سوانح حیات امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ
سوانح حیات​:​
نام ونسب:
ابوعبد الرحمن عبد اللہ بن مبارک بن واضح حنظلی، ترکی، مروزی، خوارزمی۔

ولادت:
آپ رحمہ للہ 118ھ میں، مرو میں پیدا ہوئے، اسی وجہ سے مروزی کہلائے۔ عباس بن مصعب تاریخ مرؤ میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی والدہ خوارزم کی رہنے والی تھیں (اسی لیے خوارزمی کہلائے) اور آپ کے والد ترکی تھے اور ھمذان کے ایک تاجر کے غلام تھے جو بنی حنظلہ سے تھا۔ اس لیے آپ (ترکی اور حنظلی نسبت بھی رکھتے ہیں)۔ [سير أعلام النبلاء: 381/8]

طلب علم:
آپ نے بیس سال کی عمر میں علم حاصل کرنا شروع کیا اور حرمین، شام، مصر، عراق، جزیرہ اور خراسان وغیرہ ممالک کے سفر کیے۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 379، 381]

اساتذہ و شیوخ:
آپ نے وقت کے کبار علماء اور اساطین علم کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا، جن میں مشہور محدثین کرام درج ذیل ہیں:
سلیمان التیمی،
عاصم الاحول،
حمید الطويل،
ہشام بن عروہ،
جریری،
اسماعیل بن ابی خالد،
اعمش،
خالد حذاء،
یحیی بن سعید انصاری،
موسیٰ بن عقبہ،
امام اوزاعی،
امام ابوحنیفہ،
ابن جریج،
امام شعبہ،
امام مالک،
لیث بن سعد،
سفیان بن عینیہ،
حیوہ بن شریح مصری وغیرہ۔

حکایت:
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
سب سے پہلے استاد جن سے آپ ملے، وہ ربیع بن انس خراسانی رحمہ اللہ ہیں۔ (وہ اس وقت قید میں تھے)۔ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے حیلہ جوئی کی اور کسی طرح جیل تک پہنچ گئے اور ان سے تقریباً چالیس احادیث کا سماع کیا۔ [سير أعلام النبلاء: 379/8]
اس کے بعد آپ نے باقی تابعین عظام سے احادیث حاصل کیں اور بہت زیادہ سفر کیے، چکر کاٹے اور تا وفات طلب علم میں لگے ہی رہے۔ [تذكرة الحفاظ: 1/ 275]

حلقة تلامذہ:
امام عبد اللہ بن مبارک سے حدیث لینے والوں میں آپ سے کم عمر تشنگان علم تو تھے ہی،
➊ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
آپ کے شیوخ کی ایک تعداد نے بھی آپ سے حدیث لی ہے۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 380]
جیسا کہ امام ثوری، معمر وغیرہ ہیں،
➋ اس طرح آپ کے بہت سے اقران اور ہم پلہ لوگوں نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا، ابن وھب، بقیہ اور عبد الرحمٰن بن مہدی وغیرہ بھی، نیز آپ کے شاگردان میں امام ابوبکر بن ابی شیبہ، ان کے بھائی عثمان عبد اللہ بن مبارک محدثین میں لوگوں میں امیر المؤمنین کی مثل تھے۔
➌ اسماعیل بن عیاش رحمہ اللہ کہتے ہیں:
روئے زمین پر ابن مبارک اللہ جیسا کوئی نہیں دیکھا اور میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے خیر و بھلائی کی کوئی خصلت پیدا کی ہو، مگر اسے عبداللہ بن مبارک اللہ میں ضرور رکھا۔ [سير أعلام النبلاء: 384/8]

مقام و مرتبہ:
➍ عباس بن مصعب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
عبد اللہ (بن مبارک رحمہ اللہ) نے حدیث، فقہ، عربیت، لوگوں کے ایام (تاریخ) شجاعت و بسالت، سخاوت، تجارت اور فراق کے وقت محبت جیسے اوصاف کو جمع کیا۔ [سير أعلام النبلاء: 383/8]
➎ امام یحی بن آدم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
جب میں دقیق مسائل تلاش کرتا اور انہیں ابن مبارک رحمہ اللہ کی کتابوں میں نہ پاتا تو مایوس ہو جاتا۔ [سير أعلام النبلاء: 383/8]
➏ امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
چار آدمیوں جیسا میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا، ثوری سے بڑھ کر حافظ حدیث، شعبہ سے زیادہ زاہدانہ طرز زیست والا، مالک سے بڑھ کر عقل مند اور ابن مبارک سے زیادہ امت کا خیر خواہ کوئی نہیں دیکھا۔ [سير أعلام النبلاء: 388/8]
➐ ابواسحاق فزاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
ابن مبارک اللہ تمام مسلمانوں کے امام ہیں۔
➑ عمار بن حسن جمال ابن مبارک ارحمہ اللہ کی مدح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«اذا ســار عبـد الـلـــه مــن مــرو ليلة
فقد سار منها نورها وجمالها
اذا ذكر الأحبـار فـي كــل بـــــلــدة
فهم أنجـم فيهـا وأنت هلالها»
[سير أعلام النبلاء: 391/8]
جب عبد اللہ مرو سے ایک رات چلے جاتے ہیں تو اس مرو کا اجالا اور رعنائیاں بھی ساتھ چلی جاتی ہیں، جب ہر شہر میں علماء کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ ستارے ہوتے ہیں اور آپ ان میں چاند ہوتے ہیں۔
➒ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کی موجودگی میں ایک شخص نے کہا:
کہ عبد اللہ بن مبارک اللہ حافظ حدیث نہ تھے۔ امام یحیی بن معین فرمانے لگے:
عبداللہ اللہ بڑے سمجھ دار، پختہ علم والے، ثقہ اور صحیح حدیث کو جاننے والے تھے۔ ان کی وہ کتابیں جن سے وہ احادیث بیان کیا کرتے تھے، بیس ہزار یا اکیس ہزار تھیں۔ [تاريخ بغداد: 10/ 164]
➓ اسود بن سالم کہتے ہیں:
«كان ابن المبارك اماما يقتدى به، كان من أثبت الناس فى السنة، اذا رأيت رجلا يغمز ابن المبارك فاتهمه على الاسلام» [تاريخ بغداد: 10/ 167]
عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ امام و مقتدی تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ سنت پر کار بند اور ثابت قدم رہنے والے تھے، جب تو ایسے آدمی کو دیکھے جو ابن مبارک کی تنقیص کرتا ہے تو اس کو اسلام پر متہم سمجھو (اس کا اسلام مشکوک ہے۔)
⓫ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میں نے چار ہزار شیوخ اور اساتذہ سے علم حاصل کیا اور ایک ہزار سے روایت کی، عباس بن مصعب کہتے ہیں کہ: میں نے ان کے اساتذہ کی تنتبع اور جستجو کی تو مجھے ان کے آٹھ سو شیوخ مل گئے۔ [سير أعلام النبلاء: 397/8]
⓬ حسن بن عیسٰی بن ماسرجس (ابن مبارک کے آزاد کردہ غلام) کہتے ہیں کہ:
فضل بن موسیٰ اور مخلد بن حسین (جیسے محدثین کی) جماعت جمع ہوئی اور کہنے لگے کہ آؤ، خیر و بھلائی کی خوبیاں جو ابن مبارک رحمہ اللہ میں پائی جاتی ہیں، انہیں شمار کرتے ہیں، تو وہ کہنے لگے علم، فقاہت، ادب، نحو، لغت، زہد، فصاحت، شعر، قیام اللیل، عبادت، حج، غزوہ، شجاعت، شہسواری، قوت، لایعنی چیزوں میں ترک گفتگو، انصاف اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ کم اختلاف۔ [سير أعلام النبلاء: 8 / 397، شرح صحيح مسلم: 1/ 12]

