الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نماز کے احکام و مسائل
The Book of Prayers
11. باب وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ يُحْسِنِ الْفَاتِحَةَ وَلاَ أَمْكَنَهُ تَعَلُّمُهَا قَرَأَ مَا تَيَسَّرَ لَهُ مِنْ غَيْرِهَا:
11. باب: ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا وجوب، اور جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھ سکتا ہو، اس کے لیے قرآن میں اس کے علاوہ جو آسان ہو اس کوپڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 875
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني ابو الطاهر ، حدثنا ابن وهب ، عن يونس . ح وحدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني محمود بن الربيع ، عن عبادة بن الصامت ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا صلاة لمن لم يقترئ بام القرآن ".حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْتَرِئْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ ".
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے محمود بن ربیع نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے ام القریٰ (فاتحہ) نہیں پڑھی۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ام القرآن نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 394
   صحيح البخاري756عبادة بن الصامتلا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
   صحيح مسلم874عبادة بن الصامتلا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
   صحيح مسلم875عبادة بن الصامتلا صلاة لمن لم يقترئ بأم القرآن
   صحيح مسلم876عبادة بن الصامتلا صلاة لمن لم يقرأ بأم القرآن
   جامع الترمذي311عبادة بن الصامتإني أراكم تقرءون وراء إمامكم قال قلنا يا رسول الله إي والله قال فلا تفعلوا إلا بأم القرآن فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها
   جامع الترمذي247عبادة بن الصامتلا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
   سنن أبي داود822عبادة بن الصامتلا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب فصاعدا
   سنن أبي داود823عبادة بن الصامتتقرءون خلف إمامكم قلنا نعم هذا يا رسول الله قال لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها
   سنن النسائى الصغرى921عبادة بن الصامتلا يقرأن أحد منكم إذا جهرت بالقراءة إلا بأم القرآن
   سنن النسائى الصغرى911عبادة بن الصامتلا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
   سنن النسائى الصغرى912عبادة بن الصامتلا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب فصاعدا
   سنن ابن ماجه837عبادة بن الصامتلا صلاة لمن لم يقرأ فيها بفاتحة الكتاب
   بلوغ المرام218عبادة بن الصامتلا صلاة لمن لم يقرا بام القرآن
   المعجم الصغير للطبراني205عبادة بن الصامت لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
   المعجم الصغير للطبراني266عبادة بن الصامت إذا جهر الإمام بالقرآن فلا يقرأ إلا بأم القرآن ، فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بأم القرآن
   مسندالحميدي390عبادة بن الصامتلا صلاة لمن لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 218  
´سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں`
«. . . لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب .»
۔۔۔جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 756]

لغوی تشریح:
«بِأُمِّ الْقُرْآنِ» ام القرآن سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ یہ حدیث سورہ فاتحہ کے (نماز میں) پڑھنے کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے، اس لیے کہ لا نافیہ جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے اور یہ اس کے حقیقی معنی ہیں۔ یہ صفات کی نفی کے لئے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو۔ اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ نماز کے شرعا معنی تو یہ ہیں کہ وہ اقوال اور افعال کا مجموعہ ہے، لہٰذا بعض ی کل کی نف سے اس کی نفی ہو گی۔ اگر بالفرض ذات کی نفی میں دشواری پیش آئے تو پھر حقیقت کے قریب والی صفت پر محمول کیا جائے گا، مثلاً: اس کی صحت کی نفی اور اس کے کافی ہونے کی نفی۔ اس معنی کی تائید ابن حبان اور دارقطنی کی حدیث میں وارد الفاظ «لَا تُجْزِيءُ صَلَاةٌ» سے ہوتی ہے۔ اس کے معنی ہوئے کہ نماز کافی ہو گی نہ صحیح، چنانچہ جب اس حدیث سے بغیر فاتحہ کے نماز کی نفی اور اس کا صحیح نہ ہونا معلوم ہو گیا تو پھر ثابت ہوا کہ سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے اور اس میں سب شامل ہیں، خواہ امام ہو یا مقتدی یا اکیلا نماز پڑھنے والا۔ سورہ فاتحہ کا امام کے پیچھے پڑھنا واجب ہے، اس پر امام احمد اور ابوداود رحمہما اللہ کی روایت جسے مصنف نے بیان کیا ہے نہایت صریح اور واضح دلیل ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث کھلا اور واضح ثبوت ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھے بغیر کسی کی بھی نماز نہیں ہوتی، خواہ امام ہو یا مقتدی یا کوئی اکیلا شخص۔ صحیح ترین مرفوع احادیث کی روشنی میں یہی مذہب حق اور مبنی بر صداقت ہے۔ شوافع اہل حدیث اور ایل ظاہر اسی طرف گئے ہیں کہ ہر نمازی کے لئے ہر نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے جمہور علماء کا یہی مسلک ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں ہر ایک کے لیے اس کا پڑھنا واجب ہے۔ اس میں امام اور مقتدی کا کوئی فرق نہیں اور نہ جہری اور سری نماز ہی کا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے بھی سورۂ فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور لابدی امر ہے۔ [صحيح مسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة۔۔۔، حديث: 395، 396]
ابوداود، ترمذی اور نسائی وغیرہ میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا: کیا تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورہ فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔ اور دوسری احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز قطعاً نہیں ہوتی۔
➋ مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی نے امام الکلام اور التعلیق الممجد میں لکھا ہے: کسی بھی صحیح حدیث سے فاتحہ خلف الامام کی ممانعت ثابت نہیں اور اس سلسلے میں جو نقل کیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ سری نمازوں میں اور جہری کے سکتات میں مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئیے۔ محدثین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔ ان کے علاوہ متقدمین ومتاخرین علمائے احناف کی ایک جماعت دلائل کی بنا پر فاتحہ خلف الامام کی قائل رہی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز رحمہما اللہ اسی کے قائل تھے حتی کہ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی سری نمازوں کے علاوہ جہری کے سکتات میں فاتحہ خلف الامام کو جائز قرار دیا ہے جس کی با حوالہ تفصیل مولانا ارشاد الحق اثری رحمہ اللہ کی کتاب توضیح الکلام کی جلد اول میں دیکھی جاسکتی ہے۔

