221. صحیح بخاری --- کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان --- باب : اگر وقف کرنے والا مال وقف کو ( اپنے قبضہ میں رکھے ) دوسرے کے حوالہ نہ کرے تو جائز ہے ۔ [صحیح بخاری]
اس لیے کہ عمر ؓ نے (خیبر کی اپنی زمین) وقف کی اور فرمایا کہ اگر اس میں سے اس کا متولی بھی کھائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ یہاں آپ نے اس کی کوئی تخصیص نہیں کی تھی کہ خود آپ ہی اس کے متولی ہوں گے یا کوئی دوسرا ۔ نبی کریم ﷺ نے ابوطلحہ ؓ سے فرمایا تھا کہ میرا خیال ہے کہ تم اپنی زمین (باغ بیرحاء صدقہ کرنا چاہتے ہو تو) اپنے عزیزوں کو دے دو ۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں ایسا ہی کروں گا ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے عزیزوں اور چچا کے لڑکوں میں بانٹ دیا ۔
حدیث نمبر: 2318 --- مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے امام مالک کے سامنے قرآت کی بواسطہ اسحاق بن عبداللہ کے کہ انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ ابوطلحہ ؓ مدینہ میں انصار کے سب سے مالدار لوگوں میں سے تھے ۔ بیرحاء (ایک باغ) ان کا سب سے زیادہ محبوب مال تھا ۔ جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا ۔ رسول اللہ ﷺ بھی وہاں تشریف لے جاتے اور اس کا نہایت میٹھا عمدہ پانی پیتے تھے ۔ پھر جب قرآن کی آیت « لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون » اتری ” تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کر سکتے جب تک نہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں وہ چیز جو تمہیں زیادہ پسند ہو “ تو ابوطلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا ، یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے « لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون » اور مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ پسند میرا یہی باغ بیرحاء ہے ۔ یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے ۔ اس کی نیکی اور ذخیرہ ثواب کی امید میں صرف اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہوں ۔ پس آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے خرچ فرما دیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ، واہ واہ ! یہ بڑا ہی نفع والا مال ہے ۔ بہت ہی مفید ہے ۔ اس کے بارے میں تم نے جو کچھ کہا وہ میں نے سن لیا ۔ اب میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اسے تو اپنے رشتہ داروں ہی میں تقسیم کر دے ۔ ابوطلحہ ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں ایسا ہی کروں گا ۔ چنانچہ یہ کنواں انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا ۔ اس روایت کی متابعت اسماعیل نے مالک سے کی ہے ۔ اور روح نے مالک سے (لفظ « رائح. » کے بجائے) « رابح. » نقل کیا ہے ۔
223. صحیح بخاری --- کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان --- باب : وقف کے مال میں وکالت اور وکیل کا خرچہ اور وکیل کا اپنے دوست کو کھلانا اور خود بھی دستور کے موافق کھانا ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 2313 --- ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینار نے ، انہوں نے کہا کہ عمر ؓ نے صدقہ کے باب میں جو کتاب لکھوائی تھی اس میں یوں ہے کہ صدقے کا متولی اس میں سے کھا سکتا ہے اور دوست کو کھلا سکتا ہے لیکن روپیہ نہ جمع کرے اور عبداللہ بن عمر ؓ اپنے والد عمر ؓ کے صدقے کے متولی تھے ۔ وہ مکہ والوں کو اس میں سے تحفہ بھیجتے تھے جہاں آپ قیام فرمایا کرتے تھے ۔
224. صحیح بخاری --- کتاب: ایمان کے بیان میں --- باب : اس بات کے بیان میں کہ عمل بغیر نیت اور خلوص کے صحیح نہیں ہوتے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے ۔ [صحیح بخاری]
تو عمل میں ایمان ، وضو ، نماز ، زکوٰۃ ، حج ، روزہ اور سارے احکام آ گئے اور (سورۃ بنی اسرائیل میں) اللہ نے فرمایا اے پیغمبر ! کہہ دیجیئے کہ ہر کوئی اپنے طریق یعنی اپنی نیت پر عمل کرتا ہے اور (اسی وجہ سے) آدمی اگر ثواب کی نیت سے اللہ کا حکم سمجھ کر اپنے گھر والوں پر خرچ کر دے تو اس میں بھی اس کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور جب مکہ فتح ہو گیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اب ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا لیکن جہاد اور نیت کا سلسلہ باقی ہے ۔
