الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
23. باب بَيَانِ أَنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ:
23. باب: دین خیرخواہی کا نام ہے۔
Chapter: Clarifying that the religion is sincerity
حدیث نمبر: 196
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عباد المكي ، حدثنا سفيان ، قال: قلت لسهيل: إن عمرا حدثنا، عن القعقاع ، عن ابيك ، قال: ورجوت ان يسقط عني رجلا، قال: فقال: سمعته من الذي سمعه منه ابي، كان صديقا له بالشام، ثم حدثنا سفيان ، عن سهيل ، عن عطاء بن يزيد ، عن تميم الداري ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الدين النصيحة، قلنا: لمن؟ قال: لله، ولكتابه، ولرسوله، ولائمة المسلمين، وعامتهم ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: قُلْتُ لِسُهَيْلٍ: إِنَّ عَمْرًا حَدَّثَنَا، عَنْ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِيكَ ، قَالَ: وَرَجَوْتُ أَنْ يُسْقِطَ عَنِّي رَجُلًا، قَالَ: فَقَالَ: سَمِعْتُهُ مِنَ الَّذِي سَمِعَهُ مِنْهُ أَبِي، كَانَ صَدِيقًا لَهُ بِالشَّامِ، ثُمَّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الدِّينُ النَّصِيحَةُ، قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ ".
سفیان بن عیینہ نے کہا: میں نے سہیل سے کہا کہ عمرو نے ہمیں قعقاع کے واسطے سے آپ کے والد سے حدیث سنائی (سفیان نے کہا:) مجھے امید تھی کہ وہ (مجھے خود روایت سنا کر) ایک راوی کم کر دے گا (چنانچہ سہیل نےکہا) میں نے اسی سے یہ روایت سنی جس سے میرے والد سے سنی، وہ شام میں ان کا دوست تھا۔ (محمد بن عباد نے کہا) پھر سفیان نے ہمیں سہیل کے واسطے سے عطاء بن یزید کی حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سےروایت سنائی کہ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم (صحابہ رضی اللہ عنہ) نے پوچھا: کس کی (خیر خواہی؟) آپ نے فرمایا: اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانون کی (خیرخواہی۔)
سفیانؒ کا کہنا ہے کہ میں نے سعیدؒ سے کہا عمروؒ نے ہمیں قعقاعؒ کے واسطہ سے آپ کے باپ سے حدیث سنائی ہے اور میری خواہش یہ تھی کہ وہ مجھے روایت سنائے، تاکہ ایک راوی کم ہو جائے تو سہیلؒ نے کہا: میں نے اپنے باپ کے شامی دوست، جس سے وہ روایت بیان کرتے ہیں، خود سنی ہے۔ (اب یہ روایت قعقاعؒ اور سہیلؒ کے باپ ابو صالحؒ کی بجائے سہیلؒ سے ہے اور سند عالی ہو گئی ہے) پھر سفیانؒ نے ہمیں سہیلؒ سے عطاء بن یزیدؒ کی تمیم داریؓ سے روایت سنائی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے۔ ہم نے پوچھا: کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانوں کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 55

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد فى ((سننه)) فى الادب، باب: فى النصيحة برقم (4944) والنسائي فى ((المجتبي من السنن)) 156/7-157 فى البيعة، باب: النصيحة للامام - انظر ((التحفة)) برقم (2053)» ‏‏‏‏
   صحيح مسلم196تميم بن أوسالدين النصيحة لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم
   سنن أبي داود4944تميم بن أوسالدين النصيحة لله وكتابه ورسوله وأئمة المؤمنين وعامتهم
   سنن النسائى الصغرى4202تميم بن أوسالدين النصيحة لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم
   سنن النسائى الصغرى4203تميم بن أوسالدين النصيحة لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم
   بلوغ المرام1326تميم بن أوس‏‏‏‏الدين النصيحة
   مسندالحميدي859تميم بن أوسالدين النصيحة، الدين النصيحة، الدين النصيحة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1326  
´مکارم اخلاق (اچھے عمدہ اخلاق) کی ترغیب کا بیان`
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین (دین اسلام) وعظ و نصیحت کا نام ہے۔ تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا۔ ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! یہ نصیحت کا حق کس کے لیے ہے؟ فرمایا اللہ کے لیے اس کی کتاب کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور مسلمانوں کے آئمہ کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے۔ (مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1326»
تخریج:
«أخرجه مسلم، الإيمان، باب بيان أن الدين النصيحة، حديث:55.»