راویٔ حدیث: (حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ) عبادہ کی عین پر ضمہ اور با مخفف ہے۔ انصار کے قبیلہ خزرج کے فرد تھے۔ سرداران انصار میں نمایاں شخصیت کے حامل تھے۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شریک تھے۔ غزوہ بدر کے ساتھ دوسرے معرکوں میں بھی شریک ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو شام کی طرف قاضی اور معلم بنا کر بھیجا۔ پہلے حمص میں قیام پذیر ہوئے بعد ازاں فلسطین کی طرف منتقل ہو گئے اور وہیں رملہ کے مقام پر وفات پائی اور بقول بعض 34 ہجری میں 72 برس کی عمر پاکر بیت المقدس میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 218   
  علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 756  
´سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں`
«. . . لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب .»
۔۔۔جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 756]

تفقہ
اب یہ حدیث شریف بعمومہ امام، مقتدی اور منفرد، تینوں کو شامل ہے۔ اور اس کے عام ہونے پر لفظ «من» دال ہے جو کہ الفاظ عموم میں سے ہے اور جیسے یہ حدیث شریف ہر مصلیٰ کو عام ہے ویسے ہر نماز (فرض ہو خواہ نفل) کو بھی عام ہے اور اس عموم پر لفظ «لا صلوٰة» دلالت کرتا ہے او اس عام کو خاص کرنے کے لئے جو دلائل پیش کیے گئے ہیں وہ سب بےسروپا ہیں۔ اس لئے:
◈ امام خطابی نے لکھا ہے کہ:
«هذا عموم لا يجوز يخصيصه الا بدليل» [معام السنن: 177/1]
اس حدیث شریف کا حکم عام ہے اور اس سے کسی فرد کو خاص کرنا بغیر کسی دلیل کے جائز نہیں ہے۔

اور اسی طرح:
◈ امام المغرب ابن عبدالبر النمری (جن کی اگر علمی حیثیت معلوم کرنی ہو تو ان کے تلمیذ رشید فخر الاندلس ابن حزم کی تصانیف کی طرف رجوع کیجئے) وہ بھی اس مذکورہ حدیث شریف کے عموم کے قائل ہیں۔ چنانچہ اپنی مایہ ناز قابل فخر کتاب التمہید میں اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
«عام لا خصه شيء لان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يخص بقوله ذلك مصليا من مصل» [التمهيد: 442/4]
یہ حدیث عام ہے اور اس کو خاص کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے، کیونکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مذکور قول مبارک سے کسی نمازی کو خاص نہیں کیا ہے (تو آپ کی تخصیص کے بغیر یہ عام کیونکر خاص ہو سکتا ہے)

