حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: جھاڑ پھونک
تمام کتب میں
62 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 100 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 4122 --- ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ غزوہ خندق کے موقع پر سعد ؓ زخمی ہو گئے تھے ۔ قریش کے ایک کافر شخص ‘ حسان بن عرفہ نامی نے ان پر تیر چلایا تھا اور وہ ان کے بازو کی رگ میں آ کے لگا تھا ۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا تھا تاکہ قریب سے ان کی عیادت کرتے رہیں ۔ پھر جب آپ غزوہ خندق سے واپس ہوئے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا تو جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے ۔ وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے ۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہا آپ نے ہتھیار رکھ دیئے ۔ اللہ کی قسم ! ابھی میں نے ہتھیار نہیں اتارے ہیں ۔ آپ کو ان پر فوج کشی کرنی ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کن پر ؟ تو انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا ۔ آپ ﷺ بنو قریظہ تک پہنچے (اور انہوں نے اسلامی لشکر کے پندرہ دن کے سخت محاصرہ کے بعد) سعد بن معاذ ؓ کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے ۔ آپ ﷺ نے سعد ؓ کو فیصلہ کا اختیار دیا ۔ سعد ؓ نے کہا کہ میں ان کے بارے میں فیصلہ کرتا ہوں کہ جتنے لوگ ان کے جنگ کرنے کے قابل ہیں وہ قتل کر دیئے جائیں ‘ ان کی عورتیں اور بچے قید کر لیے جائیں اور ان کا مال تقسیم کر لیا جائے ۔ ہشام نے بیان کیا کہ پھر مجھے میرے والد نے عائشہ ؓ سے خبر دی کہ سعد ؓ نے یہ دعا کی تھی ” اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز عزیز نہیں کہ میں تیرے راستے میں اس قوم سے جہاد کروں جس نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور انہیں ان کے وطن سے نکالا لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تو نے ہماری اور ان کی لڑائی اب ختم کر دی ہے ۔ لیکن اگر قریش سے ہماری لڑائی کا کوئی بھی سلسلہ ابھی باقی ہو تو مجھے اس کے لیے زندہ رکھنا ۔ یہاں تک کہ میں تیرے راستے میں ان سے جہاد کروں اور اگر لڑائی کے سلسلے کو تو نے ختم ہی کر دیا ہے تو میرے زخموں کو پھر سے ہرا کر دے اور اسی میں میری موت واقع کر دے ۔ اس دعا کے بعد سینے پر ان کا زخم پھر سے تازہ ہو گیا ۔ مسجد میں قبیلہ بنو غفار کے کچھ صحابہ کا بھی ایک خیمہ تھا ۔ خون ان کی طرف بہہ کر آیا تو وہ گھبرائے اور انہوں نے کہا : اے خیمہ والو ! تمہاری طرف سے یہ خون ہماری طرف بہہ کر آ رہا ہے ؟ دیکھا تو سعد ؓ کے زخم سے خون بہہ رہا تھا ‘ ان کی وفات اسی...
