الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
4. بَابُ قَوْلِهِ: {وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ} :
4. باب: آیت کی تفسیر ”اور جس عورت کے گھر میں وہ تھے وہ اپنا مطلب نکالنے کو انہیں پھسلانے لگی اور دروازے بند کر لیے اور بولی کہ بس آ جا“۔
(4) Chapter. The Statement of Allah: “And she, in whose house he was, sought to seduce him (to do an evil act). She closed the doors and said, ’Come on, O you.’ He said: ’I seek refuge in Allah (or Allah forbid)’...” (V.12:23)
حدیث نمبر: 4693
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن مسلم، عن مسروق، عن عبد الله رضي الله عنه: ان قريشا لما ابطئوا على النبي صلى الله عليه وسلم بالإسلام، قال:" اللهم اكفنيهم بسبع كسبع يوسف"، فاصابتهم سنة حصت كل شيء، حتى اكلوا العظام، حتى جعل الرجل ينظر إلى السماء فيرى بينه وبينها مثل الدخان، قال الله: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين سورة الدخان آية 10، قال الله: إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون سورة الدخان آية 15، افيكشف عنهم العذاب يوم القيامة، وقد مضى الدخان، ومضت البطشة؟.حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا أَبْطَئُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْإِسْلَامِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ، حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا مِثْلَ الدُّخَانِ، قَالَ اللَّهُ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10، قَالَ اللَّهُ: إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15، أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَقَدْ مَضَى الدُّخَانُ، وَمَضَتِ الْبَطْشَةُ؟.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ قریش نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کا سا قحط نازل فرما۔ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور وہ ہڈیوں کے کھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ لوگوں کی اس وقت یہ کیفیت تھی کہ آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھتے تھے تو بھوک و پیاس کی شدت سے دھواں سا نظر آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين‏» تو آپ انتظار کیجئے اس روز کا جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔ اور فرمایا «إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون‏» بیشک ہم اس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم بھی (اپنی پہلی حالت پر) لوٹ آؤ گے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ آخرت کا عذاب کافروں سے ٹلنے والا نہیں ہے۔

Narrated `Abdullah (bin Mas`ud): When the Prophet realized that the Quraish had delayed in embracing Islam, he said, "O Allah! Protect me against their evil by afflicting them with seven (years of famine) like the seven years of (Prophet) Joseph." So they were struck with a year of famine that destroyed everything till they had to eat bones, and till a man would look towards the sky and see something like smoke between him and it. Allah said:-- "Then watch you (O Muhammad) for the day when the sky will produce a kind of smoke plainly visible." (44.10) And Allah further said:-- "Verily! We shall withdraw the punishment a little, Verily you will return (to disbelief)." (44.15) (Will Allah relieve them from torture on the Day of Resurrection?) (The punishment of) the smoke had passed and Al-Baltsha (the destruction of the pagans in the Badr battle) had passed too.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 215

