1. صحیح مسلم --- قران مجيد كي تفسير كا بيان --- باب : سورہ براءۃ اور انفال اور حشر کے بارے میں ۔ [صحیح مسلم]
حدیث نمبر: 7558 --- سیدنا سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے ، میں نے سیدنا ابن عباس ؓ سے کہا : سورہ توبہ ۔ انہوں نے کہا : توبہ وہ سورت تو ذلیل کرنے والی ہے اور فضیحت کرنے والی (کافروں اور منافقوں کی) اس سورت میں برابر اتر رہا « وَمِنْہُمْ » « وَمِنْہُمْ » یعنی لوگوں کے احوال کچھ ایسے کچھ ایسے ہیں ، یہاں تک لوگ سمجھے کہ کوئی باقی نہ رہے گا جس کا ذکر نہ کیا جائے گا اس سورت میں ۔ میں نے کہا : سورہ انفال ۔ انہوں نے کہا : وہ سورت تو بدر کی لڑائی کے باب میں ہے (اس میں لوٹ اور غنیمت کے احکام مذکور ہیں) ۔ میں نے کہا : سورہ حشر ، انہوں نے کہا : وہ بنی نضیر کے باب میں اتری ۔
2. سنن ابی داود --- ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل --- باب : «بسم الله الرحمن الرحيم» زور سے پڑھنے کے قائلین کی دلیل کا بیان ۔ [سنن ابی داود]
حدیث نمبر: 786 --- حکم البانی: ضعيف... عبداللہ بن عباس ؓ کا بیان ہے کہ میں نے عثمان بن عفان ؓ سے پوچھا : آپ کو کس چیز نے ابھارا کہ آپ سورۃ برات کا جو کہ « مئین » میں سے ہے ، اور سورۃ الانفال کا جو کہ « مثانی » میں سے ہے قصد کریں تو انہیں سات لمبی سورتوں میں کر دیں اور ان دونوں (یعنی انفال اور برات) کے درمیان میں « بسم اللہ الرحمن الرحيم » نہ لکھیں ؟ عثمان نے کہا : نبی اکرم ﷺ پر آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپ کاتب کو بلاتے اور ان سے فرماتے : ” اس آیت کو اس سورۃ میں رکھو ، جس میں ایسا ایسا (قصہ) مذکور ہے “ ، اور آپ ﷺ پر ایک ایک دو دو آیتیں اترا کرتیں تو آپ ایسا ہی فرمایا کرتے ، اور سورۃ الانفال ان سورتوں میں ہے جو پہلے پہل مدینہ میں آپ پر اتری ہیں ، اور برات ان سورتوں میں سے ہے جو آپ ﷺ پر آخر میں اتری ہیں اور سورۃ برات کا مضمون سورۃ الانفال کے مضمون سے ملتا جلتا ہے ، اس وجہ سے مجھے گمان ہوا کہ شاید برات (توبہ) انفال میں داخل ہے ، اسی لیے میں نے دونوں کو « سبع طوال » میں رکھا اور دونوں کے بیچ میں « بسم اللہ الرحمن الرحيم » نہیں لکھا ۔ ... (ص/ح)
3. سنن ابن ماجہ --- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل --- باب : قرآن مجید کو کتنے دن میں ختم کرنا مستحب ہے ؟ [سنن ابن ماجہ]
حدیث نمبر: 1345 --- حکم البانی: ضعيف... اوس بن حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس ثقیف کے ایک وفد میں آئے ، تو لوگوں نے قریش کے حلیفوں کو مغیرہ بن شعبہ ؓ کے پاس اتارا ، اور رسول اللہ ﷺ نے بنو مالک کو اپنے ایک خیمہ میں اتارا ، چنانچہ آپ ﷺ ہر رات عشاء کے بعد ہمارے پاس تشریف لاتے ، اور کھڑے کھڑے باتیں کرتے یہاں تک کہ ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں پر بدل بدل کر کھڑے رہتے ، اور اکثر وہ حالات بیان کرتے جو اپنے خاندان قریش سے آپ کو پیش آئے تھے ، اور فرماتے : ” ہم اور وہ برابر نہ تھے ، ہم کمزور اور بے حیثیت تھے ، لیکن جب ہم مدینہ آئے تو لڑائی کا ڈول ہمارے اور ان کے درمیان رہا ، ہم ان کے اوپر ڈول نکالتے اور وہ ہمارے اوپر ڈول نکالتے “ ایک رات آپ ﷺ نے اپنے وقت مقررہ پر آنے میں تاخیر کی ؟ تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے آج رات تاخیر کی ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” میرا قرآن کا وظیفہ پڑھنے سے رہ گیا تھا ، میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اس کو پورا کئے بغیر نکلوں “ ۔ اوس کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سے پوچھا : آپ لوگ قرآن کے وظیفے کیسے مقرر کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : پہلا حزب تین سورتوں کا (بقرہ ، آل عمران اور نساء) دوسرا حزب پانچ سورتوں کا (مائدہ ، انعام ، اعراف ، انفال اور براءۃ) ، تیسرا حزب سات سورتوں کا (یونس ، ہود ، یوسف ، رعد ، ابراہیم ، حجر اور نمل) ، چوتھا حزب نو سورتوں کا (بنی اسرائیل ، کہف ، مریم ، طہٰ ، انبیاء ، حج ، مومنون ، نور اور فرقان) ، پانچواں حزب گیارہ سورتوں کا (شعراء ، نحل ، قصص ، عنکبوت ، روم ، لقمان ، سجدہ ، احزاب ، سبا ، فاطر اور یٰسین) ، اور چھٹا حزب تیرہ سورتوں کا (صافات ، ص ، زمر ، ساتوں حوامیم ، محمد ، فتح اور حجرات) ، اور ساتواں حزب مفصل کا (سورۃ ق سے آخر قرآن تک) ۔ ... (ض)
4. سنن ترمذی --- کتاب: قرآن کریم کے مناقب و فضائل --- باب : سورۃ فاتحہ کی فضیلت کا بیان ۔ [سنن ترمذی]
حدیث نمبر: 2875 --- حکم البانی: صحيح ، صحيح أبي داود ( 1310 ) ، المشكاة ( 2142 / التحقيق الثاني ) ، التعليق الرغيب ( 2 / 216 ) ... ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابی بن کعب ؓ کے پاس سے گزرے وہ نماز پڑھ رہے تھے ، آپ نے فرمایا : ” اے ابی (سنو) وہ (آواز سن کر) متوجہ ہوئے لیکن جواب نہ دیا ، نماز جلدی جلدی پوری کی ، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا : السلام علیک یا رسول اللہ ! (اللہ کے رسول آپ پر سلامتی نازل ہو) ، رسول اللہ ﷺ نے کہا : وعلیک السلام (تم پر بھی سلامتی ہو) ابی ! جب میں نے تمہیں بلایا تو تم میرے پاس کیوں نہ حاضر ہوئے ؟ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا : ” (اب تک) جو وحی مجھ پر نازل ہوئی ہے اس میں تجھے کیا یہ آیت نہیں ملی « استجيبوا للہ وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم » ” اے ایمان والو ! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں “ (انفال ۲۴) ، انہوں نے کہا : جی ہاں ، اور آئندہ إن شاء اللہ ایسی بات نہ ہو گی ۔ آپ نے فرمایا : ” کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہیں ایسی سورت سکھاؤں جیسی سورت نہ تو رات میں نازل ہوئی نہ انجیل میں اور نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن میں ؟ “ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! (ضرور سکھائیے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” نماز میں تم (قرآن) کیسے پڑھتے ہو ؟ “ تو انہوں نے ام القرآن (سورۃ فاتحہ) پڑھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ۔ تورات میں ، انجیل میں ، زبور میں (حتیٰ کہ) قرآن اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی ہے ۔ یہی سبع مثانی (سات آیتیں) ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے “ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- اس باب میں انس بن مالک اور ابوسعید بن معلی ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں ۔ ... (ص/ح)
اس سند سے بھی ابن عباس ؓ سے اسی مفہوم کی روایت آئی ہے اس میں ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہو گیا اور آپ نے ہم سے بیان نہیں کیا کہ سورۃ برات انفال میں سے ہے ابوداؤد کہتے ہیں : شعبی ابو مالک قتادہ اور ثابت بن عمارہ نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحيم نہیں لکھا یہاں تک کہ سورۃ النمل نازل ہوئی یہی اس کا مفہوم ہے
|