تشریح:
1. اللہ کے لیے خیر خواہی کے معنی یہ ہیں کہ عقیدہ صحیح ہو کہ اس کے سوا اور کوئی مستحق عبادت نہیں ہے‘ نہ کوئی اس کے علاوہ معبود و مالک ہی ہے۔
اور اس کی عبادت میں بھی اخلاص ہو۔
2. اس کی کتاب کے لیے خیرخواہی سے مراد یہ ہے کہ اس کتاب کی تصدیق کی جائے اور اس میں جو تعلیم ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
3. اس کے رسول کی خیر خواہی یہ ہے کہ آپ کی رسالت و نبوت کو بصدق قلب تسلیم کیا جائے اور آپ کے حکم کی بلا چون و چرا تعمیل کی جائے اور جس کام سے آپ نے روکا ہو اس سے رکا جائے۔
4. ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق کے معاملے میں ان کی بات مانی جائے اور تھوڑی بہت سختی کی بنا پر ان کے خلاف بغاوت اور خروج نہ کیا جائے۔
5. عام مسلمانوں کی خیر خواہی سے مراد یہ ہے کہ اچھے کاموں کی طرف ان کی راہنمائی کی جائے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابورقیہ ہے۔
نام تمیم بن اوس بن خارجہ داری ہے۔
۹ہجری میں اسلام قبول کیا۔
بیت المقدس میں سکونت اختیار کی۔
جساسہ کی اطلاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک انھوں نے پہنچائی تھی۔
ابن سیرین کا قول ہے کہ انھوں نے سارا قرآن حفظ کیا اور ایک رات میں سارا قرآن تلاوت کر لیتے تھے۔
اور ابونعیم کا قول ہے کہ تمیم وہ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے مساجد میں چراغ روشن کیا تھا۔
۴۰ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1326   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4944  
´نصیحت و خیر خواہی کا بیان۔`
تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً، دین خیر خواہی کا نام ہے لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن کے لیے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مومنوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے یا کہا مسلمانوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4944]
فوائد ومسائل:
اللہ کے لیے نصیحت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی عبودیت میں سرشار رہے۔
اس کی توحید کا اقرار و اظہار کرے اور شرک سے بیزار اور دور رہے۔
رسول کے لیے نصیحت یہ ہے کہ اس کی رسالت کا اقرار و اظہار اور بے میل کی اطاعت کرے، بدعات سے بیزار اور دور رہے۔
کتاب اللہ کو اپنا دستورِ زندگی بنائے اور تمام مسائل اس کی روشنی میں سر انجام دینے کے لیے کو شاں رہے۔
حکام ِ وقت کے لیے نصیحت یہ ہے کہ خیر و خوبی کے کاموں میں ان کی اطاعت کرے اور ان کا معاون بنے۔
لوگوں کے اندر بلا وجہ ان کی مخالفت کے جذبات نہ اُبھارے اور عام مسلمانوں میں حسبِ مراتب دین ع دُنیا کے معاملات میں بھلائی سے پیش آئے یہی ان کے لیے نصیحت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4944   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 196  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
النَّصِيحَةُ:
نصيحة کا لفظ انتہائی جامع اور پرمغز ہے،
جس میں ہر قسم کی بھلائیاں داخل ہیں،
اس لیے جس طرح الحج عرفہ کہا گیا ہے،
کہ عرفہ میں وقوف کے بغیر حج نہیں ہو سکتا،
اسی طرح دین خیرخواہی اور ہمدردی سے عبارت ہے،
اس کے بغیر دین کالعدم ہے۔