پھر اگر کوئی کہے کہ «لا صلوٰة» میں کلمہ «لا» سے مراد نفی کمال کی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہاں «لا» سے نفی کمال کی مراد لینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ یہ دو وجہ سے جائز نہیں ہے:
اولاً: کلمہ «لا» نفی جنس کے واسطے ہے اور یہ کلمہ ذات کی نفی کے لیے موضوع ہوا ہے نہ کہ نفی کمال کے لیے۔ پس معنیٰ حقیقی سے بلاوجہ اعراض کر کے نفی کمال مراد لینا ہرگز جائز نہیں اور اگر فرض کیا جائے کہ انتقاء ذات صلوٰۃ غیر ممکن ہے تو اس تقدیر پر بھی صحت کی طرف سے رجوع ہو گا نہ کہ کمال کی طرف۔ کیونکہ نفی صحت اور نفی کمال اگرچہ دونوں مجازی معنیٰ ہیں لیکن نفی صحت کی «اقرب الى الحقيقة» ہے اور بر تقدیر عدم استقامت معنی حقیقی کے «اقرب المجاز» میں مراد لینا بالاجماع اولیٰ ہے۔ (یہ قاعدہ ہے کہ جب کسی عبارت سے دو مجازی مفہوم نکلتے ہوں تو جو مفہوم حقیقت کے قریب ہو گا، وہی قابل قبول ہو گا۔)

◈ علامہ آلوسی فرماتے ہیں:
«والحمل على المجاز الاقرب عند تعذر الحقيقة اولي بل واجب بالاجماع»
حقیقی معنی معتذر ہونے وقت مجاز اقرب پر محمول کرنا اولیٰ بلکہ واجب بالا جماع ہے۔ [تفسير روح المعاني]
ثانیاً: دوسری وجہ یہ ہے کہ دارقطنی، ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم کی بعض روایات میں لفظ «لا تجزئ» واقع ہوا ہے۔ پھر یہاں نفی کمال کی مراد لینا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ کیونکہ [الاحاديث يفسر بعضها بعضا]

◈ امام بیہقی کے جزء القراۃ میں مرفوعاً مروی ہے کہ:
«لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب خلف الامام»
جس نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی، اس کی نماز نہیں ہے۔ [جزء القراة: 56]
اور اس حدیث شریف کے متعلق امام بیہقی کا یہ فیصلہ ہے کہ:
«اسناده صحيح والزيادة التى فيه صحيحة مشهورة من اوجه كثيرة» [جزء القراة: 56]
اس حدیث کی اسناد صحیح ہے اور جو اس میں خلف الامام کی زیادتی ہے وہ بھی صحیح اور مشہور ہے (کیونکہ) بہت سی وجوہ سے مروی ہے۔

◈ طبرانی کی کتاب مسند الشامیین میں بایں الفاظ مبارکہ مروی ہے کہ:
«من صلى خلف الامام فليقرا بفاتحة الكتاب»
جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے اس کو سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے۔
↰ اور یہ حدیث بالکل صحیح اور قابل اعتبار ہے اور اس کا عکس حافظ ہیثمی کی کتاب مجمع الزوائد میں اس طرح ملتا ہے کہ:
«رجاله موثقون» اس حدیث کے راوی سب پختہ اور معتبر ہیں۔ [مجمع الزوائد للھیثمی: 111/2]
   اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 20   
  علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 823  
´امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھنا`
«. . . لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب فإنه لا صلاة لمن لم يقرا بها .»
سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو، کیونکہ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 823]

تفقہ:
یہ حدیث بھی صحیح ہے اور اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس کو ترمذی اور دارقطنی نے «حسن» [الاحسان فى تقريب صحيح ابن حبان 86/5] اور بیہقی نے «صحيح» [بيهقي فى السنن 164/2] اور حاکم نے «اسناده مستقيم» [حاكم فى المستدرك: 238/1] اور خطابی نے «اسناده جيد لا مطعن فيه» [معالم السنن: 177/1] اور ابن حجر نے «رجاله ثقات» [دراية لابن حجر:164/1] اور مولانا عبدالحیی لکھنوی رحمہ اللہ نے «صحيح قوي السند» [السعايه:303/2] کہا ہے۔

اعتراض:
اگر کوئی کہے کہ اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق واقع ہے اور وہ متکلم فیہ ہے۔
جواب: جواب اس کا یہ ہے کہ ابن اسحاق کے متعلق جتنی جرحیں نقل شدہ ہیں، وہ سب مرفوع ہیں اور حق یہ ہے کہ وہ بالکل ثقہ ہے اور ان کی توثیق کے متعلق علماء حنفیہ کی کتب کی طرف رجوع کیجئے مثلاً: ① فتح القدیر لابن الہمام، ② محلیٰ شرح المؤطا للشیخ سلام اللہ الدہلوی اور ③ سعایہ للمولانا عبدالحی اللکھنوی «شهد شاهد بن اهلها»