مستجاب الدعوات:
امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نیک، صالح اور ایسی برگزیدہ ہستیوں میں سے تھے کہ جن کی دعائیں بارگاہ الٰہی میں قبول و منظور ہوا کرتی تھیں۔
چنانچہ ابووھب کا بیان ہے کہ:
ابن مبارک رحمہ اللہ ایک نابینا شخص کے پاس سے گزرے، اس نے کہا: کہ آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ میری نظر لوٹا دے۔ انہوں نے اللہ سے دعا کی تو اس کی بصارت لوٹا دی گئی اور میں دیکھ رہا تھا۔ [ سير أعلام النبلاء: 395/8]

سند کی اہمیت:
➊ مسیب بن واضح کہتے ہیں کہ:
میں نے ابن مبارک رحمہ اللہ کو سنا، ان سے ایک آدمی نے پوچھا: کہ وہ کس سے حدیث لے؟ تو انہوں نے فرمایا: کبھی آدمی ثقہ آدمی سے ملتا ہے اور وہ غیر ثقہ سے بیان کر رہا ہوتا ہے اور بھی غیر ثقہ سے ملتا ہے اور وہ ثقہ سے بیان کر رہا ہوتا ہے، لیکن ہونا یہ چاہیے کہ ثقہ ثقہ سے روایت کرے۔ [سير أعلام النبلاء: 404/8]
➋ عبدان بن عثمان کہتے ہیں کہ:
میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا:
«الإسناد من الدين، ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء» [صحيح مسلم مع الشرح: 1/ 12]
سند دین میں سے ہے اور اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا۔
➌ عباس بن رزمہ کہتے ہیں کہ:
میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا:
«بيننا وبين القوم القوائم يعني الإسناد» [صحيح مسلم مع الشرح: 1/ 12]
ہمارے اور قوم کے درمیان سند ہے۔
➍ ابواسحاق ابراہیم بن عیسی طالقانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا: اے ابوعبد الرحمن! وہ حدیث جس میں آیا ہے کہ بےشک نیکی کے بعد نیکی میں سے ہے کہ تو اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے نماز پڑھے، اور اپنے روزے کے ساتھ ان دونوں کے لیے روزہ رکھے (اس کے بارے کیا خیال ہے؟) تو ابن مبارک نے فرمایا: اے ابواسحاق! یہ کس (راوی) سے ہے؟ میں نے کہا: کہ یہ شہاب بن خراش سے ہے، تو انہوں نے کہا: کہ وہ ثقہ ہے۔ وہ کس سے روایت کرتا ہے؟ میں نے کہا کہ: حجاج بن دینار سے، انہوں نے کہا کہ وہ بھی ثقہ ہے وہ کس سے روایت کرتا ہے؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ انہوں نے کہا کہ: اے ابواسحاق! حجاج بن دینار اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کئی صحرا ہیں، جن میں سواریوں کی گردنیں کٹ جائیں اور لیکن صدقے میں کوئی اختلاف نہ ہو۔ (صحیح مسلم مع الشرح: 1/ 12) کیوں کہ حجاج بن دینار تبع تابعی ہیں۔ ان کے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کم از کم دو واسطے ضرور ہیں، ایک تابعی کا اور دوسرا صحابی رضی اللہ عنہ کا۔ یعنی اس سند کا بہت زیادہ انقطاع ہے۔ لہٰذا یہ حدیث ضعیف ہے۔ لہٰذا نماز اور روزے میں نیابت نہیں ہے اور یہ کہ فرض روزہ ہو اور میت کی طرف سے اس کا ولی قضا دے۔ البتہ صدقہ میت کی طرف سے دیا جا سکتا ہے۔ [شرح صحيح مسلم: 1/ 12]
➎ علی بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا وہ لوگوں کے مجمع میں کہہ رہے تھے: عمرو بن ثابت کی حدیث کو چھوڑ دو کیوں کہ وہ سلف (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کو گالی دیا کرتا تھا۔ [صحيح مسلم مع الشرح: 12/1]
یعنی وہ بدعتی راوی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر دشنام طرازی کرنے والا، یا غالی رافضی ہوگا یا خارجی۔ دونوں بدعتی ہیں۔
پوچھا کہ: کس راوی سے حدیث لیں؟ فرمایا: جس نے اللہ کے لیے علم حاصل کیا اور اس کی سند کے معاملے میں سب سے سخت ہو۔ [تذكرة الحفاظ: 1/ 277]