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  7k
حدیث نمبر: 3917 --- ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا ، کہا کہ ان سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم بن یوسف نے ، ان سے ان کے والد یوسف بن اسحاق نے ، ان سے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب ؓ سے حدیث سنی وہ بیان کرتے تھے کہ ابوبکر ؓ نے عازب ؓ سے ایک پالان خریدا اور میں ان کے ساتھ اٹھا کر پہنچانے لایا تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ سے عازب ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے سفر ہجرت کا حال پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ چونکہ ہماری نگرانی ہو رہی تھی (یعنی کفار ہماری تاک میں تھے) اس لیے ہم (غار سے) رات کے وقت باہر آئے اور پوری رات اور دن بھر بہت تیزی کے ساتھ چلتے رہے ، جب دوپہر ہوئی تو ہمیں ایک چٹان دکھائی دی ۔ ہم اس کے قریب پہنچے تو اس کی آڑ میں تھوڑا سا سایہ بھی موجود تھا ۔ ابوبکر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے ایک چمڑا بچھا دیا جو میرے ساتھ تھا ۔ آپ اس پر لیٹ گئے ، اور میں قرب و جوار کی گرد جھاڑنے لگا ۔ اتفاق سے ایک چرواہا نظر پڑا جو اپنی بکریوں کے تھوڑے سے ریوڑ کے ساتھ اسی چٹان کی طرف آ رہا تھا اس کا مقصد اس چٹان سے وہی تھا جس کے لیے ہم یہاں آئے تھے (یعنی سایہ حاصل کرنا) میں نے اس سے پوچھا لڑکے تو کس کا غلام ہے ؟ اس نے بتایا کہ فلاں کا ہوں ۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی بکریوں سے کچھ دودھ نکال سکتے ہو اس نے کہا کہ ہاں پھر وہ اپنے ریوڑ سے ایک بکری لایا تو میں نے اس سے کہا کہ پہلے اس کا تھن جھاڑ لو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر اس نے کچھ دودھ دوہا ۔ میرے ساتھ پانی کا ایک چھاگل تھا ۔ اس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا ۔ یہ پانی میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے ساتھ لے رکھا تھا ۔ وہ پانی میں نے اس دودھ پر اتنا ڈالا کہ وہ نیچے تک ٹھنڈا ہو گیا تو میں اسے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا دودھ نوش فرمایئے یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے اسے نوش فرمایا جس سے مجھے بہت خوشی حاصل ہوئی ۔ اس کے بعد ہم نے پھر کوچ شروع کیا اور ڈھونڈنے والے لوگ ہماری تلاش میں تھے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  6k
حدیث نمبر: 604 --- ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے ، کہا کہ ہمیں عبدالملک ابن جریج نے خبر دی ، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر ؓ کہتے تھے کہ جب مسلمان (ہجرت کر کے) مدینہ پہنچے تو وقت مقرر کر کے نماز کے لیے آتے تھے ۔ اس کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی ۔ ایک دن اس بارے میں مشورہ ہوا ۔ کسی نے کہا نصاریٰ کی طرح ایک گھنٹہ لے لیا جائے اور کسی نے کہا کہ یہودیوں کی طرح نرسنگا (بگل بنا لو ، اس کو پھونک دیا کرو) لیکن عمر ؓ نے فرمایا کہ کسی شخص کو کیوں نہ بھیج دیا جائے جو نماز کے لیے پکار دیا کرے ۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے (اسی رائے کو پسند فرمایا اور بلال سے) فرمایا کہ بلال ! اٹھ اور نماز کے لیے اذان دے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: اذان کی ابتداء کیسے ہوئی ۔
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  3k
حدیث نمبر: 347 --- ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہمیں ابومعاویہ نے خبر دی اعمش سے ، انہوں نے شقیق سے ، انہوں نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود ؓ اور ابوموسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں حاضر تھا ۔ ابوموسیٰ ؓ نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے ؟ شقیق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے (اور نماز موقوف رکھے) ابوموسیٰ ؓ نے اس پر کہا کہ پھر سورۃ المائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا ” اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو ۔ “ عبداللہ بن مسعود ؓ بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے ۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا ۔ انہوں نے کہا ہاں ۔ پھر ابوموسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا کہ کیا آپ کو عمار کا عمر بن خطاب ؓ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا ۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی ، لیکن پانی نہ ملا ۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا ۔ پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا ۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا ۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا ۔ عبداللہ نے اس کا جواب دیا کہ آپ عمر کو نہیں دیکھتے کہ انہوں نے عمار کی بات پر قناعت نہیں کی تھی ۔ اور یعلیٰ ابن عبید نے اعمش کے واسطہ سے شقیق سے روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابوموسیٰ کی خدمت میں تھا اور ابوموسیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ نے عمر سے عمار کا یہ قول نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور آپ کو بھیجا ۔ پس مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا ۔ پھر میں رات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے صورت حال کے متعلق ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  7k
حدیث نمبر: 5360 --- حکم البانی: صحيح... نضر بن انس کہتے ہیں کہ میں ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس اہل عراق میں سے ایک شخص آیا اور بولا : میں یہ تصویریں بناتا ہوں ، آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : قریب آؤ ۔ میں نے محمد ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ” جس نے دنیا میں کوئی صورت بنائی قیامت کے روز اسے حکم ہو گا کہ اس میں روح پھونکے ، حالانکہ وہ اس میں روح نہیں پھونک سکے گا “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  2k
حدیث نمبر: 1497 --- حکم البانی: صحيح... عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سورج گرہن لگا ، تو آپ نے نماز پڑھی ، تو لمبا قیام کیا ، پھر آپ نے رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا ، پھر (رکوع سے) سر اٹھایا تو دیر تک کھڑے رہے (شعبہ کہتے ہیں : میرا گمان ہے عطاء نے سجدے کے سلسلہ میں بھی یہی بات کہی ہے) اور آپ سجدے میں رونے اور پھونک مارنے لگے ، آپ فرما رہے تھے : ” میرے رب ! تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا ، میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں ، تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا اور حال یہ ہے کہ میں لوگوں میں موجود ہوں “ ، جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا : ” مجھ پر جنت پیش کی گئی یہاں تک کہ اگر میں اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا تو میں اس کے پھلوں گچھوں میں سے توڑ لیتا ، نیز مجھ پر جہنم پیش کی گئی تو میں پھونکنے لگا اس ڈر سے کہ کہیں اس کی گرمی تمہیں نہ ڈھانپ لے ، اور میں نے اس میں اس چور کو دیکھا جو رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں کو چرایا تھا ، اور میں نے اس میں بنو دعدع کے اس شخص کو دیکھا جو حاجیوں کا مال چرایا کرتا تھا ، اور جب وہ پہچان لیا جاتا تو کہتا : یہ (میری اس) خمدار لکڑی کا کام ہے ، اور میں نے اس میں ایک کالی لمبی عورت کو دیکھا جسے ایک بلی کے سبب عذاب ہو رہا تھا ، جسے اس نے باندھ رکھا تھا ، نہ تو وہ اسے کھلاتی پلاتی تھی اور نہ ہی اسے آزاد چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لے ، یہاں تک کہ وہ مر گئی ، اور سورج اور چاند نہ تو کسی کے مرنے کی وجہ سے گہناتے ہیں ، اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے ، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، لہٰذا جب ان میں سے کوئی گہنا جائے (یا کہا : ان دونوں میں سے کوئی اس میں سے کچھ کرے ، یعنی گہنا جائے) تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  6k