حدیث نمبر: 1007
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال: كنا عند عبد الله، فقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم لما راى من الناس إدبارا، قال:" اللهم سبع كسبع يوسف، فاخذتهم سنة حصت كل شيء حتى اكلوا الجلود والميتة والجيف وينظر احدهم إلى السماء فيرى الدخان من الجوع"، فاتاه ابو سفيان، فقال: يا محمد إنك تامر بطاعة الله وبصلة الرحم، وإن قومك قد هلكوا فادع الله لهم، قال الله تعالى: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين إلى قوله إنكم عائدون يوم نبطش البطشة الكبرى سورة الدخان آية 10 - 16، فالبطشة: يوم بدر وقد مضت الدخان والبطشة واللزام وآية الروم.حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا، قَالَ:" اللَّهُمَّ سَبْعٌ كَسَبْعِ يُوسُفَ، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ وَالْجِيَفَ وَيَنْظُرَ أَحَدُهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى الدُّخَانَ مِنَ الْجُوعِ"، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى سورة الدخان آية 10 - 16، فَالْبَطْشَةُ: يَوْمَ بَدْرٍ وَقَدْ مَضَتِ الدُّخَانُ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَآيَةُ الرُّومِ.
ہم سے امام حمیدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، ان سے عبداللہ بن مسعود نے (دوسری سند) ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے منصور بن مسعود بن معتمر سے بیان کیا، اور ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کفار قریش کی سرکشی دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کی «اللهم سبع كسبع يوسف» کہ اے اللہ! سات برس کا قحط ان پر بھیج جیسے یوسف علیہ السلام کے وقت میں بھیجا تھا چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز تباہ ہو گئی اور لوگوں نے چمڑے اور مردار تک کھا لیے۔ بھوک کی شدت کا یہ عالم تھا کہ آسمان کی طرف نظر اٹھائی جاتی تو دھویں کی طرح معلوم ہوتا تھا آخر مجبور ہو کر ابوسفیان حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ لوگوں کو اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اب تو آپ ہی کی قوم برباد ہو رہی ہے، اس لیے آپ اللہ سے ان کے حق میں دعا کیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن کا انتظار کر جب آسمان صاف دھواں نظر آئے گا آیت «انکم عائدون» تک (نیز) جب ہم سختی سے ان کی گرفت کریں گے (کفار کی) سخت گرفت بدر کی لڑائی میں ہوئی۔ دھویں کا بھی معاملہ گزر چکا (جب سخت قحط پڑا تھا) جس میں پکڑ اور قید کا ذکر ہے وہ سب ہو چکے اسی طرح سورۃ الروم کی آیت میں جو ذکر ہے وہ بھی ہو چکا۔

Narrated Masruq: We were with `Abdullah and he said, "When the Prophet saw the refusal of the people to accept Islam he said, "O Allah! Send (famine) years on them for (seven years) like the seven years (of famine during the time) of (Prophet) Joseph." So famine overtook them for one year and destroyed every kind of life to such an extent that the people started eating hides, carcasses and rotten dead animals. Whenever one of them looked towards the sky, he would (imagine himself to) see smoke because of hunger. So Abu Sufyan went to the Prophet and said, "O Muhammad! You order people to obey Allah and to keep good relations with kith and kin. No doubt the people of your tribe are dying, so please pray to Allah for them." So Allah revealed: "Then watch you For the day that The sky will bring forth a kind Of smoke Plainly visible ... Verily! You will return (to disbelief) On the day when We shall seize You with a mighty grasp. (44.10-16) Ibn Mas`ud added, "Al-Batsha (i.e. grasp) happened in the battle of Badr and no doubt smoke, Al-Batsha, Al-Lizam, and the verse of Surat Ar-Rum have all passed .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 17, Number 121