225. صحیح بخاری --- کتاب: حج کے مسائل کا بیان --- باب : قربانی کے جانوروں کے لیے جھول کا ہونا ۔ [صحیح بخاری]
اور عبداللہ بن عمر ؓ صرف کوہان کی جگہ کے جھول کو پھاڑتے اور جب اس کی قربانی کرتے تو اس ڈر سے کہ کہیں اسے خون خراب نہ کر دے جھول اتار دیتے اور پھر اس کو بھی صدقہ کر دیتے ۔
اور نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ وہ شخص جو بقدر کفایت نہیں پاتا (گویا اس کو غنی نہیں کہہ سکتے) اور (اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ میں فرمایا ہے کہ) صدقہ خیرات تو ان فقراء کے لیے ہے جو اللہ کے راستے میں گھر گئے ہیں ۔ کسی ملک میں جا نہیں سکتے کہ وہ تجارت ہی کر لیں ۔ ناواقف لوگ انہیں سوال نہ کرنے کی وجہ سے غنی سمجھتے ہیں ۔ آخر آیت « فإن اللہ بہ عليم » تک (یعنی وہ حد کیا ہے جس سے سوال ناجائز ہو) ۔
حدیث نمبر: 1479 --- ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے ابوالزناد سے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے ‘ اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کا چکر کاٹتا پھرتا ہے تاکہ اسے دو ایک لقمہ یا دو ایک کھجور مل جائیں ۔ بلکہ اصلی مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہیں کہ وہ اس کے ذریعہ سے بےپرواہ ہو جائے ۔ اس حال میں بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کوئی اسے صدقہ ہی دیدے اور نہ وہ خود ہاتھ پھیلانے کے لیے اٹھتا ہے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: زکاۃ کے مستحق مسکین کی تعریف ۔
حدیث نمبر: 1480 --- ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوصالح ذکوان نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے ‘ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی لے کر (میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے یوں فرمایا) پہاڑوں میں چلا جائے پھر لکڑیاں جمع کر کے انہیں فروخت کرے ۔ اس سے کھائے بھی اور صدقہ بھی کرے ۔ یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ۔
229. صحیح بخاری --- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان --- باب : زکوٰۃ میں بوڑھا یا عیب دار یا نر جانور نہ لیا جائے گا مگر جب زکوٰۃ وصول کرنے والا مناسب سمجھے تو لے سکتا ہے ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 1455 --- ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ نے انہیں رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ احکام زکوٰۃ کے مطابق لکھا کہ زکوٰۃ میں بوڑھے ، عیبی اور نر نہ لیے جائیں ‘ البتہ اگر صدقہ وصول کرنے والا مناسب سمجھے تو لے سکتا ہے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: زکاۃ میں اوسط درجے کا مال لینا چاہئے نہ بہت اچھا نہ بہت خراب ۔ چاندی میں ڈھائی فیصد زکوٰۃ ہے ۔
230. صحیح بخاری --- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان --- باب : خادم نوکر کا ثواب ، جب وہ مالک کے حکم کے مطابق خیرات دے اور کوئی بگاڑ کی نیت نہ ہو ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 1437 --- ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر نے اعمش سے بیان کیا ‘ ان سے ابووائل نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب بیوی اپنے خاوند کے کھانے میں سے کچھ صدقہ کرے اور اس کی نیت اسے برباد کرنے کی نہیں ہوتی تو اسے بھی اس کا ثواب ملتا ہے اور اس کے خاوند کو کمانے کا ثواب ملتا ہے ۔ اسی طرح خزانچی کو بھی اس کا ثواب ملتا ہے ۔
231. صحیح بخاری --- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان --- باب : خیرات کرنے میں جلدی کرنی چاہیے ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 1430 --- ہم سے ابوعاصم نبیل نے عمر بن سعید سے بیان کیا ‘ ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ عقبہ بن حارث ؓ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کی نماز ادا کی پھر جلدی سے آپ ﷺ گھر میں تشریف لے گئے ۔ تھوڑی دیر بعد باہر تشریف لے آئے ۔ اس پر میں نے پوچھا یا کسی اور نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں گھر کے اندر صدقہ کے سونے کا ایک ٹکڑا چھوڑ آیا تھا مجھے یہ بات پسند نہیں آئی کہ اسے تقسیم کئے بغیر رات گزاروں پس میں نے اس کو بانٹ دیا ۔
