صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
The Book of Peacemaking
6. بَابُ كَيْفَ يُكْتَبُ هَذَا مَا صَالَحَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ. وَفُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ وَإِنْ لَمْ يَنْسُبْهُ إِلَى قَبِيلَتِهِ، أَوْ نَسَبِهِ:
6. باب: صلح نامہ میں لکھنا کافی ہے یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر فلاں ولد فلاں اور فلاں ولد فلاں نے صلح کی اور خاندان اور نسب نامہ لکھنا ضروری نہیں ہے۔
(6) Chapter. How to write (re)conciliation?
حدیث نمبر: 2699
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء بن عازب رضي الله عنه، قال:" اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم في ذي القعدة، فابى اهل مكة ان يدعوه يدخل مكة حتى قاضاهم على ان يقيم بها ثلاثة ايام، فلما كتبوا الكتاب كتبوا هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله، فقالوا: لا نقر بها، فلو نعلم انك رسول الله ما منعناك، لكن انت محمد بن عبد الله، قال: انا رسول الله، وانا محمد بن عبد الله، ثم قال لعلي: امح رسول الله، قال: لا، والله لا امحوك ابدا، فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم الكتاب، فكتب هذا ما قاضى عليه محمد بن عبد الله لا يدخل مكة سلاح إلا في القراب، وان لا يخرج من اهلها باحد إن اراد ان يتبعه، وان لا يمنع احدا من اصحابه اراد ان يقيم بها، فلما دخلها ومضى الاجل اتوا عليا، فقالوا: قل لصاحبك اخرج عنا فقد مضى الاجل، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم، فتبعتهم ابنة حمزة، يا عم، يا عم، فتناولها علي بن ابي طالب رضي الله عنه، فاخذ بيدها، وقال لفاطمة عليها السلام: دونك ابنة عمك حملتها فاختصم فيها علي، وزيد، وجعفر، فقالعلي: انا احق بها وهي ابنة عمي، وقال جعفر: ابنة عمي وخالتها تحتي، وقال زيد: ابنة اخي، فقضى بها النبي صلى الله عليه وسلم لخالتها، وقال: الخالة بمنزلة الام، وقال لعلي: انت مني وانا منك، وقال لجعفر: اشبهت خلقي وخلقي، وقال لزيد: انت اخونا ومولانا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ حَتَّى قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَتَبُوا الْكِتَابَ كَتَبُوا هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: لَا نُقِرُّ بِهَا، فَلَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا مَنَعْنَاكَ، لَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَنَا رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ: امْحُ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: لَا، وَاللَّهِ لَا أَمْحُوكَ أَبَدًا، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِتَابَ، فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَا يَدْخُلُ مَكَّةَ سِلَاحٌ إِلَّا فِي الْقِرَابِ، وَأَنْ لَا يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا بِأَحَدٍ إِنْ أَرَادَ أَنْ يَتَّبِعَهُ، وَأَنْ لَا يَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا، فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الْأَجَلُ أَتَوْا عَلِيًّا، فَقَالُوا: قُلْ لِصَاحِبِكَ اخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَى الْأَجَلُ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَبِعَتْهُمُ ابْنَةُ حَمْزَةَ، يَا عَمِّ، يَا عَمِّ، فَتَنَاوَلَهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ حَمَلَتْهَا فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ، وَزَيْدٌ، وَجَعْفَرٌ، فَقَالَعَلِيٌّ: أَنَا أَحَقُّ بِهَا وَهِيَ ابْنَةُ عَمِّي، وَقَالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي، وَقَالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أَخِي، فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ: الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ، وَقَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي، وَقَالَ لِزَيْدٍ: أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا اسرائیل سے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ کے مہینے میں عمرہ کا احرام باندھا۔ لیکن مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ آخر صلح اس پر ہوئی کہ (آئندہ سال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تین روز قیام کریں گے۔ جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا گیا کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ لیکن مشرکین نے کہا کہ ہم تو اسے نہیں مانتے۔ اگر ہمیں علم ہو جائے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہ روکیں۔ بس آپ صرف محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ اس کے بعد آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو، انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم! میں تو یہ لفظ کبھی نہ مٹاؤں گا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دستاویز لی اور لکھا کہ یہ اس کی دستاویز ہے کہ محمد بن عبداللہ نے اس شرط پر صلح کی ہے کہ مکہ میں وہ ہتھیار میان میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں گے۔ اگر مکہ کا کوئی شخص ان کے ساتھ جانا چاہے گا تو وہ اسے ساتھ نہ لے جائیں گے۔ لیکن اگر ان کے اصحاب میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو اسے وہ نہ روکیں گے۔ جب (آئندہ سال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لے گئے اور (مکہ میں قیام کی) مدت پوری ہو گئی تو قریش علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے صاحب سے کہئے کہ مدت پوری ہو گئی ہے اور اب وہ ہمارے یہاں سے چلے جائیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے روانہ ہونے لگے۔ اس وقت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ایک بچی چچا چچا کرتی آئیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے ساتھ لے لیا، پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہاتھ پکڑ کر لائے اور فرمایا، اپنی چچا زاد بہن کو بھی ساتھ لے لو، انہوں نے اس کو اپنے ساتھ سوار کر لیا، پھر علی، زید اور جعفر رضی اللہ عنہم کا جھگڑا ہوا۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کا میں زیادہ مستحق ہوں، یہ میرے چچا کی بچی ہے۔ جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میرے بھی چچا کی بچی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں بھی ہیں۔ زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے بھائی کی بچی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے، پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔ زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Al-Bara: When the Prophet intended to perform `Umra in the month of Dhul-Qada, the people of Mecca did not let him enter Mecca till he settled the matter with them by promising to stay in it for three days only. When the document of treaty was written, the following was mentioned: 'These are the terms on which Muhammad, Allah's Apostle agreed (to make peace).' They said, "We will not agree to this, for if we believed that you are Allah's Apostle we would not prevent you, but you are Muhammad bin `Abdullah." The Prophet said, "I am Allah's Apostle and also Muhammad bin `Abdullah." Then he said to `Ali, "Rub off (the words) 'Allah's Apostle' ", but `Ali said, "No, by Allah, I will never rub off your name." So, Allah's Apostle took the document and wrote, 'This is what Muhammad bin `Abdullah has agreed upon: No arms will be brought into Mecca except in their cases, and nobody from the people of Mecca will be allowed to go with him (i.e. the Prophet ) even if he wished to follow him and he (the Prophet ) will not prevent any of his companions from staying in Mecca if the latter wants to stay.' When the Prophet entered Mecca and the time limit passed, the Meccans went to `Ali and said, "Tell your Friend (i.e. the Prophet ) to go out, as the period (agreed to) has passed." So, the Prophet went out of Mecca. The daughter of Hamza ran after them (i.e. the Prophet and his companions), calling, "O Uncle! O Uncle!" `Ali received her and led her by the hand and said to Fatima, "Take your uncle's daughter." Zaid and Ja`far quarreled about her. `Ali said, "I have more right to her as she is my uncle's daughter." Ja`far said, "She is my uncle's daughter, and her aunt is my wife." Zaid said, "She is my brother's daughter." The Prophet judged that she should be given to her aunt, and said that the aunt was like the mother. He then said to 'All, "You are from me and I am from you", and said to Ja`far, "You resemble me both in character and appearance", and said to Zaid, "You are our brother (in faith) and our freed slave."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 49, Number 863

حدیث نمبر: 1781
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن عثمان، حدثنا شريح بن مسلمة، حدثنا إبراهيم بن يوسف، عن ابيه، عن ابي إسحاق، قال: سالت مسروقا , وعطاء , ومجاهدا، فقالوا: اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذي القعدة قبل ان يحج، وقال: سمعت البراء بن عازب رضي الله عنهما، يقول:" اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذي القعدة قبل ان يحج مرتين".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَأَلْتُ مَسْرُوقًا , وَعَطَاءً , وَمُجَاهِدًا، فقالوا: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ قَبْلَ أَنْ يَحُجَّ، وَقَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ قَبْلَ أَنْ يَحُجَّ مَرَّتَيْنِ".
ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابواسحٰق نے بیان کیا کہ میں نے مسروق، عطاء اور مجاہد رحمہم اللہ تعالیٰ سے پوچھا تو ان سب حضرات نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج سے پہلے ذی قعدہ ہی میں عمرے کئے تھے اور انہوں نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ ذی قعدہ میں حج سے پہلے دو عمرے کئے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu 'Is-haq: I asked Masruq, `Ata' and Mujahid (about the `Umra of Allah's Apostle). They said, "Allah's Apostle had performed `Umra in Dhi-l-Qa'da before he performed Hajj." I heard Al-Bara' bin `Azib saying, "Allah's Apostle had performed `Umra in Dhi-l-Qa'da twice before he performed Hajj."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 27, Number 9


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.