حدیث نمبر: 4774
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن كثير، حدثنا سفيان، حدثنا منصور، والاعمش، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال: بينما رجل يحدث في كندة، فقال: يجيء دخان يوم القيامة، فياخذ باسماع المنافقين، وابصارهم ياخذ المؤمن كهيئة الزكام، ففزعنا، فاتيت ابن مسعود، وكان متكئا، فغضب فجلس، فقال: من علم فليقل، ومن لم يعلم فليقل الله اعلم، فإن من العلم ان، يقول: لما لا يعلم لا اعلم، فإن الله، قال لنبيه صلى الله عليه وسلم" قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86، وإن قريشا ابطئوا عن الإسلام، فدعا عليهم النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" اللهم اعني عليهم بسبع كسبع يوسف"، فاخذتهم سنة حتى هلكوا فيها واكلوا الميتة والعظام، ويرى الرجل ما بين السماء والارض كهيئة الدخان، فجاءه ابو سفيان، فقال: يا محمد جئت تامرنا بصلة الرحم، وإن قومك قد هلكوا، فادع الله، فقرا: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين إلى قوله عائدون سورة الدخان آية 10 - 15، افيكشف عنهم عذاب الآخرة إذا جاء ثم عادوا إلى كفرهم، فذلك قوله تعالى: يوم نبطش البطشة الكبرى سورة الدخان آية 16 يوم بدر ولزاما يوم بدر، الم غلبت الروم إلى سيغلبون سورة الروم آية 1 - 3 والروم قد مضى.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، وَالْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يُحَدِّثُ فِي كِنْدَةَ، فَقَالَ: يَجِيءُ دُخَانٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَأْخُذُ بِأَسْمَاعِ الْمُنَافِقِينَ، وَأَبْصَارِهِمْ يَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ، فَفَزِعْنَا، فَأَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَغَضِبَ فَجَلَسَ، فَقَالَ: مَنْ عَلِمَ فَلْيَقُلْ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ، يَقُولَ: لِمَا لَا يَعْلَمُ لَا أَعْلَمُ، فَإِنَّ اللَّهَ، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، وَإِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنِ الْإِسْلَامِ، فَدَعَا عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ، وَيَرَى الرَّجُلُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ، فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُنَا بِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ، فَقَرَأَ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 10 - 15، أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمْ عَذَابُ الْآخِرَةِ إِذَا جَاءَ ثُمَّ عَادُوا إِلَى كُفْرِهِمْ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى سورة الدخان آية 16 يَوْمَ بَدْرٍ وَلِزَامًا يَوْمَ بَدْرٍ، الم غُلِبَتِ الرُّومُ إِلَى سَيَغْلِبُونَ سورة الروم آية 1 - 3 وَالرُّومُ قَدْ مَضَى.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ ایک شخص نے قبیلہ کندہ میں وعظ بیان کرتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جس سے منافقوں کے آنکھ کان بالکل بیکار ہو جائیں گے لیکن مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہو گا۔ ہم اس کی بات سے بہت گھبرا گئے۔ پھر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا (اور انہیں ان صاحب کی یہ بات سنائی) وہ اس وقت ٹیک لگائے بیٹھے تھے، اسے سن کر بہت غصہ ہوئے اور سیدھے بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا کہ اگر کسی کو کسی بات کا واقعی علم ہے تو پھر اسے بیان کرنا چاہئے لیکن اگر علم نہیں ہے تو کہہ دینا چاہئے کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ بھی علم ہی ہے کہ آدمی اپنی لاعلمی کا اقرار کر لے اور صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين‏» آپ کہہ دیجئیے کہ میں اپنی تبلیغ و دعوت پر تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا اور نہ میں بناوٹ کرتا ہوں۔ اصل میں واقعہ یہ ہے کہ قریش کسی طرح اسلام نہیں لاتے تھے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانے جیسا قحط بھیج کر میری مدد کر پھر ایسا قحط پڑا کہ لوگ تباہ ہو گئے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے کوئی اگر فضا میں دیکھتا (تو فاقہ کی وجہ سے) اسے دھویں جیسا نظر آتا۔ پھر ابوسفیان آئے اور کہا کہ اے محمد! آپ ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم تباہ ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کیجئے (کہ ان کی یہ مصیبت دور ہو)۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين‏» سے «عائدون‏» تک۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قحط کا یہ عذاب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجہ میں ختم ہو گیا تھا لیکن کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے ٹل جائے گا؟ چنانچہ قحط ختم ہونے کے بعد پھر وہ کفر سے باز نہ آئے، اس کی طرف اشارہ «يوم نبطش البطشة الكبرى‏» میں ہے، یہ بطش کفار پر غزوہ بدر کے موقع پر نازل ہوئی تھی (کہ ان کے بڑے بڑے سردار قتل کر دیئے گئے) اور «لزاما» (قید) سے اشارہ بھی معرکہ بدر ہی کی طرف ہے «الم * غلبت الروم‏» سے «سيغلبون‏» تک کا واقعہ گزر چکا ہے کہ (کہ روم والوں نے فارس والوں پر فتح پالی تھی)۔