اعتراض:
اگر کوئی کہے کہ محمد بن اسحاق مدلس بھی ہے۔
جواب: اس کا جواب یہ ہو گا کہ یہ حدیث سنن دارقطنی اور بیہقی اور مسند احمد میں دوسری سند سے مروی ہے، جس میں ابن اسحاق نے اپنے استاذ مکحول سے سماع کی تصریح کی ہے اور کہا ہے کہ «حدثني مكحول» اور یہ قاعدہ ہے کہ جب مدلس راوی کسی حدیث کی سند میں ایک جگہ سماع کی تصریح کرتا ہے اور دوسری جگہ نہیں تو اس کی یہ دونوں حدیثیں «محمول على السماع» ہوں گی۔ [شرح المهذب للامام نووي] علاوہ بریں زید بن واقد وغیرہ نے بھی اس حدیث میں ابن اسحاق کی متابعت کی ہے۔ [التلخيص الحبير لابن الحجر۔ امام الكلام لعبد الحئي]

الحاصل: یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے صراحتاً معلوم ہوا ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا نہایت ضروری امر ہے، کیونکہ آپ نے خاص مقتدیوں کو خطاب کر کے اس کے پڑھنے کا حکم فرمایا اور اس کی وجہ بیان فرمائی کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
   اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 23   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 822  
´جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز کے حکم کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورت نہیں پڑھی ۱؎۔‏‏‏‏ سفیان کہتے ہیں: یہ اس شخص کے لیے ہے جو تنہا نماز پڑھے ۲؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 822]
822۔ اردو حاشیہ:
یہ حدیث صحیح ہے، مگر بعض روایات میں «فصاعدا» کا لفظ منقول ہے۔ اس لفظ کے لگانے کا فائدہ یہ ہے کہ کم از کم سورہ فاتحہ پڑھے یا اس سے کچھ زیادہ پڑھے، سورہ فاتحہ سے کم نہ پڑھے، یعنی سورہ فاتحہ کا پڑھنا بہرحال ضروری ہے۔ باقی رہا سفیان رحمہ اللہ کا بیان کہ یہ اکیلے کے لیے ہے، تو یہ ان کی رائے ہے اور اس مسئلے میں ان لوگوں کے درمیان اختلاف رہا ہے۔
«لا صلاة» میں لائے نفی جنس ہے، نفی کمال کا نہیں۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے کیا خوب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اس کے رکن ہونے پر دلالت کرتے ہیں، «لاصلوٰة الّا بفاتحة الكتاب» اور «لا تجزي صلوٰة رجل حتيٰ يقيم ظهره فى الرّكوع والسّجود» آدمی کی نماز جائز نہیں ہوتی جب تک کہ رکوع اور سجود میں اپنی کمر سیدھی نہ کر لے۔ جس عمل کو شارع علیہ السلام نے صلوٰۃ سے تعبیر فرمایا ہے اس میں تنبیہ بلیغ ہے کہ یہ نماز میں رکن ہے۔ [حجةالله البالغه 2/4]
اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ «لا» نہی ہے۔ اس معنی میں کہ «لا صلاة الّا بقراءة فاتحة الكتاب» یعنی فاتحہ کے بغیر نماز مت پڑھو جیسے کہ فرمایا: «لا صلوٰة بحضرة الطعام» کھانا تیار ہو تو نماز نہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر 560]
➌ خیال رہے کہ کچھ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ حدیث «لا صلوٰة» کے الفاظ سے سورہ فاتحہ کا فرض ہونا لازم آتا ہے اور یہ قرآن پر اضافہ ہے، یعنی قرآن مجید میں ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت ہو رہی ہو تو خاموشی اختیار کرو۔ اور حدیث میں ہے کہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں۔ یعنی سورہ فاتحہ کا پڑھنا لازم ہے، جب کہ (ان کے نزدیک) سنت سے قرآن پر اضافہ جائز نہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ خانہ ساز اصول ہے، اسے قرآن پر اضافے سے تعبیر کرنا ہی یکسر غلط اور حدیث کو مسترد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اسی من گھڑت اصول کی بابت امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس طرح کی بات کرنا ایک فاسد خیال ہے، جس کا نتیجہ بہت سی پاکیزہ سنتوں کے ترک کی صورت میں نکلتا ہے اور اس قاعدے کی کوئی واضح دلیل اور حجت نہیں ہے۔ کتنے ہی مقام ہیں کہ شارع علیہ السلام نے فرمایا ہے: «لا يجزى كذا . لا يقبل كذا . لا يصح كذا» اور کچھ لوگ اس کے مقابل کہتے ہیں کہ: «يجزئ»، «يقبل» اور «يصح» یہی وجہ ہے کہ سلف (صحابہ کرام) نے ایسے اہل الرای سے بچنے کو کہا ہے۔ دیکھیے: [نيل الاوطار، باب وجوب قراءة الفاتحة]