جہاد فی سبیل اللہ:
عبد اللہ بن سنان کہتے ہیں کہ میں ابن مبارک اور معتمر بن سلیمان کے ساتھ طرطوس کے مقام پر تھا کہ لوگ چلائے، دشمن کی فوج، چنانچہ ابن مبارک رحمہ اللہ اور لوگ اس طرف نکل پڑے۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے صف آرٱ ہو گئے تو ایک آدمی نکلا اور دعوت مبارزت دی، اس کے مقابلے کے لیے ایک مسلمان آگے بڑھا، وہ رومی اس پر چڑھ دوڑا اور اسے قتل کر دیا، یہاں تک کہ اس نے چھ مسلمانوں کو شہید کر دیا اور پھر دونوں صفوں کے درمیان فاخرانہ چال چلنے لگا اور مقابلے کی دعوت دینے لگا، لیکن اس کے مقابلے میں کوئی مسلمان نکل نہیں رہا تھا۔ ابن مبارک رحمہ اللہ نے میری طرف دیکھا اور کہا: اے فلاں! اگر میں مارا گیا تو اس اس طرح کرنا، پھر اپنی سواری کو ایڑھ لگائی اور اس کافر کے مدمقابل آ کھڑے ہوئے، تھوڑی دیر اس کے ساتھ مقابلہ ہوا اور وہ کافر ڈھیر ہو گیا۔ ابن مبارک رحمہ اللہ نے اب کافروں کو دعوت مبارزت دی۔ اس پر آپ کے مقابلے میں ایک اور رومی کافر نکلا، انہوں نے اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا، یہاں تک کہ چھ کا فر مار گرائے اور پھر مقابلے کی دعوت دینے لگے، گویا کہ وہ آپ سے مقابلے کی تاب نہ لا سکے اور کوئی سامنے نہ آسکا، آپ نے اپنی سواری کو مارا اور دونوں صفوں کے درمیان دھتکار دیا، پھر غائب ہو گئے اور ہم کچھ نہ سمجھ پائے، اچانک اسی جگہ وہ مجھے مل گئے، جہاں پہلے تھے اور فرمایا: اگر تو نے میری زندگی میں اس معرکے کے متعلق کسی کو بیان کیا تو (انہوں نے کوئی بات ذکر کی)۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 408، 409]
حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے سن 170 یا 177ھ میں شہر طرسوس میں سیدنا محمد ابراہیم بن سکینہ کو جبکہ وہ ان کو وداع کرنے آئے تھے اور یہ جہاد کو جا رہے تھے، یہ اشعار لکھوا کر سیدنا فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کو بھجوائے۔
«يَا عَـابِـدَ الْحَرَمَيْنِ لَوْ أَبْصَرْتَنَا
لَعَلِمْتَ إِنَّكَ فِي الْعِبَادَةِ تَلْعَبُ
مَنْ كَانَ يَخْضِبُ خَدَّهُ بِدُمُوعِهِ
فَخُدُودُنَا بِدِمَـآئِنَا تَتَخَضَّبُ
مَنْ كَانَ يَتْعَبُ خَيْلُهُ فِي بَاطِل
فَخُبُولَنَا يَوْمَ الصَّيْحَةِ تَتْعَبُ
ريحُ الْعَبِيرِ لَكُمْ وَنَحْنُ عَيْرُنَا
رَهْجُ السَّنَابُكِ وَالغُبَارُ الأطيب
وَلَقَدْ أَتَانَا مِنْ مَّقَالِى بَيْيَِنَا
قَوْلٌ صَحِيحٌ صَادِقٌ لَا يَكْذِبُ
لا يَسْتَوِي غُبَارُ خَيْلِ اللَّهِ فِي
أَنْفِ امْرِي وَدُخَانُ نَـارٍ تَلْهَبُ
هذَا كِتَابُ اللَّهِ يَنْطِقُ بَيْنَنَا
ليسَ الشَّهِيدُ بِمَيِّتِ لَا يَكذِبُ»