Narrated Masruq: While a man was delivering a speech in the tribe of Kinda, he said, "Smoke will prevail on the Day of Resurrection and will deprive the hypocrites their faculties of hearing and seeing. The believers will be afflicted with something like cold only thereof." That news scared us, so I went to (Abdullah) Ibn Mas`ud while he was reclining (and told him the story) whereupon he became angry, sat up and said, "He who knows a thing can say, it, but if he does not know, he should say, 'Allah knows best,' for it is an aspect of knowledge to say, 'I do not know,' if you do not know a certain thing. Allah said to His prophet. 'Say (O Muhammad): No wage do I ask of you for this (Qur'an), nor I am one of the pretenders (a person who pretends things which do not exist.)' (38.86) The Qur'aish delayed in embracing Islam for a period, so the Prophet invoked evil on them, saying, 'O Allah! Help me against them by sending seven years of (famine) like those of Joseph.' So they were afflicted with such a severe year of famine that they were destroyed therein and ate dead animals and bones. They started seeing something like smoke between the sky and the earth (because of severe hunger). Abu Sufyan then came (to the Prophet) and said, "O Muhammad! You came to order us for to keep good relations with Kith and kin, and your kinsmen have now perished, so please invoke Allah (to relieve them).' Then Ibn Mas`ud recited:-- 'Then watch you for the day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible....but truly you will return! (to disbelief) (44.10-15) Ibn Mas`ud added, Then the punishment was stopped, but truly, they reverted to heathenism (their old way). So Allah (threatened them thus): 'On the day when we shall seize you with a mighty grasp.' (44.16) And that was the day of the Battle of Badr. Allah's saying- "Lizama" (the punishment) refers to the day of Badr Allah's Statement: Alif-Lam-Mim, the Romans have been defeated, and they, after their defeat, will be victorious,' (30.1- 3) (This verse): Indicates that the defeat of Byzantine has already passed.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 297

حدیث نمبر: 4809
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن الاعمش، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال: دخلنا على عبد الله بن مسعود، قال:" يا ايها الناس، من علم شيئا فليقل به، ومن لم يعلم فليقل الله اعلم، فإن من العلم ان، يقول: لما لا يعلم الله اعلم، قال الله عز وجل لنبيه صلى الله عليه وسلم: قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86، وساحدثكم عن الدخان، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم دعا قريشا إلى الإسلام، فابطئوا عليه، فقال:" اللهم اعني عليهم بسبع كسبع يوسف"، فاخذتهم سنة، فحصت كل شيء حتى اكلوا الميتة والجلود حتى جعل الرجل يرى بينه وبين السماء دخانا من الجوع، قال الله عز وجل: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين {10} يغشى الناس هذا عذاب اليم {11} سورة الدخان آية 10-11، قال فدعوا: ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون {12} انى لهم الذكرى وقد جاءهم رسول مبين {13} ثم تولوا عنه وقالوا معلم مجنون {14} إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون {15} سورة الدخان آية 12-15، افيكشف العذاب يوم القيامة؟ قال: فكشف، ثم عادوا في كفرهم، فاخذهم الله يوم بدر، قال الله تعالى: يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون سورة الدخان آية 16.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ، يَقُولَ: لِمَا لَا يَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ الدُّخَانِ، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا قُرَيْشًا إِلَى الْإِسْلَامِ، فَأَبْطَئُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ، فَحَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْجُلُودَ حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ دُخَانًا مِنَ الْجُوعِ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ {10} يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ {11} سورة الدخان آية 10-11، قَالَ فَدَعَوْا: رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ {12} أَنَّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ {13} ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ {14} إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ {15} سورة الدخان آية 12-15، أَفَيُكْشَفُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: فَكُشِفَ، ثُمَّ عَادُوا فِي كُفْرِهِمْ، فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ يَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا: اے لوگو! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اگر علم نہ ہو تو کہے کہ اللہ ہی کو زیادہ علم ہے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہہ دیا تھا «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين‏» کہ آپ کہہ دیجئیے کہ میں تم سے اس قرآن یا تبلیغ وحی پر کوئی اجرت نہیں چاہتا ہوں اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہوں۔ اور میں «دخان» (دھوئیں) کے بارے میں بتاؤں گا (جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے تاخیر کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی «اللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف» اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی سی قحط سالی کے ذریعہ میری مدد کر۔ چنانچہ قحط پڑا اور اتنا زبردست کہ ہر چیز ختم ہو گئی اور لوگ مردار اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے۔ بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ حال تھا کہ آسمان کی طرف دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم‏» کہ پس انتظار کرو اس دن کا جب آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا یہ درد ناک عذاب ہے۔ بیان کیا کہ پھر قریش دعا کرنے لگے «ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون * أنى لهم الذكرى وقد جاءهم رسول مبين * ثم تولوا عنه وقالوا معلم مجنون * إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون‏» کہ اے ہمارے رب! اس عذاب کو ہم سے ہٹا لے تو ہم ایمان لائیں گے لیکن وہ نصیحت سننے والے کہاں ہیں ان کے پاس تو رسول صاف معجزات و دلائل کے ساتھ آ چکا اور وہ اس سے منہ موڑ چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اسے تو سکھایا جا رہا ہے، یہ مجنون ہے، بیشک ہم تھوڑے دنوں کے لیے ان سے عذاب ہٹا لیں گے یقیناً تم پھر کفر ہی کی طرف لوٹ جاؤ گے کیا قیامت میں بھی عذاب ہٹایا جائے گا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر یہ عذاب تو ان سے دور کر دیا گیا لیکن جب وہ دوبارہ کفر میں مبتلا ہو گئے تو جنگ بدر میں اللہ نے انہیں پکڑا۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں اسی طرف اشارہ ہے «يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون‏» کہ جس دن ہم سخت پکڑ کریں گے، بلاشبہ ہم بدلہ لینے والے ہیں۔