232. صحیح بخاری --- کتاب: حج کے مسائل کا بیان --- باب : قربانی کے جانوروں کے لیے جھول کا ہونا ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 1707 --- ہم سے قبیصہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے ابن ابی نجیح نے ، ان سے مجاہد نے ، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی ؓ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا جن کی قربانی میں نے کر دی تھی ۔
233. صحیح بخاری --- کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان --- باب : حاضر اور غائب دونوں کو وکیل بنانا جائز ہے ۔ [صحیح بخاری]
اور عبداللہ بن عمرو ؓ نے اپنے وکیل کو جو ان سے غائب تھا یہ لکھا کہ چھوٹے بڑے ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے وہ صدقہ فطر نکال دیں ۔
234. صحیح بخاری --- کتاب: عمرہ کے مسائل کا بیان --- باب : حج کے بعد عمرہ کرنا اور قربانی نہ دینا ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 1786 --- ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے میرے والد عروہ نے خبر دی کہا کہ مجھے عائشہ ؓ نے خبر دی انہوں نے کہا کہ ذی الحجہ کا چاند نکلنے والا تھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ سے حج کے لیے چلے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے وہ عمرہ کا باندھ لے اور جو حج کا باندھنا چاہے وہ حج کا باندھ لے ، اگر میں اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا ہی احرام باندھتا ، چنانچہ بہت سے لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا اور بہتوں نے حج کا ۔ میں بھی ان لوگوں میں تھی جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا ۔ مگر میں مکہ میں داخل ہونے سے پہلے حائضہ ہو گئی ، عرفہ کا دن آ گیا اور ابھی میں حائضہ ہی تھی ، اس کا رونا میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے روئی ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ عمرہ چھوڑ دے اور سر کھول لے اور کنگھا کر لے پھر حج کا احرام باندھ لینا ، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا ، اس کے بعد جب محصب کی رات آئی تو نبی کریم ﷺ نے میرے ساتھ عبدالرحمٰن کو تنعیم بھیجا وہ مجھے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر لے گئے وہاں سے عائشہ ؓ نے اپنے (چھوڑے ہوئے) عمرے کے بجائے دوسرے عمرہ کا احرام باندھا اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کا بھی حج اور عمرہ دونوں ہی پورے کر دیئے نہ تو اس کے لیے انہیں قربانی لانی پڑی نہ صدقہ دینا پڑا اور نہ روزہ رکھنا پڑا ۔
235. صحیح بخاری --- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان --- باب : روزہ گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 1895 --- ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے جامع بن راشد نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے اور ان سے حذیفہ ؓ نے کہ عمر ؓ نے پوچھا فتنہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی حدیث کسی کو یاد ہے ؟ حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے سنا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ انسان کے لیے اس کے بال بچے ، اس کا مال اور اس کے پڑوسی فتنہ (آزمائش و امتحان) ہیں جس کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ بن جاتا ہے ۔ عمر ؓ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا میری مراد تو اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امنڈ آئے گا ۔ اس پر حذیفہ ؓ نے کہا کہ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے ۔ (یعنی آپ کے دور میں وہ فتنہ شروع نہیں ہو گا) عمر ؓ نے پوچھا وہ دروازہ کھل جائے گا یا توڑ دیا جائے گا ؟ حذیفہ ؓ نے بتایا کہ توڑ دیا جائے گا ۔ عمر ؓ نے فرمایا کہ پھر تو قیامت تک کبھی بند نہ ہو پائے گا ۔ ہم نے مسروق سے کہا آپ حذیفہ ؓ سے پوچھئے کہ کیا عمر ؓ کو معلوم تھا کہ وہ دروازہ کون ہے ، چنانچہ مسروق نے پوچھا تو آپ ؓ نے فرمایا ہاں ! بالکل اس طرح (انہیں علم تھا) جیسے رات کے بعد دن کے آنے کا علم ہوتا ہے ۔
