حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: خمس
کتاب/کتب میں "صحیح بخاری"
83 رزلٹ
حدیث نمبر: 3141 --- ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یوسف بن ماجشون نے ، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف نے ، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے صالح کے دادا (عبدالرحمٰن بن عوفص) نے بیان کے کہ بدر کی لڑائی میں ، میں صف کے ساتھ کھڑا ہوا تھا ۔ میں نے جو دائیں بائیں جانب دیکھا ، تو میرے دونوں طرف قبیلہ انصار کے دو نوعمر لڑکے تھے ۔ میں نے آرزو کی کاش ! میں ان سے زبردست زیادہ عمر والوں کے بیچ میں ہوتا ۔ ایک نے میری طرف اشارہ کیا ، اور پوچھا چچا ! آپ ابوجہل کو بھی پہچانتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ ہاں ! لیکن بیٹے تم لوگوں کو اس سے کیا کام ہے ؟ لڑکے نے جواب دیا مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے ، اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے وہ مل گیا تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے کوئی جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہو گا ، مر نہ جائے ، مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی ۔ پھر دوسرے نے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں ۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں میں (کفار کے لشکر میں) گھومتا پھر رہا تھا ۔ میں نے ان لڑکوں سے کہا کہ جس کے متعلق تم لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے ، وہ سامنے (پھرتا ہوا نظر آ رہا) ہے ۔ دونوں نے اپنی تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے اور حملہ کر کے اسے قتل کر ڈالا ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو خبر دی ، نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے ؟ دونوں نوجوانوں نے کہا کہ میں نے قتل کیا ہے ۔ اس لیے آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا اپنی تلواریں تم نے صاف کر لی ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اسے مارا ہے ۔ اور اس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا ۔ وہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموع تھے ۔ محمد نے کہا یوسف نے صالح سے سنا اور ابراہیم نے اپنے باپ سے سنا ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: بدر میں کمسن لڑکوں کے ہاتھوں ابو جہل کا قتل ۔
Terms matched: 1  -  Score: 22  -  6k
حدیث نمبر: 3143 --- ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا ، ان سے زہری نے ، ان سے سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر ؓ نے کہ حکیم بن حزام ؓ نے بیان کیا ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ روپیہ مانگا تو آپ ﷺ نے مجھے عطا فرمایا ، پھر دوبارہ میں نے مانگا اور اس مرتبہ بھی آپ نے عطا فرمایا ، پھر ارشاد فرمایا ، حکیم ! یہ مال دیکھنے میں سرسبز بہت میٹھا اور مزیدار ہے لیکن جو شخص اسے دل کی بے طمعی کے ساتھ لے اس کے مال میں تو برکت ہوتی ہے اور جو شخص اسے لالچ اور حرص کے ساتھ لے تو اس کے مال میں برکت نہیں ہوتی ، بلکہ اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جو کھائے جاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہوتا ہے ۔ حکیم بن حزام ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کے بعد اب میں کسی سے کچھ بھی نہیں مانگوں گا ، یہاں تک کہ اس دنیا میں سے چلا جاؤں گا ۔ چنانچہ (آپ ﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر ؓ انہیں دینے کے لیے بلاتے ، لیکن وہ اس میں سے ایک پیسہ بھی لینے سے انکار کر دیتے ۔ پھر عمر ؓ (اپنے زمانہ خلافت میں) انہیں دینے کے لیے بلاتے اور ان سے بھی لینے سے انہوں نے انکار کر دیا ۔ عمر ؓ نے اس پر کہا کہ مسلمانو ! میں انہیں ان کا حق دیتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے فئے کے مال سے ان کا حصہ مقرر کیا ہے ۔ لیکن یہ اسے بھی قبول نہیں کرتے ۔ حکیم بن حزام ؓ کی وفات ہو گئی لیکن آپ ﷺ کے بعد انہوں نے کسی سے کوئی چیز نہیں لی ۔