حدیث نمبر: 320 --- حکم البانی: صحيح... عبدالرحمٰن بن ابزی ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص عمر ؓ کے پاس آیا ، اور کہنے لگا : میں جنبی ہو گیا ہوں ، اور مجھے پانی نہیں ملا (کیا کروں ؟) تو عمر ؓ نے کہا : (جب تک پانی نہ ملے) تم نماز نہ پڑھو ، اس پر عمار ؓ نے کہا : امیر المؤمنین ! کیا آپ کو یاد نہیں ؟ جب میں اور آپ دونوں ایک سریہ میں تھے ، تو ہم جنبی ہو گئے ، اور ہمیں پانی نہیں ملا ، تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی ، لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا ، پھر میں نے نماز پڑھ لی ، تو جب ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تمہارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا “ ، اور نبی اکرم ﷺ نے زمین پر اپنے دونوں ہاتھ مارے ، پھر ان میں پھونک ماری ، پھر ان دونوں سے اپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کا مسح کیا ۔ سلمہ نے شک کیا اور کہا : مجھے نہیں معلوم کہ (میرے شیخ ذر نے دونوں کہنیوں تک مسح کا ذکر کیا یا دونوں ہتھیلیوں تک) ۔ عمر ؓ نے کہا : اس سلسلہ میں جو تم کہہ رہے ہو اس کی ذمہ داری ہم تمہارے ہی سر ڈالتے ہیں شعبہ کہتے ہیں : سلمہ دونوں ہتھیلیوں ، چہرے اور دونوں بازؤوں کا ذکر کر رہے تھے ، تو منصور نے ان سے کہا : یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ آپ کے سوا کسی اور نے بازؤوں کا ذکر نہیں کیا ہے ، تو سلمہ شک میں پڑ گئے اور کہنے لگے مجھے نہیں معلوم کہ (ذر نے) بازؤوں کا ذکر کیا یا نہیں ؟ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  5k
حدیث نمبر: 1500 --- ‏‏‏‏ سیدنا انس بن مالک ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اخلاق میں سب سے اچھے تھے ۔ اور کبھی آپ ﷺ کو نماز کا وقت آ جاتا اور آپ ﷺ ہمارے گھر میں ہوتے تو حکم کرتے ہمارے بچھونے کو جو آپ ﷺ کے نیچے ہوتا کہ اس کو جھاڑ دیتے ، پھر پانی چھڑک دیتے ، پھر رسول اللہ ﷺ امامت فرماتے اور ہم لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو جاتے اور آپ ﷺ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے اور ان کا بچھونا کھجور کے پتوں کا تھا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  2k
حدیث نمبر: 451 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : کیا ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے قیامت کے روز ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”کیا تم ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہو ؟ چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں ؟ (یعنی ازدحام اور ہجوم کی وجہ سے) یا تم کو کچھ تکلیف ہوتی ہے ، چودھویں رات کے چاند دیکھنے میں ؟ “ لوگوں نے کہا : نہیں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا : ”بھلا تم کو کچھ مشقت ہوتی ہے یا ایک دوسرے کو صدمہ پہنچاتے ہو سورج کے دیکھنے میں جس وقت کہ بادل نہ ہو ؟ “ (اور آسمان صاف ہو) لوگوں نے کہا : نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”پھر اسی طرح (یعنی بغیر تکلیف اور مشقت اور زحمت اور ازدحام کے) تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے حق تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن جمع کرے گا ۔ تو فرما دے گا جو کوئی جس کو پوجتا تھا اس کے ساتھ ہو جائے پھر جو شخص آفتاب کو پوجتا تھا وہ سورج کے ساتھ ہو گا اور جو چاند کو پوجتا تھا وہ چاند کے ساتھ اور جو طاغوت کو پوجتا تھا وہ طاغوت کے ساتھ اور یہ امت محمدیہ ﷺ باقی رہ جائے گی اس میں منافق لوگ بھی ہوں گے ، پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئے گا ایسی صورت میں جس کو وہ نہ پہچانیں گے اور کہے گا : میں تمہارا پروردگار ہوں وہ کہیں گے : اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ہم تجھ سے اور ہم اسی جگہ ٹھہرے ہیں یہاں تک کہ ہمارا پروردگار آئے گا تو ہم اس کو پہچان لیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئے گا اور کہے گا : میں تمہارا رب ہوں ۔ وہ کہیں گے : تو ہمارا رب ہے ، پھر اس کے ساتھ ہو جائیں گے اور دوزخ کی پشت پر پل رکھا جائے گا ۔ تو میں اور میری امت سب سے پہلے پار ہوں گے اور سوائے پیغمبروں کے اور کوئی اس دن بات نہ کر سکے گا اور پیغمبروں کا بول اس وقت یہ ہو گا ۔ « اللَّہُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ » یا اللہ ! بچائیو (یہ شفقت کی راہ سے کہیں گے اور خلق پر) اور دوزخ میں آنکڑے ہیں (لوہے کے جن کا سر ٹیڑھا ہوتا ہے اور تنور میں گوشت جب ڈالتے ہیں تو آنکڑوں میں لگا کر ڈالتے ہیں) جیسے سعدان کے کانٹے ۔ “ (سعدان ایک جھاڑ ہے کانٹوں دار) آپ ﷺ نے فرمایا صحابہ ؓ سے ، تم نے سعدان کو دیکھا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں دیکھا ہے یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا : ”پس وہ آنکڑے سعدان کے کانٹوں کی وضع پر ہوں گے ۔ (یعنی سرخم) پر یہ کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے کہ وہ آنکڑے کتنے بڑے بڑے ہوں گے ، وہ لوگوں کو دو...