236. صحیح بخاری --- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان --- باب : مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرنا ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 2055 --- ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے طلحہ بن مصرف نے ، ان سے انس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ ایک گری ہوئی کھجور پر گزرے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس کے صدقہ ہونے کا شبہ نہ ہوتا تو میں اسے کھا لیتا ۔ اور ہمام بن منبہ نے ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، میں اپنے بستر پر پڑی ہوئی ایک کھجور پاتا ہوں ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل کے لئے زکاۃ حلال نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم مال زکاۃ سے بالا تر ہیں ۔
237. صحیح بخاری --- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان --- باب : کب تک بیع توڑنے کا اختیار رہتا ہے ؟ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 2107 --- ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو عبدالوہاب نے خبر دی ، کہا کہ میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا ، کہا کہ میں نے نافع سے سنا اور انہوں نے ابن عمر ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، خرید و فروخت کرنے والوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں اختیار ہوتا ہے ، یا خود بیع میں اختیار کی شرط ہو ۔ (تو شرط کے مطابق اختیار ہوتا ہے) نافع نے کہا کہ جب عبداللہ بن عمر ؓ کوئی ایسی چیز خریدتے جو انہیں پسند ہوتی تو (خریدنے کے بعد) اپنے معاملہ دار سے جدا ہو جاتے ۔
238. صحیح بخاری --- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان --- باب : سونے کو سونے کے بدلہ میں بیچنا ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 2175 --- ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی ، کہا کہ مجھے یحییٰ بن ابی اسحاق نے خبر دی ، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے بیان کیا ، ان سے ابوبکرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، سونا سونے کے بدلے میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک (دونوں طرف سے) برابر برابر (کی لین دین) نہ ہو ۔ اسی طرح چاندی ، چاندی کے بدلہ میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک (دونوں طرف سے) برابر برابر نہ ہو ۔ البتہ سونا ، چاندی کے بدل اور چاندی سونے کے بدل میں جس طرح چاہو بیچو ۔
239. صحیح بخاری --- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان --- باب : حربی کافر سے غلام لونڈی خریدنا اور اس کا آزاد کرنا اور ہبہ کرنا ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 2220 --- ہم سے ابوالولیمان نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر ؓ نے خبر دی انہیں حکیم بن حزام ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! ان نیک کاموں کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے ، جنہیں میں جاہلیت کے زمانہ میں صلہ رحمی ، غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کے سلسلہ میں کیا کرتا تھا کیا ان اعمال کا بھی مجھے ثواب ملے گا ؟ حکیم بن حزام ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جتنی نیکیاں تم پہلے کر چکے ہو ان سب کے ساتھ اسلام لائے ہو ۔
240. صحیح بخاری --- کتاب: بیع سلم کے بیان میں --- باب : بیع سلم مقررہ وزن کے ساتھ جائز ہے ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 2240 --- ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ، انہیں سفیان بن عیینہ نے خبر دی ، انہیں ابن ابی نجیح نے خبر دی ، انہیں عبداللہ بن کثیر نے ، انہیں ابومنہال نے اور ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو لوگ کھجور میں دو اور تین سال تک کے لیے بیع سلم کرتے تھے ۔ آپ ﷺ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ جسے کسی چیز کی بیع سلم کرنی ہے ، اسے مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے ٹھہرا کر کرے ۔
|