تفسير ابن كثير



سورۃ البقرة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ[97] مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ[98]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے اسے تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے، اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوش خبری ہے۔ [97] جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکال کا دشمن ہو تو بے شک اللہ سب کافروں کا دشمن ہے۔ [98]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] (اے نبی!) آپ کہہ دیجیئے کہ جو جبریل کا دشمن ہو جس نے آپ کے دل پر پیغام باری تعالیٰ اتارا ہے، جو پیغام ان کے پاس کی کتاب کی تصدیق کرنے واﻻ اور مومنوں کو ہدایت اور خوشخبری دینے واﻻ ہے [97] (تو اللہ بھی اس کا دشمن ہے) جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو، ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے [98]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کہہ دو کہ جو شخص جبرئیل کا دشمن ہو (اس کو غصے میں مر جانا چاہیئے) اس نے تو (یہ کتاب) خدا کے حکم سے تمہارے دل پر نازل کی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے [97] جو شخص خدا کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہو تو ایسے کافروں کا خدا دشمن ہے [98]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 97، 98،

خصومت جبرائیل علیہ السلام موجب کفر و عصیان ٭٭

امام جعفر طبری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ جب یہودیوں نے جبرائیل علیہ السلام کو اپنا دشمن اور میکائیل علیہ السلام کو اپنا دوست بتایا تھا اس وقت ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:377/2] ‏‏‏‏ لیکن بعض کہتے ہیں کہ امر نبوت کے بارے میں جو گفتگو ان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تھی اس میں انہوں نے یہ کہا تھا۔ بعض کہتے ہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا جو مناظرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں ہوا تھا اس میں انہوں نے یہ کہا تھا۔
379

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہودیوں کی ایک جماعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند سوال کرتے ہیں جن کے صحیح جواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اگر آپ سچے نبی ہیں تو ان کے جوابات دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہتر ہے جو چاہو پوچھو مگر عہد کرو کہ اگر میں ٹھیک ٹھیک جواب دوں گا تو تم میری نبوت کا اقرار کر لو گے اور میری فرمانبرداری کے پابند ہو جاؤ گے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا اور عہد دیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یعقوب کی طرح اللہ جل شانہ کی شہادت کے ساتھ ان سے پختہ وعدہ لے کر انہیں سوال کرنے کی اجازت دی، انہوں نے کہا پہلے تو یہ بتائے کہ توراۃ نازل ہونے سے پہلے اسرائیل علیہ السلام نے اپنے نفس پر کس چیز کو حرام کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب یعقوب علیہ السلام عرق السناء کی بیماری میں سخت بیمار ہوئے تو نذر مانی کہ اگر اللہ مجھے اس مرض سے شفاء دے تو میں اپنی کھانے کے سب سے زیادہ مرغوب چیز اور سب سے زیادہ محبوب چیز پینے کی چھوڑ دوں گا جب تندرست ہو گئے تو اونٹ کا گوشت کھانا اور اونٹنی کا دودھ پینا جو آپ علیہ السلام کو پسند خاطر تھا چھوڑ دیا، تمہیں اللہ کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات اتاری بتاؤ یہ سچ ہے؟ ان سب نے قسم کھا کر کہا کہ ہاں حضور سچ ہے بجا ارشاد ہوا اچھا اب ہم پوچھتے ہیں کہ عورت مرد کے پانی کی کیا کیفیت ہے؟ اور کیوں کبھی لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو مرد کا پانی گاڑھا اور سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زردی مائل ہوتا ہے جو بھی غالب آ جائے اسی کے مطابق پیدائش ہوتی ہے اور شبیہ بھی۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الٰہی سے اولاد نرینہ ہوتی ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الٰہی سے اولاد لڑکی ہوتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں سچ بتاؤ میرا جواب صحیح ہے؟ سب نے قسم کھا کر کہا بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجا ارشاد فرمایا۔