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  20k
حدیث نمبر: 2305 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوذر ؓ نے کہا کہ میں نکلا ایک رات اور دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اکیلے جا رہے تھے ۔ کوئی آپ ﷺ کے ساتھ نہیں ، تو میں سمجھا کہ آپ ﷺ کو منظور ہے کہ کوئی ساتھ نہ آئے (ورنہ صحابہ کب آپ ﷺ کو اکیلا چھوڑتے تھے) تو میں یہ سمجھ کر چاندنی کے سایہ میں چلنے لگا (تاکہ آپ ان کو نہ دیکھیں) تو آپ ﷺ نے میری طرف مڑ کر دیکھا اور فرمایا : ”یہ کون ہے ؟ “ میں نے عرض کی ابوذر اللہ مجھ کو آپ پر فدا کرے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ابوذر آؤ ! “ پھر آپ ﷺ کے ساتھ میں چلا ، تھوڑی دیر اور آپ ﷺ نے فرمایا : ”جو لوگ دنیا میں بہت مال والے ہیں وہ کم درجہ والے ہیں قیامت کے دن مگر جسے اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ پھونک پر اڑا دے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے اور کرے اس مال سے بہت خوبیاں ۔ “ پھر انہوں نے کہا : میں آپ ﷺ کے ساتھ تھوڑی دیر ٹہلتا رہا پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ”یہاں بیٹھو ۔ “ (اور مجھے ایک صاف زمین پر بٹھا دیا کہ اس کے گرد کالے پتھر تھے) اور مجھ سے فرمایا : ”تم یہیں بیٹھے رہو جب تک میں لوٹ کر آؤں ۔ “ اور آپ ﷺ چلے گئے ان پتھروں میں یہاں تک کہ میں آپ ﷺ کو نہ دیکھتا تھا اور وہاں بہت دیر تک ٹھہرے رہے ، پھر میں نے سنا کہ آپ ﷺ کہتے چلے آ رہے تھے کہ ”اگر چوری کرے اور زنا کرے ؟ “ پھر آئے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے (سبحان اللہ ! یہ کمال محبت کا فقرہ ہے کہ صحابہ ؓ کے زباں زد رہتا تھا) کون تھا ان کالے پتھروں میں ؟ میں نے تو کسی کو نہ دیکھا جو آپ ﷺ کو جواب دیتا آپ ﷺ نے فرمایا : ”جبرائیل علیہ السلام تھے کہ وہ میرے آگے آئے ان پتھروں میں اور فرمایا : بشارت دو اپنی امت کو کہ جو مرا اور اس نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ میں نے کہا : ”اے جبرائیل ! اگرچہ وہ چوری کرے اور زنا کرے ؟ “ انہوں نے کہا : ہاں ۔ میں نے دوبارہ پھر کہا : ”اگرچہ وہ چوری کرے اور زنا کرے ؟ “ انہوں نے کہا : ہاں ۔ میں نے تیسری بار پھر کہا : ”اگرچہ وہ چوری اور زنا کرے ؟ “ انہوں نے کہا : ہاں اگرچہ وہ شراب بھی پیئے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  7k
حدیث نمبر: 322 --- حکم البانی: صحيح إلا قوله إلى نصف الذراع فإنه شاذ... عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کہتے ہیں کہ میں عمر ؓ کے پاس تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا : بسا اوقات ہم کسی جگہ ماہ دو ماہ ٹھہرے رہتے ہیں (جہاں پانی موجود نہیں ہوتا اور ہم جنبی ہو جاتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟) عمر ؓ نے کہا : جہاں تک میرا معاملہ ہے تو جب تک مجھے پانی نہ ملے میں نماز نہیں پڑھ سکتا ، وہ کہتے ہیں : اس پر عمار ؓ نے کہا : امیر المؤمنین ! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ اونٹوں میں تھے (اونٹ چراتے تھے) اور ہمیں جنابت لاحق ہو گئی ، بہرحال میں تو مٹی (زمین) پر لوٹا ، پھر ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تمہیں بس اس طرح کر لینا کافی تھا “ اور آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان پر پھونک ماری اور اپنے چہرے اور اپنے دونوں ہاتھوں پر نصف ذراع تک پھیر لیا ، اس پر عمر ؓ نے کہا : عمار ! اللہ سے ڈرو ، انہوں نے کہا : امیر المؤمنین ! اگر آپ چاہیں تو قسم اللہ کی میں اسے کبھی ذکر نہ کروں ، عمر ؓ نے کہا : ہرگز نہیں ، قسم اللہ کی ہم تمہاری بات کا تمہیں اختیار دیتے ہیں ، یعنی معاملہ تم پر چھوڑتے ہیں تم اسے بیان کرنا چاہو تو کرو ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  4k