اے مکہ مدینہ میں رہ کر عبادت کرنے والے، اگر تو ہم مجاہدین کو دیکھ لیتا تو بالیقین تجھے معلوم ہو جاتا کہ تیری عبادت تو ایک کھیل ہے۔ ایک وہ شخص جس کے آنسو اس کے رخساروں کو تر کرتے ہیں اور ایک ہم ہیں جو اپنی گردن اللہ کی راہ میں کٹوا کر اپنے خون میں آپ نہا لیتے ہیں۔ ایک وہ شخص جس کا گھوڑا باطل اور بے کار کام میں تھک جاتا ہے اور ہمارے گھوڑے حملے اور لڑائی کے دن ہی تھکتے ہیں۔ اگربتی کی خوشبوئیں تمہارے لیے ہیں اور ہمارے لیے اگربتی کی خوشبو گھوڑوں کے ٹاپوں کی خاک اور پاکیزہ غبار ہے۔ یقین مانو، ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پہنچی ہے، جو سراسر راستی اور درستی والی بالکل سچی ہے۔ جس کسی کے ناک میں اس اللہ تعالیٰ ٰ کے لشکر کی گرد بھی پہنچ گئی، اس کے ناک میں شعلے مارنے والی جہنم کی آگ کا دھواں بھی نہ جائے گا۔ اور لو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب جو ہم میں موجود ہے اور صاف کہہ رہی ہے اور سچ کہہ رہی ہے کہ شہید مردہ نہیں۔
محمد بن ابراہیم فرماتے ہیں، جب میں نے مسجد حرام میں پہنچ کر سیدنا فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کو یہ اشعار دکھائے تو آپ پڑھ کر زار و زار روئے اور فرمایا، ابوعبد الرحمن (اللہ تعالیٰ ٰ کی اُن پر رحمتیں ہوں) نے صحیح اور سچ فرمایا اور مجھے نصیحت کی اور میری بے حد خیر خواہی کی۔ [تفسير ابن كثير: 603/1، طبع مكتبه قدوسيه]

امانت و دیانت:
حسن بن عرفہ کہتے ہیں کہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے مجھے بیان کیا:
سرزمین شام میں، میں نے ایک قلم ادھار لیا، پھر میں (اس ارادے سے) چلا کہ اسے واپس کر کے آؤں گا، جب میں مرو پہنچا تو دیکھا کہ وہ قلم تو میرے ہی پاس ہے۔ پھر شام کی طرف لوٹا، یہاں تک کہ قلم والے کو وہ قلم واپس کر کے آیا۔ [ سير أعلام النبلاء: 8/ 395]

مالی اعانت اور غم گساری:
➊ سلمہ بن سلیمان کہتے ہیں کہ:
ایک آدمی ابن مبارک رحمہ اللہ کے پاس آیا اور آپ سے درخواست کی کہ اس کا قرض اتار دیں تو انہوں نے اپنے خزانچی کی طرف اس کے لیے رقعہ لکھ دیا، جب رقعہ خزانچی کے پاس پہنچا تو اس نے مقروض سے پوچھا: کہ تمہارے اوپر کتنا قرض ہے، جس کی ادائیگی کے لیے درخواست کی ہے؟ اس نے کہا کہ سات سو درہم ہیں اور اچانک عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے رقعے میں، اسے دینے کے لیے سات ہزار درہم لکھے ہوئے تھے، اس پر وکیل نے ان کی طرف رجوع کیا اور کہا کہ بے شک غلے اور اناج ختم ہو چکے ہیں۔ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے اس کی طرف لکھا کہ اگر غلے ختم ہو چکے ہیں تو زندگی بھی یقینا ختم ہو چکی ہے، تم اسے اتنے ہی دو جتنے کے میرے قلم سے پہلے لکھے جاچکے ہیں۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 386]
➋ محمد بن عیسیٰ کہتے ہیں کہ ابن مبارک رحمہ اللہ طرطوس کی طرف بہت زیادہ آیا جایا کرتے تھے اور رقہ شہر میں ایک سرائے میں ٹھہرا کرتے تھے۔ وہاں ایک نوجوان کی ان کے پاس آمدو رفت رہتی، وہ ان کی ضروریات کا خیال رکھتا اور آپ سے حدیث کا سماع کیا کرتا۔ ایک دفعہ عبد اللہ رحمہ اللہ وہاں آئے تو وہ نظر نہ آیا، آپ جلدی میں تھے، وہاں سے چل دیئے، جب لوٹے تو اس نوجوان کے بارے میں دریافت کیا، بتلایا گیا کہ وہ دس ہزار درہموں (کے قرضے) کی وجہ سے قید میں ہے، چنانچہ آپ نے قرض خواہ کا کھوج لگایا اور اسے دس ہزار درہم دے دیئے اور اس سے قسم لی کہ جب تک وہ زندہ ہے کسی کو خبر نہیں دے گا، اس نوجوان کو رہائی دی گئی اور ابن مبارک ہے وہاں سے چل پڑے۔ وہ نوجوان انہیں رقہ سے دو مرحلوں پر آملا، وہ کہتا ہے کہ انہوں نے مجھ سے کہا: اے نوجوان! تو کہاں تھا؟ میں نے تجھے دیکھا نہیں تھا۔ اس نے کہا: کہ اے ابوعبد الرحمن! میں قرض کے باعث قید و بند میں تھا۔ انہوں نے کہا: کہ نجات کیسے پائی؟ اس نے کہا: کہ ایک آدمی آیا اور اس نے میرا قرض ادا کر دیا اور مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے۔ اس نوجوان کو عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ہی حقیقت حال کا علم ہو سکا۔ [تاريخ بغداد: 10/ 159]
➌ امام عبد اللہ بن مبارک اللہ بہت بڑے تاجر تھے، اسی وجہ سے آپ صلحاء اور اہل علم کی مالی مدد کیا کرتے، اپنی دولت کو گویا علم کے راستے میں وقف کر دیا تھا۔ فضیل بن عیاض مشہور زاہد سے کہا: کہ اگر آپ اور آپ کے ساتھی نہ ہوتے، تو میں تجارت کا پیشہ اختیار ہی نہ کرتا، وہ ہر سال فقراء پر ایک لاکھ درہم خرچ کیا کرتے۔
➍ حبان بن موسیٰ کہتے ہیں کہ ابن مبارک رحمہ اللہ پر اس بات کی قدغن لگائی کہ وہ اپنے شہر کو چھوڑ کر دوسرے شہروں میں مال تقسیم کرتے ہیں۔ اس تھے۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ: بے شک میں ان لوگوں کے مقام اور فضل و صدق کو پہچانتا ہوں، انہوں نے حدیث کو تلاش کیا اور اس کی اچھی طلب کی، لوگوں کے ان کی طرف احتیاج کے سبب وہ خود مختاج ہو گئے۔ اگر ہم ان کو چھوڑ دیں گے تو ان کا علم ضائع ہو جائے گا اور اگر ہم ان کی اعانت کریں گے تو وہ محمد صلى الله عليه وسلم کی امت کے لیے علم کی شمع کو روشن کیے رکھیں گے، میں نہیں جانتا کہ علم نبوت کو پھیلانے سے بڑا بھی کوئی اعزاز ہوسکتا ہے۔ [تاريخ بغداد: 10/ 160]
➎ مسیب بن واضح کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے ابوبکر بن عیاش کی طرف چار ہزار درہم بھیجے اور فرمایا: ان کے ذریعے اپنے آپ سے لوگوں کا فتنہ روکیے۔ یعنی فکر معاش علم پھیلانے کے رستے میں رکاوٹ نہ بنے، نہ ہی حق گوئی میں مانع ثابت ہو اور لوگوں کی پیشانیوں کی طرف دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