«فصاعدا» یعنی کچھ مزید ظاہر الفاظ کا تقاضا ہے کہ سورة فاتحہ کے علاوہ مذید قراءت بھی واجب ہو لیکن ایسا نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: «فِي كُلِّ صَلَاةٍ يُقْرَأُ فَمَا أَسْمَعَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْمَعْنَاكُمْ وَمَا أَخْفَى عَنَّا أَخْفَيْنَا عَنْكُمْ، وَإِنْ لَمْ تَزِدْ عَلَى أُمِّ الْقُرْآنِ أَجْزَأَتْ، وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ» [صحيح بخاري حديث: 772]
ہر نماز میں قرأت کی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہمیں سنوایا ہم تمہیں سناتے ہیں اور جس میں وہ ہم سے خامو ش رہے ہم بھی تم سے خامو ش رہتے ہیں۔ اگر تم سورۃ فاتحہ سے مزید نہ پڑھو تو کافی ہے، اگر مزید پڑھو تو بہتر ہے۔ دراصل لفظ «فصاعدا» میں اس شبہے کا ازالہ ہے کہ کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ صرف اور صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی ہے اور کچھ نہیں پڑھنا، تو فرمایا کہ سورہ فاتحہ کے ساتھ مزید قرأت بھی ہونی چاہیے، الا یہ کہ انسان مقتدی ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 822   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 823  
´جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز کے حکم کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز فجر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ نے قرآت شروع کی تو وہ آپ پر دشوار ہو گئی، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟، ہم نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں تو ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو، کیونکہ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 823]
823۔ اردو حاشیہ:
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے، جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔ اور خطابی کہتے ہیں: «جيد لاطعن فيه» یعنی حدیث اچھی ہے اس میں کوئی عیب نہیں [عن المعبود]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں ایک علت ہے کہ اس کو ابن اسحاق نے مکحول سے بصیغہ «عن» روایت کیا ہے اور وہ مدلس ہے۔ اور مکحول سے اپنے سماع کی صراحت بھی نہیں کی ہے، ایسی صورت میں حدیث ناقابل حجت ہو جاتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ابراہیم بن سعد سے روایت کیا ہے اور اس میں مکحول سے سماع کی صراحت موجود ہے، اس طرح یہ حدیث موصول اور صحیح ہو جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب القرأت میں اسے بیان کیا ہے اور اسے صحیح لکھا ہے۔ ابن اسحاق کی توثیق و ثنا بیان کی ہے اور اس حدیث سے حجت لی ہے۔ نیز ابن اسحاق کے علاوہ ایک دوسری سند سے بھی بیان کی ہے اور یہ صحیح ہے۔ [تهذيب سنن ابي داؤد لا بن القيم وعون المعبود]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 823   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 911  
´نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب و فرضیت کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 911]
911 ۔ اردو حاشیہ: حدیث کے الفاظ عام ہیں جس میں اکیلا، امام اور مقتدی سب شامل ہیں۔ اسی طرح لفظ صلاۃ بھی عام ہے۔ فرض نماز ہو یا نفل، انفرادی ہو یا اجتماعی، سری ہو یا جہری۔ اور یہی مفہوم صحیح ہے۔ احناف ا ور مالکیوں کے نزدیک مقتدی اس سے مستثنیٰ ہے۔ مالکیہ کے نزدیک صرف جہری نماز میں استثنا ہے۔ مالکیہ کی دلیل قرآن کی آیت ہے: «وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ» [الأعراف: 7: 204]
جب قرآن مجید پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو۔ انصات کی بحث حدیث نمبر 910 میں گزر چکی ہے۔ احناف کا استدلال اس دوسری روایت سے بھی ہے: «من كان له إمامٌ فقراءةُ الإمامِ له قراءةٌ» [سنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، حدیث: 850]