Terms matched: 1  -  Score: 22  -  5k
حدیث نمبر: 3149 --- ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے اسحاق بن عبداللہ نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا ۔ آپ ﷺ نجران کی بنی ہوئی چوڑے حاشیہ کی ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے ۔ اتنے میں ایک دیہاتی نے آپ ﷺ کو گھیر لیا اور زور سے آپ کو کھینچا ، میں نے آپ کے شانے کو دیکھا ، اس پر چادر کے کونے کا نشان پڑ گیا ، ایسا کھینچا ۔ پھر کہنے لگا ۔ اللہ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس میں سے کچھ مجھ کو دلائیے ۔ آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور ہنس دئیے ۔ پھر آپ ﷺ نے اسے دینے کا حکم فرمایا (آخری جملہ میں سے ترجمۃ الباب نکلتا ہے) ۔
Terms matched: 1  -  Score: 22  -  3k
حدیث نمبر: 3146 --- ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” قریش کو میں ان کا دل ملانے کے لیے دیتا ہوں ، کیونکہ ان کی جاہلیت (کفر) کا زمانہ ابھی تازہ گزرا ہے (ان کی دلجوئی کرنا ضروری ہے) ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 22  -  2k
حدیث نمبر: 3151 --- ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی ، ان سے اسماء بنت ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے زبیر ؓ کو جو زمین عنایت فرمائی تھی ، میں اس میں سے گٹھلیاں (سوکھی کھجوریں) اپنے سر پر لایا کرتی تھی ۔ وہ جگہ میرے گھر سے دو میل فرسخ کی دو تہائی پر تھی ۔ ابوضمرہ نے ہشام سے بیان کیا اور انہوں نے اپنے باپ سے (مرسلاً) بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے زبیر ؓ کو بنی نضیر کی اراضی میں سے ایک زمین قطعہ کے طور پر دی تھی ۔
Terms matched: 1  -  Score: 22  -  2k
حدیث نمبر: 3147 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے انس بن مالک ؓ نے خبر دی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو قبیلہ ہوازن کے اموال میں سے غنیمت دی اور آپ ﷺ قریش کے بعض آدمیوں کو (تالیف قلب کی غرض سے) سو سو اونٹ دینے لگے تو بعض انصاری لوگوں نے کہا اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کی بخشش کرے ۔ آپ قریش کو تو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیا ۔ حالانکہ ان کا خون ابھی تک ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے ۔ (قریش کے لوگوں کو حال ہی میں ہم نے مارا ، ان کے شہر کو ہم ہی نے فتح کیا) انس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے انصار کو بلایا اور انہیں چمڑے کے ایک ڈیرے میں جمع کیا ، ان کے سوا کسی دوسرے صحابی کو آپ ﷺ نے نہیں بلایا ۔ جب سب انصاری لوگ جمع ہو گئے تو آپ ﷺ بھی تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ آپ لوگوں کے بارے میں جو بات مجھے معلوم ہوئی وہ کہاں تک صحیح ہے ؟ انصار کے سمجھ دار لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم میں جو عقل والے ہیں ، وہ تو کوئی ایسی بات زبان پر نہیں لائے ہیں ، ہاں چند نوعمر لڑکے ہیں ، انہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ رسول اللہ ﷺ کی بخشش کرے ، آپ ﷺ قریش کو تو دے رہے ہیں اور ہم کو نہیں دیتے حالانکہ ہماری تلواروں سے ابھی تک ان کے خون ٹپک رہے ہیں ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں بعض ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جن کا کفر کا زمانہ ابھی گزرا ہے ۔ (اور ان کو دے کر ان کا دل ملاتا ہوں) کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب دوسرے لوگ مال و دولت لے کر واپس جا رہے ہوں گے ، تو تم لوگ اپنے گھروں کو رسول اللہ کو لے کر واپس جا رہے ہو گے ۔ اللہ کی قسم ! تمہارے ساتھ جو کچھ واپس جا رہا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو دوسرے لوگ اپنے ساتھ واپس لے جائیں گے ۔ سب انصاریوں نے کہا : بیشک یا رسول اللہ ! ہم اس پر راضی اور خوش ہیں ۔ پھر آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ” میرے بعد تم یہ دیکھو گے کہ تم پر دوسرے لوگوں کو مقدم کیا جائے گا ، اس وقت تم صبر کرنا ، (دنگا فساد نہ کرنا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جا ملو اور اس کے رسول سے حوض کوثر پر ۔ “ انس ؓ نے بیان کیا ، پھر ہم سے صبر نہ ہو سکا ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: قریشیوں کو مال غنیمت میں سو سو اونٹ ملے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 22  -  7k
حدیث نمبر: 3152 --- مجھ سے احمد بن مقدام نے بیان کیا ، کہا ہم سے فضل بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی ، انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ عمر نے یہود و نصاریٰ کو سر زمین حجاز سے نکال کر دوسری جگہ بسا دیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر فتح کیا تو آپ کا بھی ارادہ ہوا تھا کہ یہودیوں کو یہاں سے نکال دیا جائے ۔ جب آپ نے فتح پائی تو اس وقت وہاں کی کچھ زمین یہودیوں کے قبضے میں ہی تھی ۔ اور اکثر زمین پیغمبر علیہ السلام اور مسلمانوں کے قبضے میں تھی ۔ لیکن پھر یہودیوں نے آپ ﷺ سے درخواست کی ، آپ زمین انہیں کے پاس رہنے دیں ۔ وہ (کھیتوں اور باغوں میں) کام کیا کریں گے ۔ اور آدھی پیداوار لیں گے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اچھا جب تک ہم چاہیں گے اس وقت تک کے لیے تمہیں اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے ۔ چنانچہ یہ لوگ وہیں رہے اور پھر عمر ؓ نے انہیں اپنے دور خلافت میں (مسلمانوں کے خلاف ان کے فتنوں اور سازشوں کی وجہ سے یہود خیبر کو) تیماء یا اریحا کی طرف نکال دیا تھا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 22  -  4k
حدیث نمبر: 3092 --- ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ انہیں عروہ بن زبیر ؓ نے خبر دی اور انہیں ام المؤمنین عائشہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ ؓ نے آپ ﷺ کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق ؓ سے مطالبہ کیا تھا کہ نبی کریم ﷺ کے اس ترکہ سے انہیں ان کی میراث کا حصہ دلایا جائے جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فے کی صورت میں دیا تھا (جیسے فدک وغیرہ) ۔
Terms matched: 1  -  Score: 22  -  2k
حدیث نمبر: 3150 --- ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابووائل نے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ حنین کی لڑائی کے بعد نبی کریم ﷺ نے (غنیمت کی) تقسیم میں بعض لوگوں کو زیادہ دیا ۔ جیسے اقرع بن حابس ؓ کو سو اونٹ دئیے ، اتنے ہی اونٹ عیینہ بن حصین ؓ کو دئیے اور کئی عرب کے اشراف لوگوں کو اسی طرح تقسیم میں زیادہ دیا ۔ اس پر ایک شخص (معتب بن قشیر منافق) نے کہا ، کہ اللہ کی قسم ! اس تقسیم میں نہ تو عدل کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور نہ اللہ کی خوشنودی کا خیال ہوا ۔ میں نے کہا کہ واللہ ! اس کی خبر میں رسول اللہ ﷺ کو ضرور دوں گا ۔ چنانچہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور آپ کو اس کی خبر دی ۔ نبی کریم ﷺ نے سن کر فرمایا ” اگر اللہ اور اس کا رسول بھی عدل نہ کرے تو پھر کون عدل کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے کہ ان کو لوگوں کے ہاتھ اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچی لیکن انہوں نے صبر کیا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 22  -  4k