Narrated Masruq: We came upon `Abdullah bin Mas`ud and he said "O people! If somebody knows something, he can say it, but if he does not know it, he should say, "Allah knows better,' for it is a sign of having knowledge to say about something which one does not know, 'Allah knows better.' Allah said to His Prophet: 'Say (O Muhammad ! ) No wage do I ask of You for this (Qur'an) nor am I one of the pretenders (a person who pretends things which do not exist).' (38.86) Now I will tell you about Ad- Dukhan (the smoke), Allah's Messenger invited the Quraish to embrace Islam, but they delayed their response. So he said, "O Allah! Help me against them by sending on them seven years of famine similar to the seven years of famine of Joseph." So the famine year overtook them and everything was destroyed till they ate dead animals and skins. People started imagining to see smoke between them and the sky because of severe hunger. Allah said: 'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible, covering the people. . . This is painful torment.' (44.10-11) (So they invoked Allah) "Our Lord! Remove the punishment from us really we are believers." How can there be an (effectual) reminder for them when an Apostle, explaining things clearly, has already come to them? Then they had turned away from him and said: 'One taught (by a human being), a madman?' 'We shall indeed remove punishment for a while, but truly, you will revert (to disbelief).' (44.12-15) Will the punishment be removed on the Day of Resurrection?" `Abdullah added, "The punishment was removed from them for a while but they reverted to disbelief, so Allah destroyed them on the Day of Badr. Allah said: 'The day We shall seize you with a mighty grasp. We will indeed (then) exact retribution." (44.16)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 333

حدیث نمبر: 4821
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يحيى، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن مسلم، عن مسروق، قال: قال عبد الله: إنما كان هذا لان قريشا لما استعصوا على النبي صلى الله عليه وسلم دعا عليهم بسنين كسني يوسف، فاصابهم قحط، وجهد حتى اكلوا العظام، فجعل الرجل ينظر إلى السماء، فيرى ما بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد، فانزل الله تعالى: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين {10} يغشى الناس هذا عذاب اليم {11} سورة الدخان آية 10-11، قال: فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل له: يا رسول الله، استسق الله لمضر، فإنها قد هلكت، قال لمضر:" إنك لجريء"، فاستسقى لهم، فسقوا، فنزلت: إنكم عائدون سورة الدخان آية 15، فلما اصابتهم الرفاهية عادوا إلى حالهم حين اصابتهم الرفاهية، فانزل الله عز وجل: يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون سورة الدخان آية 16، قال: يعني يوم بدر.حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا كَانَ هَذَا لِأَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَوْا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ، وَجَهْدٌ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ {10} يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ {11} سورة الدخان آية 10-11، قَالَ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ اللَّهَ لِمُضَرَ، فَإِنَّهَا قَدْ هَلَكَتْ، قَالَ لِمُضَرَ:" إِنَّكَ لَجَرِيءٌ"، فَاسْتَسْقَى لَهُمْ، فَسُقُوا، فَنَزَلَتْ: إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15، فَلَمَّا أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ عَادُوا إِلَى حَالِهِمْ حِينَ أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16، قَالَ: يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ.
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ (قحط) اس لیے پڑا تھا کہ قریش جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے کی بجائے شرک پر جمے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایسے قحط کی بددعا کی جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ ہڈیاں تک کھانے لگے۔ لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھاتے لیکن بھوک اور فاقہ کی شدت کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم‏» تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف نظر آنے والا دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔ بیان کیا کہ پھر ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! قبیلہ مضر کے لیے بارش کی دعا کیجئے کہ وہ برباد ہو چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مضر کے حق میں دعا کرنے کے لیے کہتے ہو، تم بڑے جری ہو۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی اور بارش ہوئی۔ اس پر آیت «إنكم عائدون‏» نازل ہوئی (یعنی اگرچہ تم نے ایمان کا وعدہ کیا ہے لیکن تم کفر کی طرف پھر لوٹ جاؤ گے) چنانچہ جب پھر ان میں خوشحالی ہوئی تو شرک کی طرف لوٹ گئے (اور اپنے ایمان کے وعدے کو بھلا دیا) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون‏‏» جس روز ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے (اس روز) ہم پورا بدلہ لے لیں گے۔ بیان کیا اس آیت سے مراد بدر کی لڑائی ہے۔