قوت حافظہ:
➊ مفر بن مساور کہتے ہیں کہ:
میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا: کیا آپ حدیث یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اس پر ان کا (غصے سے) رنگ بدل گیا اور فرمایا: میں نے کبھی حدیث یاد کرنے کی محنت نہیں کی، بس کتاب پکڑتا ہوں اور اس میں نظر دوڑاتا ہوں، جو چیز مجھے اچھی لگے، وہ میرے دل سے چمٹ جاتی ہے۔ [تاريخ بغداد: 165/10]
➋ حسن بن عیسٰی بیان کرتے ہیں کہ:
مجھے صخر نے جو ابن مبارک رحمہ اللہ کے دوست ہیں، خبر دی کہ ہم بچے تھے اور مکتب میں پڑھتے تھے۔ میں اور ابن مبارک رحمہ اللہ گزرے، ایک آدمی خطاب کر رہا تھا، اس نے بہت لمبی تقریر کی۔ جب وہ فارغ ہوا تو ابن مبارک نے کہا: میں نے یہ خطبہ یاد کر لیا ہے، لوگوں میں سے ایک آدمی نے ان کی بات سنی تو کہنے لگا: بیان کرو، تو انہوں نے سارا خطبہ سنا دیا، وہ یقیناً یاد کر چکے تھے۔ [تاريخ بغداد: 10/ 166، 165]
➌ نعیم بن حماد نے کہا کہ:
میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا: مجھ سے میرے باپ نے کہا کہ اگر میں نے تیری کتابیں پالیں تو انہیں جلا دوں گا۔ میں نے کہا کہ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں، وہ سب میرے سینے میں محفوظ ہیں۔ البتہ آپ کا معمول تھا کہ حدیث بیان کرتے وقت کتاب سے بیان کرتے، نہ کہ حافظے سے، تاکہ غلطی کا احتمال ختم ہو جائے۔
➍ امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ابن مبارک رحمہ اللہ کتاب سے حدیث بیان کیا کرتے تھے تو ان کی غلطیاں زیادہ نہیں ہوتی تھیں اور وکیع اپنے حافظے سے حدیث بیان کیا کرتے تھے تو ان کی غلطیاں زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 407، 481]
➎ ابوصالح فراء کہتے ہیں کہ:
میں نے ابن مبارک رحمہ اللہ سے علم کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: اگر کتاب نہ ہوتی تو ہم یاد نہ کر پاتے۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 409]

فقاہت حدیث:
➊ عبداللہ عجلی بیان کرتے ہیں کہ:
جب ابن مبارک رحمہ اللہ کی وفات کا وقت آیا، تو ایک آدمی انہیں تلقین کرنے لگا کہو لا اله الا الله، اس نے زیادہ ہی تلقین کی، آپ نے اسے فرمایا: تم اچھا نہیں کر رہے اور مجھے خوف ہے کہ میرے بعد بھی کسی مسلمان کو تکلیف دو گے۔ جب تم مجھے تلقین کرو گے تو کہو: لا اله الا الله۔ پھر اگر میں نے اس کے بعد کوئی نئی گفتگو نہیں کی، تو مجھے چھوڑ دو اور اگر میں نے کوئی کلام کیا تو پھر مجھے کلمے کی تلقین کرو، تاکہ میرا آخری کلام یہ کلمہ ہو جائے۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 418]
➋ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ قریش کے لیے درست رہو، جب تک وہ تمہارے لیے درست ہیں۔ [مسند أحمد: 277/5، مجمع الزوائد هيثمي: 5/ 228، طبراني صغير، ص: 74]
امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس حدیث کی تفسیر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کر رہی ہے: انہیں قتل نہ کرو، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ [صحيح مسلم: 1854 جامع ترمذي: 2266 سير أعلام النبلا: 8/ 405]

احترام حدیث:
أحمد بن ابی حواری بیان کرتے ہیں، بنو ہاشم کا ایک شخص (جو مقتدر طبقے سے تھا) عبداللہ بن مبارک اللہ کی طرف آیا تاکہ ان سے حدیث سنے، انہوں نے اسے (علیحدگی میں) حدیث بیان کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر شریف ہاشمی نامی شخص نے اپنے غلام سے کہا: تم اٹھو، ابوعبد الرحمن ہمیں حدیث بیان کرنا نہیں چاہتے، جب وہ سوار ہونے کے لیے کھڑا ہوا تو ابن مبارک رحمہ اللہ آئے اور اس کی سواری کی مہار تھام لی۔ وہ بولا: اے ابوعبد الرحمن آپ یہ کام تو کر رہے ہیں اور مجھے حدیث بیان کرنا مناسب نہ سمجھا، آپ نے فرمایا: میں تیرے لیے اپنے بدن کو ذلیل کر سکتا ہوں لیکن تیرے لیے حدیث کو رسوا نہیں کر سکتا۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 404]