بعض حضرات نے اس کو "نَصَحَ الرَّجُلُ ثَوْبَهُ" (آدمی نے اپنے کپڑے سیے)
کے محاورہ سے ماخوذ مانا ہے،
اس لیے نصيحة اس کام کا نام ہے جس سے دوسروں کے عیوب و نقائص دور ہوتے ہیں،
ان کے معاملات میں اصلاح اور درستگی پیدا ہوتی ہے۔
بعض نے اس کو "نَصَحْتُ العسَّل" میں نے شہد کو موم سے پاک صاف کیا سے ماخوذ مانا ہے،
اس میں خلوص و صفائی کا معنی ہے،
تو نصیحت کا معنی ہو گا خلوص کے ساتھ دوسروں کے معاملات کو سنوارنا اور ان کی اصلاح کرنا۔
فوائد ومسائل:
(الف)
اللہ تعالیٰ کے لیے نصیحت کا معنی ہے:
اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی تمام صفات کو بلا تشبیہ وتمثیل ماننا۔
اس کے احکام کی پیروی کرنا،
اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانا،
اس کی شان کے منافی کوئی چیز اس کی طرف منسوب نہ کرنا اور اس کی عبادت وبندگی کی دوسروں کو دعوت دینا،
اور یہ تمام کام انتہائی خلوص اور سچائی کے ساتھ سر انجام دینا۔
(ب)
اللہ کی کتاب کے لیے نصیحت یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کا کلام مانا جائے جو بے مثل ہے،
اور اللہ کی صفت ہے۔
اس کی تعظیم وتکریم کرنا،
اس کی تلاوت کرتا،
اس پر تدبر وتفکر کرنا اور اس کے احکام وہدایا ت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا،
اس کی نشر واشاعت اور تبلیغ کے لیے کوشاں رہنا،
اس کے خلاف شکوک وشبہات پھیلانے والوں کے اعتراضات کا رد کرنا۔
(ج)
اس کے رسول کے لیے نصیحت یہ ہے کہ اس کی رسالت پر ایمان،
اس سے محبت وعقیدت رکھنا اور ا سکی اتباع واطاعت کرنا ور اس کی حمایت ودفاع کےلیے کمر بستہ رہنا،
آپ (ﷺ) کے دوستوں سے محبت اور آپ کے دشمنوں سے عداوت رکھنا اور آپ کےلائے ہوئے دین کی نشر واشاعت اورتبلیغ کرنا۔
(د)
مسلمان حکمرانوں کے لیے نصیحت یہ ہے کہ نیک اور صحیح کاموں میں ان کی اطاعت کرنا،
اس سے توقیر وتعظیم کے ساتھ پیش آنا۔
بلا وجہ ان کی مخالفت نہ کرنا اور ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرنا،
اگر اس سے مراد ائمہ دین ہوں تو اس سے مراد ہوگا ان کی تکریم واحترام کرنا،
ان کے بارے میں اچھے جذبات رکھنا،
قرآن وسنت کے مطابق،
اس کی ہدایات وتعلیمات پر عمل پیرا ہونا،
ان کے علم وفضل سے فائدہ اٹھانا،
لیکن اس سے ان کی تقلید کرنا مراد نہیں ہے،
کیونکہ "لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ" کا قانون واصول صرف ائمہ سیاست کےلیے نہیں ہے،
ائمہ دین بھی اس میں داخل ہیں اور کسی امام کے بارے میں بھی معصوم ہونے کا دعوی نہیں کیا جاسکتا،
اس لیے ان کی ہر بات آنکھیں بند کرکے تسلیم نہیں کی جاسکتی،
یہ مقام ومرتبہ تو صرف پیغمبر کو حاصل ہے کہ اس کی ہر بات ماننا اور اس کے مطابق عمل کرنا،
ایمان کی جان ہے،
اس کے بغیر انسان،
ایماندار نہیں ہوسکتا۔
(س)
مسلمان عوام کی نصیحت یہ ہے کہ ان کے ساتھ خیر خواہی وہمدردی سے پیش آیاجائے،
ان کے جان ومال اور عزت وناموس کی حفاظت کی جائے،
ان کے دکھ سکھ میں ان کے شریک ہوا جائے،
دل میں ان کے خلاف حسد وکینہ اور نفرت وغصہ نہ رکھا جائے،
ان کے عیوب کو چھپایا جائے،
انہیں دین ودنیا کی بھلائی کی باتوں کی تلقین کی جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 196   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.