الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نماز کے احکام و مسائل
The Book of Prayers
10. باب إِثْبَاتِ التَّكْبِيرِ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ فِي الصَّلاَةِ إِلاَّ رَفْعَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَيَقُولُ فِيهِ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ:
10. باب: نماز میں ہر دفعہ اٹھتے اور جھکتے وقت تکبیر پڑھنے کا ثبوت سوائے رکوع سے اٹھتے وقت، اس وقت «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہے۔
حدیث نمبر: 873
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، وخلف بن هشام جميعا، عن حماد ، قال يحيى: اخبرنا حماد بن زيد، عن غيلان ، عن مطرف ، قال: صليت انا وعمران بن حصين خلف علي بن ابي طالب، فكان إذا سجد كبر، وإذا رفع راسه كبر، وإذا نهض من الركعتين كبر، فلما انصرفنا من الصلاة، قال: اخذ عمران بيدي، ثم قال: لقد صلى بنا هذا، صلاة محمد صلى الله عليه وسلم، او قال: قد ذكرني هذا، صلاة محمد صلى الله عليه وسلم ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَخَلَفُ بْنُ هِشَامٍ جميعا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: صَلَّيْتُ أَنَا وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَكَانَ إِذَا سَجَدَ كَبَّرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ كَبَّرَ، وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ، فَلَمَّا انْصَرَفْنَا مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ: أَخَذَ عِمْرَانُ بِيَدِي، ثُمَّ قَالَ: لَقَدْ صَلَّى بِنَا هَذَا، صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوَ قَالَ: قَدْ ذَكَّرَنِي هَذَا، صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
۔ مطرف سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ جب وہ سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے اور جب اپنا سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے اور جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے، جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو عمران رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا، پھر کہا: انہوں نے ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھائی ہے یا کہا: انہوں نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی ہے۔
حضرت مطرف بیان کرتے ہیں کہ میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتدا میں نماز پڑھی، جب وہ سجدہ کرتے اللہ اکبر کہتے اور جب اپنا سر اٹھاتے اللہ اکبر کہتے،اور جب دوسری رکعت سے کھڑے ہوتے تکبیر کہتے، جب ہم نماز سے فارغ ہوتے تو عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا، انہوں نے ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم والی نماز پڑھائی ہے یا یہ کہا انہوں نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم والی نماز یاد کرا دی ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 393
   صحيح البخاري784عمران بن الحصينيكبر كلما رفع وكلما وضع
   صحيح البخاري786عمران بن الحصينإذا سجد كبر وإذا رفع رأسه كبر وإذا نهض من الركعتين كبر
   صحيح البخاري826عمران بن الحصينإذا سجد كبر وإذا رفع كبر وإذا نهض من الركعتين كبر
   صحيح مسلم873عمران بن الحصينسجد كبر وإذا رفع رأسه كبر وإذا نهض من الركعتين كبر
   سنن أبي داود835عمران بن الحصينإذا سجد كبر وإذا ركع كبر وإذا نهض من الركعتين كبر
   سنن النسائى الصغرى1181عمران بن الحصينيكبر في كل خفض ورفع يتم التكبير
   سنن النسائى الصغرى1083عمران بن الحصينإذا سجد كبر وإذا رفع رأسه من السجود كبر وإذا نهض من الركعتين كبر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 835  
´تکبیر پوری کہنے کا بیان۔`
مطرف کہتے ہیں میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو جب وہ سجدہ کرتے تو «الله اكبر» کہتے، جب رکوع کرتے تو «الله اكبر» کہتے اور جب دو رکعت پڑھ کر تیسری کے لیے اٹھتے تو «الله اكبر» کہتے، جب ہم فارغ ہوئے تو عمران رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: ابھی انہوں نے ایسی نماز پڑھی ہے (راوی کو شک ہے) یا ابھی ہمیں ایسی نماز پڑھائی ہے، جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہوتی تھی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 835]
835۔ اردو حاشیہ:
دراصل لوگوں نے تکبیرات انتقال کہنی چھوڑ دی تھیں، تو حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے اسی سنت کی طرف اشارہ فرمایا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 835   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1083  
´سجدہ کرنے کے لیے اللہ اکبر کہنے کا بیان۔`
مطرف کہتے ہیں کہ میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما دونوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، جب وہ سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو اللہ اکبر کہتے، جب وہ نماز پڑھ چکے تو عمران رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: انہوں نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1083]
1083۔ اردو حاشیہ:
➊ پیچھے گزر چکا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم ہی کے دور میں بعض ائمہ نے تکبیر کہنے میں سستی شروع کر دی تھی۔ یا تو کہتے ہی نہیں تھے یا بہت آہستہ بلکہ زیر لب کتے تھے۔ یہ نزاکت تھی، کوئی عذر نہ تھا، لہٰذا ایسا کرنا مذموم تھا۔ ہاں عذر ہو تو الگ بات ہے، جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی تکبیر کی آواز پچھلی صفوں کو سنائی نہ دیتی تھی۔
➋ حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ وہ کس قدر سنت نبوی کے محافظ اور عامل تھے کہ جب اکثر لوگ تکبیرات انتقال چھوڑ چکے تھے بلکہ بعض ان کی مشروعیت کا انکار بھی کرتے تھے، ایسے وقت میں انہوں نے ان کا احیا (انہیں زندہ) کیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1083   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 873  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تکبیر تحریمہ واجب فرض ہے اور باقی تکبیریں بھی ان کے نزدیک واجب (فرض)
ہیں اور باقی کے نزدیک سنت،
اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہما کے نزدیک سب تکبرات سنت ہیں صحیح احادیث کا تقاضا تو یہی ہے کہ سب تکبرات کو واجب کہا جائے۔
(2)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث 28 سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سَمِعَ اللہُ لِمَن حَمِدَہ کے بعد قومہ میں دعا پڑھتے تھے اور اس کو منفرداً (تنہا)
نماز پڑھنے پر محمول کرنا،
تاویل بعید ہے۔
اس لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف صحیح ہے کہ امام ہو یا منفرد یا مقتدی،
تسمیع کے بعد دعائیہ کلمات پڑھے گا یہ موقف درست نہیں ہے کہ امام صرف سمع اللہ کہے گا۔
اور مقتدی صرف دعائیہ کلمات کہے گا۔
اور اس کے لیے:
(إِذَا قَالَ الإِمَامُ:
سَمِعَ اللهُ لِمَن حَمِدَه،
فَقُولُوا:
اللهم رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ)

سے استدلال درست نہیں ہے۔
اس کا مقصد تو یہ ہے کہ دعائیہ کلمات تسمع کے بعد کہے جائیں گے،
استدلال کی ضرورت تو وہاں ہوتی ہے جہاں صراحت نہ ہو،
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں صراحت ہے یہ تو ایسے ہی ہے کوئی کہے:
(إِذَا قَالَ الْإِمَامُ (غَيْرِالْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ فَقُولُوا:
آمِينَ)

کہ امام آمین نہیں کہے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 873   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.