Narrated `Abdullah: It (i.e., the imagined smoke) was because, when the Quraish refused to obey the Prophet, he asked Allah to afflict them with years of famine similar to those of (Prophet) Joseph. So they were stricken with famine and fatigue, so much so that they ate even bones. A man would look towards the sky and imagine seeing something like smoke between him and the sky because of extreme fatigue. So Allah revealed:-- 'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible, covering the people; this is a painfull of torment.' (44.10-11) Then someone (Abu Sufyan) came to Allah's Messenger and said, "O Allah's Messenger ! Invoke Allah to send rain for the tribes of Mudar for they are on the verge of destruction." On that the Prophet said (astonishingly) "Shall I invoke Allah) for the tribes of Mudar? Verily, you are a brave man!" But the Prophet prayed for rain and it rained for them. Then the Verse was revealed. 'But truly you will return (to disbelief).' (44.15) (When the famine was over and) they restored prosperity and welfare, they reverted to their ways (of heathenism) whereupon Allah revealed: 'On the Day when We shall seize you with a Mighty Grasp. We will indeed (then) exact retribution.' (44.16) The narrator said, "That was the day of the Battle of Badr."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 346

حدیث نمبر: 4822
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن الاعمش، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال: دخلت على عبد الله، فقال: إن من العلم ان تقول لما لا تعلم الله اعلم إن الله، قال لنبيه صلى الله عليه وسلم: قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86، إن قريشا لما غلبوا النبي صلى الله عليه وسلم واستعصوا عليه، قال:" اللهم اعني عليهم بسبع كسبع يوسف"، فاخذتهم سنة اكلوا فيها العظام، والميتة من الجهد حتى جعل احدهم يرى ما بينه وبين السماء كهيئة الدخان من الجوع، قالوا: ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون سورة الدخان آية 12، فقيل له: إن كشفنا عنهم عادوا فدعا ربه، فكشف عنهم فعادوا فانتقم الله منهم يوم بدر فذلك قوله تعالى: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين إلى قوله جل ذكره إنا منتقمون سورة الدخان آية 10 - 16.حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ إِنَّ اللَّهَ، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، إِنَّ قُرَيْشًا لَمَّا غَلَبُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْع يُوسُفَ"، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ أَكَلُوا فِيهَا الْعِظَامَ، وَالْمَيْتَةَ مِنَ الْجَهْدِ حَتَّى جَعَلَ أَحَدُهُمْ يَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجُوعِ، قَالُوا: رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ سورة الدخان آية 12، فَقِيلَ لَهُ: إِنْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَادُوا فَدَعَا رَبَّهُ، فَكَشَفَ عَنْهُمْ فَعَادُوا فَانْتَقَمَ اللَّهُ مِنْهُمْ يَوْمَ بَدْرٍ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 10 - 16.
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی علم ہی ہے کہ تمہیں اگر کوئی بات معلوم نہیں ہے تو اس کے متعلق یوں کہہ دو کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ میں تم سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرتا ہوں جب قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے اور آپ کے ساتھ معاندانہ روش میں برابر بڑھتے ہی رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط کے ذریعہ کر جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط پڑا اور بھوک کی شدت کا یہ حال ہوا کہ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے لگ گئے۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے لیکن فاقہ کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا۔ آخر انہوں نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے اس عذاب کو دور کر، ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہم نے یہ عذاب دور کر دیا تو پھر بھی تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا کی اور یہ عذاب ان سے ہٹ گیا لیکن وہ پھر بھی کفر و شرک پر ہی جمے رہے، اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے بدر کی لڑائی میں لیا۔ یہی واقعہ آیت «يوم تأتي السماء بدخان مبين‏» آخر تک میں بیان ہوا ہے۔