حدیث نمبر: 3093 --- ابوبکر صدیق ؓ نے فاطمہ ؓ سے کہا کہ آپ ﷺ نے (اپنی حیات میں) فرمایا تھا کہ ہمارا (گروہ انبیاء علیہم السلام کا) ورثہ تقسیم نہیں ہوتا ‘ ہمارا ترکہ صدقہ ہے ۔ فاطمہ ؓ یہ سن کر غصہ ہو گئیں اور ابوبکر ؓ سے ترک ملاقات کی اور وفات تک ان سے نہ ملیں ۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے بعد چھ مہینے زندہ رہی تھیں ۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ فاطمہ ؓ نے آپ ﷺ کے خیبر اور فدک اور مدینہ کے صدقے کی وراثت کا مطالبہ ابوبکر صدیق ؓ سے کیا تھا ۔ ابوبکر ؓ کو اس سے انکار تھا ۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی ایسے عمل کو نہیں چھوڑ سکتا جسے رسول اللہ ﷺ اپنی زندگی میں کرتے رہے تھے ۔ (عائشہ ؓ نے کہا کہ) پھر آپ ﷺ کا مدینہ کا جو صدقہ تھا وہ عمر ؓ نے علی اور عباس ؓ کو (اپنے عہد خلافت میں) دے دیا ۔ البتہ خیبر اور فدک کی جائیداد کو عمر ؓ نے روک رکھا اور فرمایا کہ یہ دونوں رسول اللہ ﷺ کا صدقہ ہیں اور ان حقوق کے لیے جو وقتی طور پر پیش آتے یا وقتی حادثات کے لیے رکھی تھیں ۔ یہ جائیداد اس شخص کے اختیار میں رہیں گی جو خلیفہ وقت ہو ۔ زہری نے کہا ‘ چنانچہ ان دونوں جائیدادوں کا انتظام آج تک (بذریعہ حکومت) اسی طرح ہوتا چلا آتا ہے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ترک کرنا سراسر گمراہی سمجھتے تھے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 22  -  4k
حدیث نمبر: 3148 --- ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے صالح بن کیسان نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عمر بن محمد بن جبیر بن مطعم نے خبر دی کہ میرے باپ محمد بن جبیر نے کہا اور انہیں جبیر بن مطعم ؓ نے خبر دی کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ۔ آپ کے ساتھ اور بھی صحابہ تھے ۔ حنین کے جہاد سے واپسی ہو رہی تھی ۔ راستے میں کچھ بدو آپ ﷺ سے لپٹ گئے (لوٹ کا مال) آپ سے مانگتے تھے ۔ وہ آپ سے ایسا لپٹے کہ آپ ﷺ کو ایک ببول کے درخت کی طرف دھکیل لے گئے ۔ آپ کی چادر اس میں اٹک کر رہ گئی ۔ اس وقت آپ ٹھہر گئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” (بھائیو) میری چادر تو دے دو ۔ اگر میرے پاس ان کانٹے دار درختوں کی تعداد میں اونٹ ہوتے تو وہ بھی تم میں تقسیم کر دیتا ۔ تم مجھے بخیل ، جھوٹا اور بزدل ہرگز نہیں پاؤ گے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 22  -  3k
حدیث نمبر: 5358 --- ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی (ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ) محمد بن جبیر بن مطعم نے اس کا بعض حصہ بیان کیا تھا ، اس لیے میں روانہ ہوا اور مالک بن اوس کی خدمت میں پہنچا اور ان سے یہ حدیث پوچھی ۔ مالک نے مجھ سے بیان کیا کہ میں عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے دربان یرفاء ان کے پاس آئے اور کہا عثمان بن عفان ، عبدالرحمٰن ، زید اور سعد ؓ (آپ سے ملنے کی) اجازت چاہتے ہیں کیا آپ انہیں اس کی اجازت دیں گے ؟ عمر ؓ نے کہا کہ اندر بلا لو ۔ چنانچہ انہیں اس کی اجازت دے دی گئی ۔ راوی نے کہا کہ پھر یہ سب اندر تشریف لائے اور سلام کر کے بیٹھ گئے ۔ یرفاء نے تھوڑی دیر کے بعد پھر عمر ؓ سے آ کر کہا کہ علی اور عباس ؓ بھی ملنا چاہتے ہیں کیا آپ کی طرف سے اجازت ہے ؟ عمر ؓ نے انہیں بھی اندر بلانے کے لیے کہا ۔ اندر آ کر ان حضرات نے بھی سلام کیا اور بیٹھ گئے ۔ اس کے بعد عباس ؓ نے کہا ، امیرالمؤمنین میرے اور ان (علی ؓ ) کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے ۔ دوسرے صحابہ عثمان ؓ اور ان کے ساتھیوں نے بھی کہا کہ امیرالمؤمنین ان کا فیصلہ فرما دیجئیے اور انہیں اس الجھن سے نجات دیجئیے ۔ عمر ؓ نے کہا جلدی نہ کرو میں اللہ کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ، جو کچھ ہم انبیاء وفات کے وقت چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا اشارہ خود اپنی ذات کی طرف تھا ۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا ۔ اس کے بعد عمر ؓ علی اور عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے پوچھا میں اللہ کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں ، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا ۔ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ نبی کریم ﷺ نے واقعی یہ فرمایا تھا ۔ پھر عمر ؓ نے کہا کہ اب میں آپ سے اس معاملہ میں بات کروں گا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اس مال (مال فے) میں مختار کل ہونے کی خصوصیت بخشی تھی اور نبی کریم ﷺ کے سوا اس میں سے کسی دوسرے کو کچھ نہیں دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا « ما أفاء اللہ على رسولہ منہم فما أوجفتم عليہ من خيل‏ » سے « قدي...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  17k
حدیث نمبر: 3134 --- ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا ۔ عبداللہ بن عمر ؓ بھی لشکر کے ساتھ تھے ۔ غنیمت کے طور پر اونٹوں کی ایک بڑی تعداد اس لشکر کو ملی ۔ اس لیے اس کے ہر سپاہی کو حصہ میں بھی بارہ بارہ گیارہ گیارہ اونٹ ملے تھے اور ایک ایک اونٹ اور انعام میں ملا ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: تقسیم مال غنیمت : حصہ سے زیادہ عطا کرنا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 11  -  2k
حدیث نمبر: 3129 --- ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابواسامہ سے پوچھا ‘ کیا آپ لوگوں سے ہشام بن عروہ نے یہ حدیث اپنے والد سے بیان کی ہے کہ ان سے عبداللہ بن زبیر ؓ نے کہا کہ جمل کی جنگ کے موقع پر جب زبیر ؓ کھڑے ہوئے تو مجھے بلایا میں ان کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا ‘ انہوں نے کہا بیٹے ! آج کی لڑائی میں ظالم مارا جائے گا یا مظلوم میں سمجھتا ہوں کہ آج میں مظلوم قتل کیا جاؤں گا اور مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرضوں کی ہے ۔ کیا تمہیں بھی کچھ اندازہ ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد ہمارا کچھ مال بچ سکے گا ؟ پھر انہوں نے کہا بیٹے ! ہمارا مال فروخت کر کے اس سے قرض ادا کر دینا ۔ اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی میرے لیے اور اس تہائی کے تیسرے حصہ کی وصیت میرے بچوں کے لیے کی ‘ یعنی عبداللہ بن زبیر ؓ کے بچوں کے لیے ۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ اس تہائی کے تین حصے کر لینا اور اگر قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے اموال میں سے کچھ بچ جائے تو اس کا ایک تہائی تمہارے بچوں کے لیے ہو گا ۔ ہشام راوی نے بیان کیا کہ عبداللہ ؓ کے بعض لڑکے زبیر ؓ کے لڑکوں کے ہم عمر تھے ۔ جیسے خبیب اور عباد ۔ اور زبیر ؓ کے اس وقت نو لڑکے اور نو لڑکیاں تھیں ۔ عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ پھر زبیر ؓ مجھے اپنے قرض کے سلسلے میں وصیت کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ بیٹا ! اگر قرض ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ تو میرے مالک و مولا سے اس میں مدد چاہنا ۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی ! میں ان کی بات نہ سمجھ سکا ‘ میں نے پوچھا کہ بابا آپ کے مولا کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پاک ! عبداللہ نے بیان کیا ‘ قسم اللہ کی ! قرض ادا کرنے میں جو بھی دشواری سامنے آئی تو میں نے اسی طرح دعا کی ‘ کہ اے زبیر کے مولا ! ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرا دے اور ادائیگی کی صورت پیدا ہو جاتی تھی ۔ چنانچہ جب زبیر ؓ (اسی موقع پر) شہید ہو گئے تو انہوں نے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ ان کا ترکہ کچھ تو اراضی کی صورت میں تھا اور اسی میں غابہ کی زمین بھی شامل تھی ۔ گیارہ مکانات مدینہ میں تھے ‘ دو مکان بصرہ میں تھے ‘ ایک مکان کوفہ میں تھا اور ایک مصر میں تھا ۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ ان پر جو اتنا سارا قرض ہو گیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ جب ان کے پاس کوئی شخص اپنا مال لے کر امانت رکھنے آتا تو آپ اسے کہتے کہ نہیں البتہ اس صورت ...