حدیث نمبر: 4742 --- حکم البانی: صحيح... عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” « صور » ایک سنکھ ہے ، جس میں پھونک ماری جائے گی “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  1k
حدیث نمبر: 318 --- حکم البانی: صحيح... عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عمر بن خطاب ؓ سے تیمم کے متعلق سوال کیا ، تو وہ نہیں جان سکے کہ کیا جواب دیں ، عمار ؓ نے کہا : کیا آپ کو یاد ہے ؟ جب ہم ایک سریہ (فوجی مہم) میں تھے ، اور میں جنبی ہو گیا تھا ، تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا ، پھر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تمہارے لیے اس طرح کر لینا ہی کافی تھا “ ، شعبہ نے (تیمم کا طریقہ بتانے کے لیے) اپنے دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر مارے ، پھر ان میں پھونک ماری ، اور ان دونوں سے اپنے چہرہ اور اپنے دونوں ہتھیلیوں پر ایک بار مسح کیا “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  2k
حدیث نمبر: 3722 --- حکم البانی: صحيح... ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے پیالہ کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے ، اور پینے کی چیزوں میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  1k
حدیث نمبر: 2887 --- حکم البانی: صحيح... جابر ؓ کہتے ہیں میں بیمار ہوا اور میرے پاس سات بہنیں تھیں ، رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے اور میرے چہرے پر پھونک ماری تو مجھے ہوش آ گیا ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا میں اپنی بہنوں کے لیے ثلث مال کی وصیت نہ کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : ” نیکی کرو “ ، میں نے کہا آدھے مال کی وصیت کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” نیکی کرو “ ، پھر آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور آپ ﷺ نے فرمایا : ” جابر ! میرا خیال ہے تم اس بیماری سے نہیں مرو گے ، اور اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام اتارا ہے اور تمہاری بہنوں کا حصہ بیان کر دیا ہے ، ان کے لیے دو ثلث مقرر فرمایا ہے “ ۔ جابر کہا کرتے تھے کہ یہ آیت « يستفتونك قل اللہ يفتيكم في الكلالۃ » میرے ہی متعلق نازل ہوئی ہے ۔ ... (ص/ح) ... حدیث متعلقہ ابواب: شان نزول و تفسیر آیات ۔
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  3k
حدیث نمبر: 2039 --- حکم البانی: صحيح... جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” رسول اللہ ﷺ کے حرم سے نہ درخت کاٹے جائیں اور نہ پتے توڑے جائیں البتہ نرمی سے جھاڑ لیے جائیں “ ۔ ... (ض)
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  1k
حدیث نمبر: 1849 --- حکم البانی: صحيح... عبداللہ بن حارث سے روایت ہے (حارث طائف میں عثمان ؓ کے خلیفہ تھے) وہ کہتے ہیں حارث نے عثمان ؓ کے لیے کھانا تیار کیا ، اس میں چکور ، نر چکور اور نیل گائے کا گوشت تھا ، وہ کہتے ہیں : انہوں نے علی ؓ کو بلا بھیجا چنانچہ قاصد ان کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ اپنے اونٹوں کے لیے چارہ تیار کر رہے ہیں ، اور اپنے ہاتھ سے چارا جھاڑ رہے تھے جب وہ آئے تو لوگوں نے ان سے کہا : کھاؤ ، تو وہ کہنے لگے : لوگوں کو کھلاؤ جو حلال ہوں (احرام نہ باندھے ہوں) میں تو محرم ہوں تو انہوں نے کہا : میں قبیلہ اشجع کے ان لوگوں سے جو اس وقت یہاں موجود ہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص نے نیل گائے کا پاؤں ہدیہ بھیجا تو آپ نے کھانے سے انکار کیا کیونکہ آپ حالت احرام میں تھے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں ۔ ... (ض)