جہمیہ کی تردید:
جہمیہ ایک بدعتی اور گمراہ فرقہ ہے۔ انہوں نے اللہ کی صفات کا انکار کیا اور ایسی تاویل کی جو صفات کی تعطیل تک لے جانی والی ہے۔ یہ جہم بن صفوان راسبی کے پیروکار ہیں۔ اسی لیے جہمیہ کہلاتے ہیں۔
➊ علی بن حسن بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا، بے شک ہم یہود ونصاریٰ کا کلام حکایت کرتے ہیں، لیکن ہم جہمیہ کا کلام بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 401]
➋ علی بن حسن بن شقیق کہتے ہیں، میں نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا: ہمارے لیے اپنے رب کو پہچاننا کیسے لائق ہے؟ فرمایا کہ وہ ساتویں آسمان پر، عرش کے اوپر ہے اور ہم اس طرح نہیں کہتے جس طرح جہمیہ کہتے ہیں کہ وہ یہاں زمین پر ہے۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 403]
➌ امام ذہبی فرماتے ہیں، جہمیہ کہتے ہیں کہ بے شک باری تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور سلف صالحین کہتے ہیں کہ بے شک باری تعالیٰ ٰ کا علم ہر جگہ موجود ہے اور سلف کی دلیل اللہ تعالیٰ ٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ [الحديد: 4]
اور وہ تمہارے ساتھ ہے، تم جہاں بھی ہو۔
یعنی علم کے اعتبار سے اور وہ (سلف) کہتے ہیں کہ بے شک وہ اپنے عرش پر مستوی ہے، جس طرح کہ قرآن وسنت نے بیان کیا ہے۔
➍ امام اوزاعی ہم اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارا اور سب کے سب تابعین کا کہنا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ ٰ اپنے عرش کے اوپر ہے اور ہم ان صفات پر ایمان لاتے ہیں جو سنت میں اس کی بیان ہوئی ہیں اور اہل علم کی ایک جماعت کے ہاں معلوم ہے کہ بے شک سلف صالحین کا مؤقف آیات صفات اور احادیث کو اس طرح ماننا لازم ہے، جس طرح کہ وہ آئی ہیں، ان میں نہ کوئی تاویل ہے، نہ تحریف، نہ تشبیہ ہے اور نہ تکییف اور بے شک صفات کے بارے کلام، ذات مقدسہ میں کلام کی فرع ہے اور یقیناً مسلمانوں کو معلوم ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ حقیقتا موجود ہے، اسی طرح اس کی صفات بھی موجود ہیں، اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 402]
➎ علاء بن اسود کہتے ہیں کہ ابن مبارک رحمہ اللہ کے پاس (جہم بن صفوان، فرقہ جہمیہ کا بانی) کا ذکر کیا گیا تو برجستہ فرمایا: «عجبت لشيطــــان أتى الناس داعيــا
إلى النار وانشق اسمه من جهنم»
[سير أعلام النبلاء: 8/ 411]
میں نے شیطان پر تعجب کیا جو لوگوں کو آگ کی طرف بلانے آیا اور اس کا نام جہنم سے مشتق ہے۔ یعنی لفظ جہم اور جہنم کا مادہ اشتقاق ایک ہی ہے۔

حج بیت الله:
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے بہ کثرت حج و عمرے کیے۔ چنانچہ حسن بن شقیق بیان کرتے ہیں جب حج کا وقت آتا تو ابن مبارک رحمہ اللہ کے مروزی دوست احباب ان کے پاس جمع ہو جاتے اور کہتے کہ ہم آپ کی رفاقت میں جائیں گے، آپ فرماتے کہ اپنے خرچے لاؤ، آپ ان کی رقم پکڑتے اور ایک صندوق میں رکھ کر اسے مقفل کر دیتے، پھر ان کو کرایہ مہیا کرتے اور انہیں مرو سے بغداد کی طرف لے کر نکلتے۔ اس دوران مسلسل ان پر خرچ کرتے رہتے، بہترین کھانے اور عمدہ ترین حلوہ جات کھلاتے رہتے، پھر خوب صورت ترین لباس اور زبردست حالت میں انہیں بغداد سے لے کر چلتے، تا آنکہ مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچ جاتے۔ ہر ایک سے پوچھتے تیرے گھر والوں نے مدینے کی کون سی نادر و عمدہ چیزیں خریدنے کا تجھے کہا تھا؟ وہ کہتا کہ فلاں اور فلاں چیز (آپ وہ انہیں خرید کر دیتے) پھر انہیں لے کر مکے کی طرف نکل جاتے۔ جب حج ادا کر لیتے تو ان میں سے ہر ایک سے کہتے، تیرے گھر والوں نے تجھے، ان کے لیے مکے کا کون سا سامان خریدنے کو کہا تھا؟ وہ کہتا کہ فلاں اور فلاں چیز۔ آپ رحمہ اللہ للہ وہ خرید دیتے، پھر انہیں مکے سے لے کر نکلتے اور لگاتار ان پر خرچ کرتے رہے، یہاں تک کہ مرو پہنچ جاتے۔ ان کے گھروں اور دروازوں کو چونا گچ اور پلستر کرواتے، جب تین دن گزر جاتے تو ان کے لیے ایک بڑی دعوت کا اہتمام کرتے اور انہیں لباس پہناتے۔ جب وہ کھا لیتے اور خوش ہو جاتے تو وہ صندوق منگواتے، اسے کھولتے اور ان میں سے ہر آدمی کی طرف اس کی تھیلی سپر د کر دتے۔ اس پر اس کا نام لکھا ہوتا۔ [الإكمال فى تهذيب الكمال: 5918، سير أعلام النبلاء: 8/ 386]