Terms matched: 1  -  Score: 11  -  8k
حدیث نمبر: 3132 --- ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ عروہ کہتے تھے کہ مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ ؓ نے انہیں خبر دی کہ جب ہوازن کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے مالوں اور قیدیوں کی واپسی کا سوال کیا ‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے ۔ ان دونوں چیزوں میں سے تم ایک ہی واپس لے سکتے ہو ۔ اپنے قیدی واپس لے لو یا پھر مال لے لو ‘ اور میں نے تمہارا انتظار بھی کیا ۔ آپ ﷺ نے تقریباً دس دن تک طائف سے واپسی پر ان کا انتظار کیا اور جب یہ بات ان پر واضح ہو گئی کہ آپ ﷺ ان کی صرف ایک ہی چیز (قیدی یا مال) واپس کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قیدی ہی واپس لینا چاہتے ہیں ۔ اب آپ ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا : آپ ﷺ نے اللہ کی شان کے مطابق حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا ” امابعد ! تمہارے یہ بھائی اب ہمارے پاس توبہ کر کے آئے ہیں اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں ۔ اسی لیے جو شخص اپنی خوشی سے غنیمت کے اپنے حصے کے (قیدی) واپس کرنا چاہے وہ کر دے اور جو شخص چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہمیں جب اس کے بعد سب سے پہلی غنیمت ملے تو اس میں سے اس کے حصے کی ادائیگی کر دی جائے تو وہ بھی اپنے قیدی واپس کر دے ‘ (اور جب ہمیں دوسرے غنیمت ملے گی تو اس کا حصہ ادا کر دیا جائے گا) ۔ “ اس پر صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم اپنی خوشی سے انہیں اپنے حصے واپس کر دیتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کن لوگوں نے اپنی خوشی سے اجازت دی اور کن لوگوں نے نہیں دی ہے ۔ اس لیے سب لوگ (اپنے خیموں میں) واپس چلے جائیں اور تمہارے سردار لوگ تمہاری بات ہمارے سامنے آ کر بیان کریں ۔ “ سب لوگ واپس چلے گئے اور ان کے سرداروں نے اس مسئلہ پر گفتگو کی اور پھر آپ ﷺ کو آ کر خبر دی کہ سب لوگ خوشی سے اجازت دیتے ہیں ۔ یہی وہ خبر ہے جو ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں ہمیں معلوم ہوئی ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 11  -  7k
حدیث نمبر: 3131 --- ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ عروہ کہتے تھے کہ مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ ؓ نے انہیں خبر دی کہ جب ہوازن کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے مالوں اور قیدیوں کی واپسی کا سوال کیا ‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے ۔ ان دونوں چیزوں میں سے تم ایک ہی واپس لے سکتے ہو ۔ اپنے قیدی واپس لے لو یا پھر مال لے لو ‘ اور میں نے تمہارا انتظار بھی کیا ۔ آپ ﷺ نے تقریباً دس دن تک طائف سے واپسی پر ان کا انتظار کیا اور جب یہ بات ان پر واضح ہو گئی کہ آپ ﷺ ان کی صرف ایک ہی چیز (قیدی یا مال) واپس کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قیدی ہی واپس لینا چاہتے ہیں ۔ اب آپ ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا : آپ ﷺ نے اللہ کی شان کے مطابق حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا ” امابعد ! تمہارے یہ بھائی اب ہمارے پاس توبہ کر کے آئے ہیں اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں ۔ اسی لیے جو شخص اپنی خوشی سے غنیمت کے اپنے حصے کے (قیدی) واپس کرنا چاہے وہ کر دے اور جو شخص چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہمیں جب اس کے بعد سب سے پہلی غنیمت ملے تو اس میں سے اس کے حصے کی ادائیگی کر دی جائے تو وہ بھی اپنے قیدی واپس کر دے ‘ (اور جب ہمیں دوسرے غنیمت ملے گی تو اس کا حصہ ادا کر دیا جائے گا) ۔ “ اس پر صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم اپنی خوشی سے انہیں اپنے حصے واپس کر دیتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کن لوگوں نے اپنی خوشی سے اجازت دی اور کن لوگوں نے نہیں دی ہے ۔ اس لیے سب لوگ (اپنے خیموں میں) واپس چلے جائیں اور تمہارے سردار لوگ تمہاری بات ہمارے سامنے آ کر بیان کریں ۔ “ سب لوگ واپس چلے گئے اور ان کے سرداروں نے اس مسئلہ پر گفتگو کی اور پھر آپ ﷺ کو آ کر خبر دی کہ سب لوگ خوشی سے اجازت دیتے ہیں ۔ یہی وہ خبر ہے جو ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں ہمیں معلوم ہوئی ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 11  -  7k
حدیث نمبر: 3137 --- ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ کہا ہم سے محمد بن منکدر نے ‘ اور انہوں نے جابر ؓ سے سنا ‘ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب بحرین سے وصول ہو کر میرے پاس مال آئے گا تو میں تمہیں اس طرح اس طرح ‘ اس طرح (تین لپ) دوں گا اس کے بعد آپ ﷺ کی وفات ہو گئی اور بحرین کا مال اس وقت تک نہ آیا ۔ پھر جب وہاں سے مال آیا تو ابوبکر ؓ کے حکم سے منادی نے اعلان کیا کہ جس کا بھی نبی کریم ﷺ پر کوئی قرض ہو یا آپ کا کوئی وعدہ ہو تو ہمارے پاس آئے ۔ میں ابوبکر ؓ کی خدمت میں گیا اور عرض کیا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے تین لپ بھر کر مجھے دیا ۔ سفیان بن عیینہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کر کے (لپ بھرنے کی) کیفیت بتائی پھر ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ ابن منکدر نے بھی ہم سے اسی طرح بیان کیا تھا ۔ اور ایک مرتبہ سفیان نے (سابقہ سند کے ساتھ) بیان کیا کہ جابر ؓ نے کہا کہ میں ابوبکر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا ۔ پھر میں حاضر ہوا ‘ اور اس مرتبہ بھی مجھے انہوں نے کچھ نہیں دیا ۔ پھر میں تیسری مرتبہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے ایک مرتبہ آپ سے مانگا اور آپ نے عنایت نہیں فرمایا ۔ دوبارہ مانگا ‘ پھر بھی آپ نے عنایت نہیں فرمایا اور پھر مانگا لیکن آپ نے عنایت نہیں فرمایا ۔ اب یا آپ مجھے دیجئیے یا پھر میرے بارے میں بخل سے کام لیجئے ، ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ تم کہتے ہو کہ میرے معاملے میں بخل سے کام لیتا ہے ۔ حالانکہ تمہیں دینے سے جب بھی میں نے منہ پھیرا تو میرے دل میں یہ بات ہوتی تھی کہ تمہیں کبھی نہ کبھی دینا ضرور ہے ۔ ، سفیان نے بیان کیا کہ ہم سے عمرو نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر نے ‘ پھر ابوبکر ؓ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا اور فرمایا کہ اسے شمار کر میں نے شمار کیا تو پانچ سو کی تعداد تھی ‘ اس کے بعد ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ اتنا ہی دو مرتبہ اور لے لے ۔ اور ابن المنکدر نے بیان کیا (کہ ابوبکر ؓ نے فرمایا تھا) بخل سے زیادہ بدترین اور کیا بیماری ہو سکتی ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 11  -  7k
