المجتبيٰ للنسائي 75/7 ح 3971، وعلقه البخاري 393 بعضه]
➒ اس حدیث کے بعد صحیح مسلم میں ہے: «من قال لا الا اله ا الله وكفر بما يعبد من دون الله، حرم ماله و دمه و حسابه على الله» جس شخص نے «لا اله الا الله» کا اقرار کیا اور غیر اللہ کی عبادت سے انکار کیا تو اس کا مال اور خون (بہانا) حرام ہے۔ اس کا حساب اللہ پر ہے۔ [130، 23/37] معلوم ہوا کہ کفر و شرک سے انکار رکن ایمان ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 12   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.