شان و شوکت:
➊ اشعث بن شعبہ مصیصی بیان کرتے ہیں:
خلیفہ ہارون الرشید رقہ شہر میں آیا۔ لوگ الگ تھلگ ابن مبارک کے پیچھے چلنے لگے اور ان کے جوتے (ہجوم سے) ٹوٹ گئے اور گرد و غبار سے اٹ گئے۔ لکڑی کے مینار سے امیر المؤمنین کی ام ولد (وہ لونڈی جس سے آقا کی اولا د ہو) نے جھانکا اور پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ اہل خراسان کے عالم ہیں اور یہاں قدم رنجا فرمایا ہے۔ وہ بولی: اللہ کی قسم! یہی اصل بادشاہت ہے، نہ کہ ہارون کی، جو لوگوں کو سپاہیوں اور مددگاروں کے ذریعے جمع کرتا ہے۔ [تاريخ بغداد: 10/ 156، وفيات الأعيان: 3/ 33]
➋ عبدالعزیز بن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ:
امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ نے مجھے فرمایا: تمہاری طرف (خراسان) سے ہمارے پاس ابن مبارک اللہ جیسا کوئی نہیں آیا اور وہ مشرق و مغرب والوں میں سب سے بڑے عالم ہیں۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 384، اكمال تهذيب الكمال: 8/ 155]
ابوعبد اللہ مبارک رحمہ اللہ یہ امام عبداللہ بن مبارک کے والد ہیں، انتہائی نیک اور امانت دار تھے اور غلام تھے۔ علامہ ابن خلکان جانے نے ذکر کیا ہے کہ ان کے والد اپنے آقا کے باغ میں مالی تھے اور ایک عرصہ تک وہاں رہے، پھر ایک دن آقا آیا اور ان سے کہا کہ میٹھے انگور لاؤ، مبارک گئے اور ترش انگور پیش کیے، آقا غضب ناک ہو گیا اور پھر دوسری اور تیسری بار منگوائے اور وہ ہر بار ترش ہی لے کر آئے۔ آقا برس پڑا، تجھ پر افسوس! اتنے سالوں سے یہاں کام کر رہے ہو، تجھے میٹھے اور ترش کے فرق کا بھی پتہ نہیں ہے؟ کہا: کہ مجھے علم نہیں ہے، اس نے کہا: کیوں؟ فرمایا: کیوں کہ یہ وہی پہچان سکتا ہے جو کھاتا ہے۔ اس نے کہا: کہ اور تم کیا کھاتے نہیں ہو؟ فرمایا کہ نہیں۔ پوچھا: کیوں؟ فرمایا: اس لیے کہ میں آپ کے باغ کا رکھوالا تو ہوں چکھوالا نہیں ہوں۔ آقا کو یہ بات بہت پسند آئی اور اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی لڑکی سے اللہ نے عبد اللہ عطا کیے۔ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ پر باپ کی نیکی کا اثر امڈ آیا۔ [اكمال تهذيب الكمال: 8/ 161]

کرامات و ولایت:
کرامت اور معجزہ درحقیقت اللہ کا فعل ہے جو ولی اور نبی کے ہاتھوں صادر ہوتا ہے، اس میں ان کا ذاتی کمال نہیں ہوتا، نہ وہ جب چاہیں اسے پیش کر سکتے ہیں۔ سب حکم الٰہی سے ہوتا ہے۔
➊ علامه خليل الارشاد میں فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ ابن مبارک رحمہ اللہ کی اتنی کرامات ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ [الإرشاد: 3/ 887، 888]
➋ ایک شخص عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے پاس آیا اور شکایت کی کہ اس کے گھٹنے میں سات سال سے ایک زخم ہے، جس سے خون رستا ہے۔ ہر قسم کے علاج معالجے کروا لیے ہیں اور اطباء سے بھی پوچھا: ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور ایسی جگہ کہ جہاں پانی کی بہت ضرورت ہے۔ کنواں کھدوا دو، مجھے امید ہے کہ وہاں چشمہ پھوٹ پڑے گا اور ادھر تیرا خون تھم جائے گا۔ اس آدمی نے ایسا ہی کیا اور صحت یاب ہو گیا۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 407]
➌ امام موصوف رحمہ اللہ کی دعا سے ایک نابینا شخص کی بصارت لوٹائے جانے کا واقعہ اوپر ذکر ہوا ہے۔

فقیہہ اور طبیب:
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کے پاس آیا تو میں نے کہا: کہ آپ کو کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے کہ میں بیمار ہوں، دواء استعمال کر رہا ہوں اور بڑی مصیبت میں ہوں۔ میں نے کہا کہ پیاز لاؤ۔ میں نے اسے چیرا اور کہا: کہ اسے سونگھیں، انہوں نے سونگھا تو ساتھ ہی چھینک ماری اور کہا: الــحــمــد لــلـه رب العالمين ان کا غم دور ہو گیا اور تکلیف ختم ہو گئی۔ فرمانے لگے: واہ واہ (آپ تو) فقیہ بھی ہو، طبیب بھی ہو۔ [تذكرة الحفاظ: 1/ 278 279]