حدیث نمبر: 3133 --- ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے کہا کہ ہم سے حماد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے ابوقلابہ نے بیان کیا اور (ایوب نے ایک دوسری سند کے ساتھ اس طرح روایت کی ہے کہ) مجھ سے قاسم بن عاصم کلیبی نے بیان کیا اور کہا کہ قاسم کی حدیث (ابوقلابہ کی حدیث کی بہ نسبت) مجھے زیادہ اچھی طرح یاد ہے ‘ زہدم سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم ابوموسیٰ اشعری ؓ کی مجلس میں حاضر تھے (کھانا لایا گیا اور) وہاں مرغی کا ذکر ہونے لگا ۔ بنی تمیم اللہ کے ایک آدمی سرخ رنگ والے وہاں موجود تھے ۔ غالباً موالی میں سے تھے ۔ انہیں بھی ابوموسیٰ ؓ نے کھانے پر بلایا ‘ وہ کہنے لگے کہ میں نے مرغی کو گندی چیزیں کھاتے ایک مرتبہ دیکھا تھا تو مجھے بڑی نفرت ہوئی اور میں نے قسم کھا لی کہ اب کبھی مرغی کا گوشت نہ کھاؤں گا ۔ ابوموسیٰ ؓ نے کہا کہ قریب آ جاؤ (تمہاری قسم پر) میں تم سے ایک حدیث اسی سلسلے کی بیان کرتا ہوں ‘ قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ساتھ لے کر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں (غزوہ تبوک کے لیے) حاضر ہوا اور سواری کی درخواست کی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اللہ کی قسم ! میں تمہارے لیے سواری کا انتظام نہیں کر سکتا ‘ کیونکہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمہاری سواری کے کام آ سکے ۔ “ پھر آپ ﷺ کی خدمت میں غنیمت کے کچھ اونٹ آئے ‘ تو آپ ﷺ نے ہمارے متعلق دریافت فرمایا ‘ اور فرمایا کہ قبیلہ اشعر کے لوگ کہاں ہیں ؟ چنانچہ آپ ﷺ نے پانچ اونٹ ہمیں دیئے جانے کا حکم صادر فرمایا ‘ خوب موٹے تازے اور فربہ ۔ جب ہم چلنے لگے تو ہم نے آپس میں کہا کہ جو نامناسب طریقہ ہم نے اختیار کیا اس سے آپ ﷺ کے اس عطیہ میں ہمارے لیے کوئی برکت نہیں ہو سکتی ۔ چنانچہ ہم پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم نے پہلے جب آپ سے درخواست کی تھی تو آپ نے قسم کھا کر فرمایا تھا کہ میں تمہاری سواری کا انتظام نہیں کر سکوں گا ۔ شاید آپ کو وہ قسم یاد نہ رہی ہو ‘ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہاری سواری کا انتظام واقعی نہیں کیا ‘ وہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے تمہیں یہ سواریاں دے دی ہیں ۔ اللہ کی قسم ! تم اس پر یقین رکھو کہ ان شاءاللہ جب بھی میں کوئی قسم کھاؤں ‘ پھر مجھ پر یہ بات ظاہر ہو جائے کہ بہتر اور مناسب طرز عمل اس کے سوا میں ہے تو میں وہی کروں گا جس میں اچھائی ہو گی اور قسم کا کفارہ دے دوں گا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 11  -  8k
حدیث نمبر: 3138 --- ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے قرۃ بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ مقام جعرانہ میں غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص ذوالخویصرہ نے آپ سے کہا ، انصاف سے کام لیجئے ، آپ ﷺ نے فرمایا ” اگر میں بھی انصاف سے کام نہ لوں تو بدبخت ہوا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 11  -  2k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 Next >>


Search took 0.123 seconds