Narrated `Abdullah: It is a sign of having knowledge that, when you do not know something, you say: 'Allah knows better.' Allah said to his Prophet: 'Say: No wage do I ask of you for this (Qur'an), nor am I one of the pretenders (a person who pretends things which do not exist)' (38.86) When the Quraish troubled and stood against the Prophet he said, "O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine like the seven years of Joseph." So they were stricken with a year of famine during which they ate bones and dead animals because of too much suffering, and one of them would see something like smoke between him and the sky because of hunger. Then they said: Our Lord! Remove the torment from us, really we are believers. (44.12) And then it was said to the Prophet (by Allah), "If we remove it from them. they will revert to their ways (of heathenism)." So the Prophet invoked his Lord, who removed the punishment from them, but later they reverted (to heathenism), whereupon Allah punished them on the day of the Battle of Badr, and that is what Allah's Statement indicates: 'Then watch for the day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible...we will indeed (then) exact retribution.' (44.10).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 347

حدیث نمبر: 4823
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا جرير بن حازم، عن الاعمش، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال: دخلت على عبد الله، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما دعا قريشا كذبوه، واستعصوا عليه، فقال:" اللهم اعني عليهم بسبع كسبع يوسف"، فاصابتهم سنة حصت يعني كل شيء حتى كانوا ياكلون الميتة، فكان يقوم احدهم، فكان يرى بينه وبين السماء مثل الدخان من الجهد والجوع، ثم قرا: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب اليم حتى بلغ إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون سورة الدخان آية 10 - 15، قال عبد الله: افيكشف عنهم العذاب يوم القيامة، قال: والبطشة الكبرى يوم بدر.حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَعَا قُرَيْشًا كَذَّبُوهُ، وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ يَعْنِي كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى كَانُوا يَأْكُلُونَ الْمَيْتَةَ، فَكَانَ يَقُومُ أَحَدُهُمْ، فَكَانَ يَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ مِثْلَ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ وَالْجُوعِ، ثُمَّ قَرَأَ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ حَتَّى بَلَغَ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 10 - 15، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: وَالْبَطْشَةُ الْكُبْرَى يَوْمَ بَدْرٍ.
سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور آپ کے ساتھ سرکشی کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ! میری ان کے خلاف یوسف علیہ السلام جیسے قحط کے ذریعہ مدد فرما۔ چنانچہ قحط پڑا اور ہر چیز ختم ہو گئی۔ لوگ مردار کھانے لگے۔ کوئی شخص کھڑا ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک اور فاقہ کی وجہ سے آسمان اور اس کے درمیان دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت شروع کی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم‏» تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف سے نظر آنے والا ایک دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔ بیشک ہم چندے اس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم بھی اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا قیامت کے عذاب سے بھی وہ بچ سکیں گے؟ فرمایا کہ سخت پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی تھی۔

Narrated Masruq: I came upon `Abdullah and he said, "When Allah's Messenger invited Quraish (to Islam), they disbelieved him and stood against him. So he (the Prophet) said, "O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine similar to the seven years of Joseph.' So they were stricken with a year of drought that destroyed everything, and they started eating dead animals, and if one of them got up he would see something like smoke between him and the sky from the severe fatigue and hunger." `Abdullah then recited:-- 'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible, covering the people. This is a painful torment... (till he reached) ........ We shall indeed remove the punishment for a while, but truly you will revert (to heathenism): (44.10-15) `Abdullah added: "Will the punishment be removed from them on the Day of Resurrection?" He added," The severe grasp" was the Day of the Battle of Badr."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 348