خشیت الہی اور فکر آخرت:
➊ نعیم بن حماد کہتے ہیں کہ ابن مبارک رحمہ اللہ جب کتاب الرقاق پڑھتے تو رونے کی وجہ سے ایسے ہو جاتے جیسے ذبح شدہ گائے یا بیل ہو، ہم میں سے کوئی کسی چیز کے بارے سوال کرنے کی جسارت کرتا تو ضرور اسے لوٹا دیتے۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 394]
➋ ایک شخص نے ابن مبارک رحمہ اللہ سے کہا کہ آج رات میں نے ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھا ہے۔ آپ نے فرمایا: لیکن میں ایک آدمی کو جانتا ہوں (اپنے بارے میں کہا:) وہ تو بار بار﴿الهكُمُ التَّكَاثر﴾ پڑھتا رہا، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اس سے تجاوز کرنے اور آگے پڑھنے کی اس میں سکت ہی نہ رہی۔ [سير أعلام النبلاء: 397/8]
➌ سويد بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے مکے میں ابن مبارک اللہ کو زمزم کے پاس دیکھا، انہوں نے پینے کے لیے زمزم کا پانی لیا اور قبلہ رخ ہو کر کہنے لگے۔ یا اللہ! بے شک ابن ابی موال نے ہمیں محمد بن منکدر سے حدیث بیان کی، وہ جابر رضی اللہ عنہ ان سے بیان کرتے ہیں، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَاءُ زَمَزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ»
آب زمزم اسی (مقصد) کے لیے ہے کہ جس (ارادے) سے پیا جائے۔
اور میں اسے قیامت کی پیاس بجھانے کے ارادے) سے پی رہا ہوں۔ پھر اسے نوش فرما لیا۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 393]

اہل علم کا ادب و احترام:
➊ یحیٰی بن یحیٰی کہتے ہیں کہ ہم امام مالک رحمہ اللہ کی مجلس میں تھے کہ ابن مبارک رحمہ اللہ کے لیے اجازت طلب کی گئی۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ ہم نے امام مالک رحمہ اللہ کو دیکھا کہ وہ ابن مبارک رحمہ اللہ کے لیے اپنی جگہ سے سرک گئے اور انہیں اپنے برابر بٹھایا اور میں نے نہیں دیکھا کہ وہ ان کے علاوہ کسی اور کے لیے کبھی اپنی جگہ سے سر کے ہوں۔ پڑھنے والا، امام مالک رحمہ اللہ پر حدیث کی قرٱت کرنے لگا۔ پس آپ اٹھے اور چلے گئے۔ امام مالک رحمہ اللہ کو ان کا ادب بہت پسند آیا، پھر فرمایا: ہمارے لیے یہ ابن مبارک، خراسان کے فقیہہ (کافی) ہیں۔ [اكمال فى تهذيب الكمال: 8/ 161]
➋ ایک جماعت نے امام حماد بن زید (جو کہ ابن مبارک کے شاگرد ہیں) سے سوال کیا کہ ابن مبارک رحمہ اللہ ہمیں حدیث بیان کریں تو حماد بن زید رحمہ اللہ نے اس بارے ابن مبارک رحمہ اللہ سے بات کی۔ ابن مبارک رحمہ اللہ فرمانے لگے: کیا میں آپ کی موجودگی میں انہیں حدیث بیان کروں؟ جب حماد رحمہ اللہ نے اصرار کیا تو ابن مبارک رحمہ اللہ نے انہیں حماد رحمہ اللہ کے واسطے سے ہی حدیث بیان فرمائی۔ [إكمال فى تهذيب الكمال: 8/ 161]

وفات حسر آیات:
➊ امام عبد اللہ بن مبارک اللہ نے 181ھ میں وفات پائی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا اور آپ بحری سفر پر تھے۔ امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کی وفات سے ایک سال پیشتر ان کی عمر کے بارے پوچھا تھا، انہوں نے فرمایا کہ میں تریسٹھ برس کا ہوں۔ [اكمال فى تهذيب الكمال: 8/ 154]
➋ مسیّب بن واضح کہتے ہیں کہ ابن مبارک رحمہ اللہ ایک سو بیاسی یا اکیاسی (181ھ) کے اخیر میں فوت ہوئے اور دریائے فرٱت میں کشتی میں انتقال کیا، پھر کشتی سے نکالے گئے اور مقام ھیت میں مدفون ہوئے۔ [إكمال فى تهذيب الكمال: 8/ 158، 159]
➌ محمد بن حمدویہ کی تاریخ مراوزہ میں ہے کہ وہ ھیت اور عانات کے درمیان فوت ہوئے اور ھیت کی طرف لوٹائے گئے اور وہاں مدفون ہوئے۔ [اكمال فى تهذيب الكمال: 8/ 160]
➍ ابن قانع کی تاریخ میں ہے کہ جب آپ فوت ہوئے تو جہاد کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔ [اكمال فى تهذيب الكمال: 8/ 160]
➎ نوفل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں ابن مبارک رحمہ اللہ کو دیکھا تو میں نے کہاکہ اللہ نےآپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ فرمایا کہ: ا للہ نے مجھے، میرے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سفر کرنے کی وجہ سے بخش دیا ہے، قرآن کو لازم پکڑو، قرآن کو لازم پکڑو۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 419]
➏ کہا جاتا ہے کہ جب ہارون الرشید کو امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی وفات کی خبر ملی تو فرمایا: آج کے دن علماء کا سردار فوت ہو گیا۔ [سير أعلام النبلاء: 8/ 418]

تصنيفات:
امام عبداللہ بن مبارک اللہ نے کئی ایک کتب حدیث تصنیف فرمائیں۔
ان میں سے چند مشہور کتب درج ذیل ہیں۔
➊ مسند عبداللہ بن مبارک
➋ کتاب البر والصلة
➌ کتاب الجہاد
➍ کتاب الزہد
➎ کتاب الرقائق وغیرہ۔
امام عبداللہ بن مبارک اللہ نے کئی ایک کتب حدیث تصنیف فرمائیں۔
ان میں سے چند مشہور کتب درج ذیل ہیں۔
➊ مسند عبداللہ بن مبارک
➋ کتاب البر والصلة
➌ کتاب الجہاد
➍ کتاب الزہد
➎ کتاب الرقائق وغیرہ۔


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.