مگر یہ حدیث ائمہ حدیث کے نزدیک بالاتفاق منقطع ہے۔ سوائے ضعیف راویوں کے کسی نے اسے متصل سند کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے، لہٰذا یہ روایت غیر معتبر ہے، نیز یہاں قراء ت سے مراد جہر ہو سکتا ہے، یعنی امام کے ہوتے ہوئے جہراً نہ پڑھا جائے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ جس آدمی کا امام ہو، یعنی وہ امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو اسے اپنی قرأت کرنی چاہیے کیونکہ امام کی قرأت صرف اپنے لیے ہوتی ہے۔ ان دو تاویلوں سے یہ روایت دوسری صحیح روایات کے موافق ہو جائے گی، ورنہ محدثین کا فیصلہ اوپر گزر چکا ہے۔ یا اس روایت کو فاتحہ سے مابعد قرأت پر محمول کیا جائے، یعنی فاتحہ کے بعد مقتدی نہ پڑھے۔ اس طرح تمام روایات پر عمل ممکن ہو گا۔ ضعیف روایات کی بنا پر صحیح روایات کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ویسے بھی مقتدی اپنی نماز کے تمام ارکان خود ادا کرتا ہے، امام اس کی طرف سے ایک رکن تو ایک طرف رہا، کوئی مستحب بھی ادا نہیں کرتا حتیٰ کہ دعائے استفتاح، تسبیحات، رکوع و سجود، تمام اذکار اور اد اور تکبیرات تک خود پڑھتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ قرأت جو نماز کا رکن اعظم ہے، مقتدی چھوڑ دے کہ امام کی قرأت مجھے کفایت کر جائے گی۔ اگر قرأت امام خصوصاً سری نمازوں میں، مقتدی کی طرف سے کافی ہے تو باقی چیزیں کیوں کافی نہیں؟ یہ بات انتہائی قابل غور ہے، نیز احناف کے نزدیک قرأت نماز کا لازمی رکن ہے تو رکن کے بغیر نماز کیسے ادا ہو جائے گی؟ جب کہ ہر ایک کی نماز کی قبولیت الگ الگ ہے۔ ہو سکتا ہے امام کی نماز قبول نہ ہو۔ (مثلاً: وہ سود خور ہے) مگر مقتدی کی ہو جائے۔ اس کے برعکس قرآن مجید میں ہے: «وَأَنْ لَيْسَ لِلإنْسَانِ إِلا مَا سَعَى» [النجم: 53: 39]
انسان کے کام وہی عمل آئے گا جو اس نے خود کیا۔ ایسے واضح دلائل کے مقابلے میں چند ایک ضعیف اور انتہائی کمزور روایات کو پیش کر کے امام کے پیچھے ہر قسم کی (سری اور جہری) نمازوں میں مقتدی کو سورۂ فاتحہ کی قرأت سے جبراً روک دینا یقیناًً حیرت انگیزجسارت ہے۔ جس پر احباب کو غور کرنا چاہیے۔ «لا صلاةَ» میں لا جنس کی نفی کے لیے ہے، یعنی اس سے ذات کی نفی مراد ہے، صفات کی نفی مراد نہیں جیسا کہ بعض لوگ اسے لائے نفی کمال، کہتے ہیں کیونکہ صفات کی نفی وہاں مراد ہوتی ہے جہاں ذات کی نفی مراد لینے سے کوئی قرینہ مانع ہو اور اس حدیث میں اس لا کو لائے نفی جنس بنانے میں کوئی قرینہ مانع نہیں بلکہ اس کی تائید اسماعیلی کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ «لا تجزئُ صلاةٌ لا يُقرأُ فيها بفاتحةِ الكتابِ» جس نماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ کفایت نہیں کرتی۔ یعنی وہ قبول نہیں ہوتی جیسا کہ دوسری روایت میں ہے: «لا تُقْبَلُ صلاةٌ لا يُقْرَأُ فيها بأمِّ القران» جس نماز میں میں ام القرآن، یعنی سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ (عنداللہ) مقبول نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 2؍313۔ 315، تحت حدیث: 756، وعمدة القاري: 6؍15۔ 17، تحت حدیث: 756]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 911   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 912  
´نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب و فرضیت کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ مزید نہ پڑھے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 912]
912 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز صحیح ہونے کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں: 1۔ صرف سورۂ فاتحہ پڑھنا۔ 2۔ سورۂ فاتحہ سے زائد بھی پڑھنا۔ گویا صرف فاتحہ فرض ہے، زائد قرأت فرض نہیں، اس کے بغیر بھی نماز ہو جائے گی۔ یہ محدثین کا مسلک ہے۔ احناف کے نزدیک فاتحہ پڑھنا واجب ہے ا ور فاتحہ کے بعد اور سورت پڑھنا فرض ہے، یعنی وہ فرض اور واجب میں فرق کرتے ہیں۔ احناف کے نزدیک فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز ناقص ہو گی جس کی تلافی سجدۂ سہو سے کی جائے گی جب کہ محدثین کے نزدیک سورۂ فاتحہ ہر ایک کے لیے ضروری ہے، مقتدی کی صرف فاتحہ والی نماز ہو گی کیونکہ اس کے لیے جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ سے زائد پڑھنا منع ہے اور فاتحہ سے زائد والی نماز امام اور منفرد کی ہو گی۔ دونوں نمازیں بالکل صحیح ہیں۔ معلوم ہوا کہ مقتدی کو امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی چاہیے تاکہ وہ اس حدیث پر عمل کر سکے۔
➋ بعض لوگوں نے اس حدیث کے غلط معنیٰ کیے ہیں کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ اور زائد نہیں پڑھتا۔ گویا فاتحہ کے بغیر بھی نماز نہیں اور فاتحہ سے زائد کے بغیر بھی نماز نہیں۔ دونوں فرض ہیں مگر یہ معنیٰ کرنا لغت عربیہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ اسی قسم کی ایک اور حدیث ہے جس سے معنیٰ مزید واضح ہو گا: «لا تُقطعُ يدُ السارقِ إلا في ربعِ دينارٍ فصاعدًا» [صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6789، وصحیح مسلم، الحدود، حدیث: 1684]
چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زائد کے بغیر نہیں کاٹا جائے گا۔ یعنی ہاتھ کاٹنے کے لیے چوتھائی دینار کی چوری کافی ہے۔ زائد ہو تب بھی کاٹیں گے نہ ہو تب بھی۔ اس طرح متعلقہ حدیث کے معنی ہیں کہ نماز کی صحت کے لیے سورت فاتحہ کی قرأت کافی ہے۔ زائد ہو تب بھی نماز ہو جائے گی، نہ ہو تب بھی۔ زائد سے اس وقت جب نمازی منفرد یا امام ہو اور صرف فاتحہ سے اس وقت جب نمازی مقتدی ہو۔
➌ سورۂ فاتحہ کی قرأت ہر رکعت میں ضروری ہے، نہ کہ ساری نماز میں ایک دفعہ۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئی الصلاۃ کو نماز سکھانے کے بعد کہا: تھا: «افعل ذلك في صلاتِك كلِّها» [صحيح البخاري، الأذان، حديث: 757]
یہ کام اپنی ساری نماز (ہر رکعت) میں کر۔ احناف نے بغیر کسی دلیل کے فرض نماز کی آخری دورکعات میں قرأت فاتحہ یا مطلق قرأت کو ضروری قرار نہیں دیا بلکہ کوئی نمازی حتیٰ کہ امام بھی آخری دورکعات میں (رباعی نماز میں) قرأت کے بجائے خاموش کھڑا رہے تو اس کی نماز احناف کے نزدیک قطعاً صحیح ہو گی۔ حیرانی کی بات ہے کہ بغیر کسی شرعی دلیل کے اتنا بڑا خطرہ مول لیا گیا!
نماز نہیں ہوتی۔ احناف معنیٰ کرتے ہیں کہ کامل نہیں ہوتی حالانکہ اگر یہ معنیٰ کریں تو لازم آئے گا کہ فاتحہ واجب بھی نہ ہو کیونکہ کمال کی نفی تو سنت کے ترک سے ہوتی ہے جب کہ فاتحہ پڑھنا احناف کے نزدیک واجب ہے، سوائے مقتدی کے کہتے ہیں: مطلق قرأت قرآن فرض ہے، فاتحہ واجب ہے۔ گر کوئی ا ور سورت پڑھ لے، فاتحہ نہ پڑھے تو نماز ہو جائے گی مگر سجدۂ سہو لازم ہو گا کیونکہ قرآن مجید میں تو آخری قعدہ اور تشہد کا بھی ذکر نہیں تو وہ فرض بھی نہ ہونا چاہیے، نیز یہ آیت کون سی نماز کی قرأت کے بارے میں اتری ہے؟ پھر یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ حدیث قرآن کی تفسیر ہے۔ اس کے ابہام کو دور کرتی ہے۔ اس کے اشکال کو واضح کرتی ہے۔ اگر اس قسم کے واضح الفاظ قرآن کی تفسیر نہیں بن سکتے تو حدیث کو تفسیر کہنے کا کیا فائدہ؟ غور فرمائیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 912   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 921  
´جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نمازیں پڑھائیں جن میں قرآت بلند آواز سے کی جاتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میں بآواز بلند قرآت کروں تو تم میں سے کوئی بھی سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 921]
921 ۔ اردو حاشیہ:
➊ بعض روایات میں ذکر ہے کہ وہ صبح کی نماز تھی۔ آپ پر قرأت ثقیل ہو گئی تو ٓپ نے نماز کے بعد فرمایا: شاید تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو۔ امام کے پیچھے سوائے فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ امام کے پیچھے جہری نماز میں سورۂ فاتحہ ضرور پڑھی جائے، البتہ اس سے زائد پڑھنا منع ہے۔ اور سری نماز میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ بھی پڑھا جا سکتا ہے اگرچہ ضروری نہیں۔
➋ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں جامع بات یہ ہے کہ پڑھنے کا حکم آیا ہے، منع ثابت نہیں۔ اگر کہیں نہی ہے تو وہ مطلق قرأت، یعنی فاتحہ سے زائد قرأت سے ہے، نہ کہ فاتحہ سے۔ اور اگر کسی میں ہر قرأت سے روکا گیا ہے تو وہ سنداً صحیح نہیں۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم مروی ہے۔ صحیح سند کے ساتھ فاتحہ سے ممانعت کسی صحابی سے منقول نہیں بلکہ چھوڑنے کی رخصت بھی نہیں آتی، سوائے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے۔ ان کا قول ہے کہ جو آدمی فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ (لیکن یہ قول صحیح احادیث کے خلاف ہے)۔ احناف کے علاوہ باقی مسالک امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل ہیں۔ احناف میں سے بھی امام احمد رحمہ اللہ سری نماز میں فاتحہ پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
➌ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے التخلیص میں اس پر سیرحاصل بحث کرتے ہوئے ائمہ أجلاء سے اس کی صحت نقل کی ہے اور اس کی تائید میں مزید طرق نقل کیے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [التلخیص الجبیر: 1؍421، رقم: 345]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 921   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث837  
´امام کے پیچھے قرات کا حکم۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 837]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے ثابت ہوا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنا نماز کا رکن ہے۔
جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

