الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
36. بَابُ : اشْتِرَاءِ التَّمْرِ بِالرُّطَبِ
36. باب: تازہ کھجور کے بدلے خشک کھجور خریدنے کا بیان۔
Chapter: Buying Dried Dates With Fresh Dates
حدیث نمبر: 4550
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن علي بن ميمون , قال: حدثنا محمد بن يوسف الفريابي , قال: حدثنا سفيان , عن إسماعيل بن امية , عن عبد الله بن يزيد , عن زيد , عن سعد بن مالك , قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرطب بالتمر , فقال:" اينقص إذا يبس؟" , قالوا: نعم ," فنهى عنه".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ , عَنْ زَيْدٍ , عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ , فَقَالَ:" أَيَنْقُصُ إِذَا يَبِسَ؟" , قَالُوا: نَعَمْ ," فَنَهَى عَنْهُ".
سعد بن مالک (سعد بن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوکھی کھجور کے بدلے تازہ کھجور بیچنے کے متعلق سوال کیا گیا؟ تو آپ نے فرمایا: کیا تازہ کھجور سوکھنے پر کم ہو جائے گی؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 4536
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا قتيبة بن سعيد , قال: حدثنا سفيان , عن الزهري , عن سالم , عن ابيه , ان النبي صلى الله عليه وسلم:" نهى عن بيع الثمر بالتمر". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال وقال ابن عمر: حدثني زيد بن ثابت , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" رخص في العرايا".
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقَالَ وقَالَ ابْنُ عُمَرَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کے پھل (کھجور) توڑے ہوئے پھلوں (کھجور) سے بیچنے سے منع فرمایا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھ سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عرایا میں اجازت عطا فرمائی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4524، وحدیث زید بن ثابت وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 75 (2173)، 82 (2184، 2188)، 84 (2192)، المساقاة 17 (2380)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1539)، سنن الترمذی/البیوع 63 (1300، 1302)، سنن ابن ماجہ/التجارات 55 (2268، 2269)، (تحفة الأشراف: 3723، موطا امام مالک/البیوع 9 (14)، مسند احمد (2/5، 8، 5/182، 186، 188، 190)، سنن الدارمی/البیوع 24 (2600)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4540، 4542- 4545) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: عرایا: عریا کی شکل یہ ہوتی تھی کہ باغ کا مالک کسی غریب ومسکین کو درختوں کے درمیان سے کوئی درخت صدقہ کر دیتا تھا، تو ایسے میں اگر مسکین اور اس کے بال بچوں کے باغ میں باربار آنے جانے سے مالک کو تکلیف ہوتی ہو تو اس کو یہ اجازت دی گئی کہ اس درخت پر لگے پھل (تر کھجور) کے بدلے توڑی ہوئی کھجور کا اندازہ لگا کر دیدے، یہ ضرورت کے تحت خاص اجازت ہے۔ عام حالات میں اس طرح کی بیع جائز نہیں۔

قال الشيخ الألباني: سكت عنه الشيخ

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 4549
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا عمرو بن علي , قال: حدثنا يحيى , قال: حدثنا مالك , قال: حدثني عبد الله بن يزيد , عن زيد بن ابي عياش , عن سعد , قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن التمر بالرطب؟ , فقال لمن حوله:" اينقص الرطب إذا يبس؟" , قالوا: نعم ," فنهى عنه".
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى , قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ , قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ , عَنْ سَعْدٍ , قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّمْرِ بِالرُّطَبِ؟ , فَقَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ:" أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ؟" , قَالُوا: نَعَمْ ," فَنَهَى عَنْهُ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تازہ کھجوروں کے بدلے خشک کھجور بیچنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اپنے اردگرد موجود لوگوں سے سوال کیا: جب تازہ کھجور سوکھ جاتی ہے تو کیا کم ہو جاتی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تو آپ نے اس سے منع فرمایا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 18 (3360)، سنن الترمذی/البیوع 14 (1225)، سنن ابن ماجہ/التجارات 45 (2464)، (تحفة الأشراف: 3854)، موطا امام مالک/البیوع 12 (22)، مسند احمد 1/175، 179 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اگر کسی کے پاس خشک کھجوریں ہوں اور وہ تازہ کھجوریں کھانا چاہتا ہے تو ایک دوسرے کے بدلے برابر یا کم و بیش کے حساب سے خرید و فروخت کرنے کی بجائے خشک کھجوروں کو پیسوں سے فروخت کر دے، پھر ان پیسوں سے تازہ کھجوریں خرید لے، ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے (دیکھئیے نمبر ۴۵۵۷)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 4557
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن سلمة , والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع واللفظ له , عن ابن القاسم , قال: حدثني مالك , عن عبد المجيد بن سهيل , عن سعيد بن المسيب , عن ابي سعيد الخدري , وعن ابي هريرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلا على خيبر , فجاء بتمر جنيب , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اكل تمر خيبر هكذا؟" , قال: لا , والله يا رسول الله إنا لناخذ الصاع من هذا بصاعين , والصاعين بالثلاث , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تفعل , بع الجمع بالدراهم , ثم ابتع بالدراهم جنيبا".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ , عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ , قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ , عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلَى خَيْبَرَ , فَجَاءَ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا؟" , قَالَ: لَا , وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِصَاعَيْنِ , وَالصَّاعَيْنِ بِالثَّلَاثِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَفْعَلْ , بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ , ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا".
ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنایا، وہ «جنیب» (نامی عمدہ قسم کی) کھجور لے کر آیا تو آپ نے فرمایا: کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہیں؟ وہ بولا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم یہ کھجور دو صاع کے بدلے ایک صاع یا تین صاع کے بدلے دو صاع لیتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، گھٹیا اور ردی کھجوروں کو درہم (پیسوں) سے بیچ دو، پھر درہم سے «جنیب» خرید لو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/لبیوع 89 (2201، 2202)، الوکالة 3 (2302، 2303)، المغازي 39 (42، 4244)، الاعتصام 20(7350-7351)، صحیح مسلم/المساقاة 18 (البیوع 39) (1593)، (تحفة الأشراف: 4044)، موطا امام مالک /البیوع 12 (21)، مسند احمد (3/45، 47)، سنن الدارمی/البیوع 40 (4245) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہی معاملہ ہر طرح کے پھلوں اور غلوں میں کرنا چاہیئے، اگر کسی کو گھٹیا اور ردی قسم کے بدلے اچھے قسم کا پھل یا غلہ چاہیئے تو وہ قیمت سے خریدے، بدلے میں نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 4558
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا نصر بن علي , وإسماعيل بن مسعود واللفظ له , عن خالد , قال: حدثنا سعيد , عن قتادة , عن سعيد بن المسيب , عن ابي سعيد الخدري: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بتمر ريان , وكان تمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بعلا فيه يبس , فقال:" انى لكم هذا؟" , قالوا: ابتعناه صاعا بصاعين من تمرنا , فقال:" لا تفعل , فإن هذا لا يصح , ولكن بع تمرك , واشتر من هذا حاجتك".
أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ , وَإِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ وَاللَّفْظُ لَهُ , عَنْ خَالِدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِتَمْرٍ رَيَّانَ , وَكَانَ تَمْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْلًا فِيهِ يُبْسٌ , فَقَالَ:" أَنَّى لَكُمْ هَذَا؟" , قَالُوا: ابْتَعْنَاهُ صَاعًا بِصَاعَيْنِ مِنْ تَمْرِنَا , فَقَالَ:" لَا تَفْعَلْ , فَإِنَّ هَذَا لَا يَصِحُّ , وَلَكِنْ بِعْ تَمْرَكَ , وَاشْتَرِ مِنْ هَذَا حَاجَتَكَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس «ریان» (نامی عمدہ) کھجوریں لائی گئیں اور آپ کی «بعل» نامی (گھٹیا قسم کی) سوکھی کھجور تھی تو آپ نے فرمایا: تمہارے پاس یہ کھجوریں کہاں سے آئیں؟ لوگوں نے کہا: ہم نے اپنی دو صاع کھجوروں کے بدلے اسے ایک صاع خریدی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، اس لیے کہ یہ چیز صحیح نہیں، البتہ تم اپنی کھجوریں بیچ دو اور پھر اس نقدی سے اپنی ضرورت کی دوسری کھجوریں خریدو۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 4559
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثني إسماعيل بن مسعود , قال: حدثنا خالد , قال: حدثنا هشام , عن يحيى بن ابي كثير , عن ابي سلمة بن عبد الرحمن , قال: حدثنا ابو سعيد الخدري , قال: كنا نرزق تمر الجمع على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فنبيع الصاعين بالصاع , فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" لا صاعي تمر بصاع، ولا صاعي حنطة بصاع ولا درهما بدرهمين".
حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ , قَالَ: كُنَّا نُرْزَقُ تَمْرَ الْجَمْعِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَبِيعُ الصَّاعَيْنِ بِالصَّاعِ , فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" لَا صَاعَيْ تَمْرٍ بِصَاعٍ، وَلَا صَاعَيْ حِنْطَةٍ بِصَاعٍ وَلَا دِرْهَمًا بِدِرْهَمَيْنِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ردی کھجوریں ملتی تھیں تو ہم دو صاع دے کر ایک صاع (اچھی کھجوریں) خرید لیتے تھے، یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا: کھجور کے دو صاع ایک صاع کے بدلے، گیہوں کے دو صاع ایک صاع کے بدلے اور دو درہم ایک درہم کے بدلے نہ لیے جائیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 20 (2080)، صحیح مسلم/البیوع 39 (المساقاة 18) (1595)، سنن ابن ماجہ/التجارات 48 (2256)، (تحفة الأشراف: 4422)، مسند احمد (3/48، 49، 50، 51، 55) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 4560
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا هشام بن عمار , عن يحيى وهو ابن حمزة , قال: حدثنا الاوزاعي , عن يحيى , قال: حدثني ابو سلمة , قال: حدثني ابو سعيد , قال: كنا نبيع تمر الجمع صاعين بصاع , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا صاعي تمر بصاع , ولا صاعي حنطة بصاع , ولا درهمين بدرهم".
أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ حَمْزَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ , عَنْ يَحْيَى , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ , قَالَ: كُنَّا نَبِيعُ تَمْرَ الْجَمْعِ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا صَاعَيْ تَمْرٍ بِصَاعٍ , وَلَا صَاعَيْ حِنْطَةٍ بِصَاعٍ , وَلَا دِرْهَمَيْنِ بِدِرْهَمٍ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ دو صاع ردی کھجوروں کے بدلے ایک صاع (عمدہ قسم کی کھجوریں) لیتے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک صاع کھجور کے بدلے دو صاع کھجور، ایک صاع گیہوں کے بدلے دو صاع گی ہوں، اور ایک درہم کے بدلے دو درہم لینا جائز نہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.