سنن ترمذي سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
7. باب ما جاء في الرجل يتصدق أو يعتق عند الموت
باب: مرتے وقت صدقہ کرنے والے اور غلام آزاد کرنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2124
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ تَسْتَعِينُ عَائِشَةَ فِي كِتَابَتِهَا، وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ، وَيَكُونَ لِي وَلَاؤُكِ فَعَلْتُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ لِأَهْلِهَا فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ، وَيَكُونَ لَنَا وَلَاؤُكِ فَلْتَفْعَلْ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ابْتَاعِي فَأَعْتِقِي، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ "، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَيْسَ لَهُ وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ مَرَّةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَائِشَةَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ اپنے زر کتابت کے بارے میں ان سے تعاون مانگنے آئیں اور زر کتابت میں سے کچھ نہیں ادا کیا تھا۔ ام المؤمنین عائشہ نے ان سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہاری زر کتابت ادا کر دوں اور تمہاری ولاء (میراث) کا حق مجھے حاصل ہو، تو میں ادا کر دوں گی۔ بریرہ نے اپنے گھر والوں سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا: اگر وہ چاہتی ہوں کہ تمہیں آزاد کر کے ثواب حاصل کریں اور تمہارا حق ولاء (میراث) ہمارے لیے ہو تو وہ تمہیں آزاد کر دیں، ام المؤمنین عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اسے خریدو اور آزاد کر دو اس لیے کہ حق ولاء (میراث) اسی کو حاصل ہے جو آزاد کرے“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں موجود نہیں؟ جو شخص کوئی ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں موجود نہیں تو وہ اس کا مستحق نہیں ہو گا، اگرچہ وہ سو بار شرط لگائے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲- عائشہ رضی الله عنہا سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آزاد کرنے والے ہی کو حق ولاء (میراث) حاصل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2124]
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲- عائشہ رضی الله عنہا سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آزاد کرنے والے ہی کو حق ولاء (میراث) حاصل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2124]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصلاة 70 (456)، والزکاة 61 (1493)، والبیوع 67 (92155، 73 (2168)، والعتق 10 (2536)، والمکاتب 1 (2560)، و 2 (2561)، و 3 (2563)، و4 (2564)، و 5 (2565)، والھبة 7 (2578)، والشروط 7 (2717)، و10 (2726)، و13 (2729)، و 17 (2735)، والطلاق 17 (5284)، والأطعمة: 31 (5430)، والکفارات 8 (6717)، والفرائض 20 (6754)، و 22 (6758)، صحیح مسلم/العتق 2 (1504)، سنن ابی داود/ الفرائض 12 (2915، 2916)، والعتق 2 (3929)، سنن النسائی/الزکاة 99 (2615)، والطلاق 29 (3478)، و30 (3479، 3480)، و31 (3481، 3484)، والبیوع 78 (4646-4648) (تحفة الأشراف: 16580)، و مسند احمد (6/42، 46، 170، 172، 175) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2521)
حدیث نمبر: 1256
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ، فَاشْتَرَطُوا الْوَلَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اشْتَرِيهَا فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ، أَوْ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ: وَمَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ يُكْنَى: أَبَا عَتَّابٍ. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ، عَنْ ابْنِ الْمَدِينِيِّ، قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، يَقُولُ: إِذَا حُدِّثْتَ عَنْ مَنْصُورٍ، فَقَدْ مَلَأْتَ يَدَكَ مِنَ الْخَيْرِ لَا تُرِدْ غَيْرَهُ، ثُمّ قَالَ يَحْيَى: مَا أَجِدُ فِي إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، وَمُجَاهِدٍ، أَثْبَتَ مِنْ مَنْصُورٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ مَنْصُورٌ، أَثْبَتُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ (لونڈی) کو خریدنا چاہا، تو بریرہ کے مالکوں نے ولاء ۱؎ کی شرط لگائی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے فرمایا: ”تم اسے خرید لو، (اور آزاد کر دو) اس لیے کہ ولاء تو اسی کا ہو گا جو قیمت ادا کرے، یا جو نعمت (آزاد کرنے) کا مالک ہو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی حدیث مروی ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1256]
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی حدیث مروی ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1256]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/کفارات الأیمان 8 (6717)، سنن النسائی/الطلاق 30 (3479)، (وانظر أیضا ما یقدم برقم: 1154، وما یأتي برقم: 2124 و2125) (تحفة الأشراف: 15992) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ولاء وہ ترکہ ہے جسے آزاد کیا ہوا غلام چھوڑ کر مرے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بائع کے لیے ولاء کی شرط لگانا صحیح نہیں، ولاء اسی کا ہو گا جو خرید کر آزاد کرے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2521)
حدیث نمبر: 2125
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ فَاشْتَرَطُوا الْوَلَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ، أَوْ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ کو خریدنے (اور آزاد کرنے) کا ارادہ کیا تو بریرہ کے گھر والوں نے ولاء (میراث) کی شرط رکھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولاء (میراث) کا حق اسی کو حاصل ہے جو قیمت ادا کرے یا آزاد کرنے کی نعمت کا مالک ہو“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2125]
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2125]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ، وکذا رقم: 1256 (تحفة الأشراف: 15992) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ولاء سے مراد وہ حقوق ہیں جو آزاد کرنے والے کو آزاد کئے ہوئے کی نسبت سے حاصل ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2589)