حدیث نمبر: 4824
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا بشر بن خالد، اخبرنا محمد، حدثنا شعبة، عن سليمان، ومنصور، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال: قال عبد الله، إن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم، وقال: قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما راى قريشا استعصوا عليه، فقال:" اللهم اعني عليهم بسبع كسبع يوسف"، فاخذتهم السنة حتى حصت كل شيء حتى اكلوا العظام والجلود، فقال احدهم: حتى اكلوا الجلود والميتة، وجعل يخرج من الارض كهيئة الدخان، فاتاه ابو سفيان: فقال: اي محمد إن قومك قد هلكوا، فادع الله ان يكشف عنهم، فدعا، ثم قال:" تعودون بعد هذا في حديث منصور"، ثم قرا: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين إلى عائدون سورة الدخان آية 10 - 15 انكشف عذاب الآخرة فقد مضى الدخان، والبطشة، واللزام، وقال احدهم: القمر، وقال الآخر: والروم.حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، وَمَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَخَذَتْهُمُ السَّنَةُ حَتَّى حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ وَالْجُلُودَ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ، وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ: فَقَالَ: أَيْ مُحَمَّدُ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَكْشِفَ عَنْهُمْ، فَدَعَا، ثُمَّ قَالَ:" تَعُودُونَ بَعْدَ هَذَا فِي حَدِيثِ مَنْصُورٍ"، ثُمَّ قَرَأَ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى عَائِدُونَ سورة الدخان آية 10 - 15 أَنَكْشِفُ عَذَابَ الْآخِرَةِ فَقَدْ مَضَى الدُّخَانُ، وَالْبَطْشَةُ، وَاللِّزَامُ، وَقَالَ أَحَدُهُمْ: الْقَمَرُ، وَقَالَ الْآخَرُ: وَالرُّومُ.
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اور منصور نے، انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين‏» کہ کہہ دو کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرنے والوں میں سے ہوں۔ پھر جب آپ نے دیکھا کہ قریش عناد سے باز نہیں آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط سے کر جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ (پھر) قحط پڑا اور پر چیز ختم ہو گئی۔ لوگ ہڈیاں اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے (سلیمان اور منصور) راویان حدیث میں سے ایک نے بیان کیا کہ وہ چمڑے اور مردار کھانے پر مجبور ہو گئے اور زمین سے دھواں سا نکلنے لگا۔ آخر ابوسفیان آئے اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی قوم ہلاک ہو چکی، اللہ سے دعا کیجئے کہ ان سے قحط کو دور کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور قحط ختم ہو گیا۔ لیکن اس کے بعد وہ پھر کفر کی طرف لوٹ گئے۔ منصور کی روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين‏» تو آپ اس روز کا انتظار کریں جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔ «عائدون‏» تک۔ کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے دور ہو سکے گا؟ دھواں اور سخت پکڑ اور ہلاکت گزر چکے۔ بعض نے چاند اور بعض نے غلبہ روم کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بھی گزر چکا ہے۔

Narrated `Abdullah: Allah sent (the Prophet) Muhammad and said:-- 'Say, No wage do I ask of you for this (Qur'an) nor am I one of the pretenders (i.e. a person who pretends things which do not exist). (38.68) When Allah's Messenger saw Quraish standing against him, he said, "O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine similar to the seven years (of famine) of Joseph. So they were afflicted with a year of drought that destroyed everything, and they ate bones and hides. (One of them said), "And they ate hides and dead animals, and (it seemed to them that) something like smoke was coming out of the earth. So Abu Sufyan came to the Prophet and said, "O Muhammad! Your people are on the verge of destruction! Please invoke Allah to relieve them." So the Prophet invoked Allah for them (and the famine disappeared). He said to them. "You will revert (to heathenism) after that." `Abdullah then recited: 'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible.......but truly you will revert (to disbelief).' He added, "Will the punishment be removed from them in the Hereafter? The smoke and the grasp and the Al-Lizam have all passed." One of the sub-narrater said, "The splitting of the moon." And another said, "The defeat of the Romans (has passed).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 349


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.