(2)
کوئی نماز نہیں کا مطلب ہے کہ فرض اور نفل نماز امام، مقتدی اور اکیلے کی نماز سب کا ایک ہی حکم ہے۔
یعنی سب کے لئے سورہ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے۔

(3)
بعض حضرات اس حدیث کو آیت مبارکہ ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾  (المزمل: 20)
 کے خلاف تصور کرتے ہیں۔
آیت کا ترجمہ یہ ہے۔
پڑھوقرآن میں سے جو آسان ہو حقیقت یہ ہے کہ آیت مبارکہ اس حدیث شریف سے متعارض نہیں ہے۔
جیسے کہ آیت کے ابتدائی حصے سے واضح ہوتا ہے۔
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سمیت رات کو کئی کئی گھنٹے تہجد پڑھتے تھے۔
اب اس حکم میں تخفیف کردی گئی ہے۔
اب چھ یا آٹھ گھنٹے نماز پڑھنا ضروری نہیں۔
بلکہ ہر شخص اپنی ہمت اور شوق کے مطابق کم یا زیادہ وقت تک تہجد پڑھ سکتا ہے۔
اس کا سورہ فاتحہ کے وجوب سے کوئی تعارض نہیں۔
آیت اور حدیث کو ملا کرمسئلہ واضح ہوجاتا ہے۔
سورہ فاتحہ لازماً پڑھو۔
اس کے بعد باقی قرآن میں سے جتنا آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لو۔
ویسے بھی سورہ فاتحہ اتنی مشکل نہیں کہ اسے آسانی سے پڑھی جانے والی قراءت کے حکم کے خلاف سمجھا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 837   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 247  
´سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔`
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 247]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورئہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے،
فرض ہو یا نفل ہو،
خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے ہو امام ہو یا مقتدی،
ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہو گی،
اس لیے کہ لا نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے،
یہ صفات کی نفی کے معنی میں اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع نماز مخصوص اقوال اور افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے،
لہذا بعض یا کل کی نفی سے اس کی نفی ہو جائے گی اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہو سکتی تو وہ معنی مراد لیاجائے گا جو ذات سے قریب تر ہو اور وہ صحت ہے نہ کہ کمال اس لیے کہ صحت اور کمال دونوں مجاز میں سے ہیں،
صحت ذات سے اقرب اور کمال ذات سے ابعد ہے اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہو گی جو ذات سے اقرب ہے،
نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلہ میں ذات سے ابعد ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 247   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.