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  3k
حدیث نمبر: 1194 --- حکم البانی: صحيح لكن بذكر الركوع مرتين كما في الصحيحين... عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا ، تو آپ نماز کسوف کے لیے کھڑے ہوئے تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ رکوع ہی نہیں کریں گے ، پھر رکوع کیا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ رکوع سے سر اٹھائیں گے ہی نہیں ، پھر سر اٹھایا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ سجدہ ہی نہیں کریں گے ، پھر سجدہ کیا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ سجدے سے سر ہی نہیں اٹھائیں گے ، پھر سجدے سے سر اٹھایا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ سجدہ ہی نہیں کریں گے ، پھر سجدہ کیا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ سجدے سے سر ہی نہیں اٹھائیں گے ، پھر آپ ﷺ نے سجدہ سے سر اٹھایا ، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا ، پھر اخیر سجدے میں آپ ﷺ نے پھونک ماری اور ” اف اف “ کہا : پھر فرمایا : ” اے میرے رب ! کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ تو انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک میں ان میں رہوں گا ؟ کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ تو انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے ؟ “ ، پھر رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے اور حال یہ تھا کہ سورج بالکل صاف ہو گیا تھا ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  4k
حدیث نمبر: 512 --- حکم البانی: ضعيف... عبداللہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اذان کے سلسلہ میں کئی کام کرنے کا (جیسے ناقوس بجانے یا سنکھ میں پھونک مارنے کا) ارادہ کیا لیکن ان میں سے کوئی کام کیا نہیں ۔ محمد بن عبداللہ کہتے ہیں : پھر عبداللہ بن زید ؓ کو خواب میں اذان دکھائی گئی تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اسے بلال کو سکھا دو “ ، چنانچہ عبداللہ بن زید ؓ نے اسے بلال ؓ کو سکھا دیا ، اور بلال ؓ نے اذان دی ، اس پر عبداللہ بن زید ؓ نے کہا : اسے میں نے دیکھا تھا اور میں ہی اذان دینا چاہتا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو تم تکبیر کہہ لو “ ۔ ... (ض)
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  3k
حدیث نمبر: 324 --- حکم البانی: صحيح دون الشك والمحفوظ وكفيه... اس سند سے بھی عبدالرحمٰن بن ابزی سے عمار بن یاسر ؓ کے واسطہ سے یہی قصہ مروی ہے ، اس میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا : ” تمہیں بس اتنا کر لینا کافی تھا “ ، اور پھر نبی اکرم ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا ، پھر اس میں پھونک مار کر اپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں پر پھیر لیا ، سلمہ کو شک ہے ، وہ کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ اس میں « إلى المرفقين » ہے یا « إلى الكفين‏. » (یعنی آپ ﷺ نے کہنیوں تک پھیرا ، یا پہونچوں تک) ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  2k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 Next >>


Search took 0.149 seconds