380

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو باتوں پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنایا۔ انہوں نے کہا اچھا یہ فرمائیے کہ تورات میں جس نبی امی کی خبر ہے اس کی خاص نشانی کیا ہے؟ اور اس کے پاس کون سا فرشتہ وحی لے کر آتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی خاص نشانی یہ ہے کہ اس کی آنکھیں جب سوئی ہوئی ہوں اس وقت میں اس کا دل جاگتا رہتا ہے تمہیں اس رب کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو توراۃ دی بتاؤ تو میں نے ٹھیک جواب دیا؟ سب نے قسم کھا کر کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل صحیح جواب دیا۔ اب ہمارے اس سوال کی دوسری شق کا جواب بھی عنایت فرما دیجئیے اسی پر بحث کا خاتمہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا ولی جبرائیل علیہ السلام ہے وہی میرے پاس وحی لاتا ہے اور وحی تمام انبیاء کرام علیہ السلام کے پاس پیغام باری تعالیٰ لاتا رہا۔ سچ کہو اور قسم کھا کر کہو کہ میرا یہ جواب بھی درست ہے؟ انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ جواب تو درست ہے لیکن چونکہ جبرائیل علیہ السلام ہمارا دشمن ہے وہ سختی اور خون ریزی وغیرہ لے کر آتا رہتا ہے اس لیے ہم اس کی نہیں مانیں گے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانیں ہاں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میکائیل صلی اللہ علیہ وسلم وحی لے کر آتے جو رحمت، بارش، پیداوار وغیرہ لے کر آتے ہیں اور ہمارے دوست ہیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور تصدیق کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [طیالسی:2331:حسن] ‏‏‏‏ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ رعد کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ایک فرشتہ ہے جو بادلوں پر مقرر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انہیں ادھر ادھر لے جاتا ہے۔ انہوں نے کہا یہ گرج کی آواز کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اسی فرشتے کی آواز ہے ملاحظہ ہو مسند احمد وغیرہ۔ [مسند احمد:274/1:حسن] ‏‏‏‏
381

صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اس وقت سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما اپنے باغ میں تھے اور یہودیت پر قائم تھے۔ انہوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر سنی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیے کہ قیامت کی پہلی شرط کیا ہے؟ اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے؟ اور کون سی چیز بچہ کو کبھی ماں کی طرف کھینچتی ہے اور کبھی باپ کی طرف، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان تینوں سوالوں کے جواب ابھی ابھی جبرائیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتلائے ہیں سنو، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا وہ تو ہمارا دشمن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر فرمایا پہلی نشانی قیامت کی ایک آگ ہے جو لوگوں کے پیچھے لگے گی اور انہیں مشرق سے مغرب کی طرف اکٹھا کر دے گی۔ جنتیوں کی پہلی خوراک مچھلی کی کلیجی بطور ضیافت ہو گی۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر سبقت کر جاتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی سے سبق لے جاتا ہے تو لڑکی ہوتی ہے یہ جواب سنتے ہی عبداللہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے اور پکار اٹھے حدیث «اشھدان لا الہٰ الا اللہ وانک رسولہ اللہ» پھر کہنے لگے حضور یہودی بڑے بیوقوف لوگ ہیں۔ اگر انہیں میرا اسلام لانا پہلے معلوم ہو جائے گا تو وہ مجھے کہیں گے آپ پہلے انہیں ذرا قائل کر لیجئے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب یہودی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تم میں کیسے شخص ہیں؟ انہوں نے کہا بڑے بزرگ اور دانشور آدمی ہیں بزرگوں کی اولاد میں سے ہیں وہ تو ہمارے سردار ہیں اور سرداروں کی اولاد میں سے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اگر وہ مسلمان ہو جائیں پھر تو تمہیں اسلام قبول کرنے میں کوئی تامل تو نہیں ہو گا؟ کہنے لگے اعوذ باللہ اعوذ باللہ وہ مسلمان ہی کیوں ہونے لگے؟

سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ جو اب تک چھپے ہوئے تھے باہر آ گئے اور زور سے کلمہ پڑھا۔ تو تمام کے تمام شور مچانے لگے کہ یہ خود بھی برا ہے اس کے باپ دادا بھی برے تھے یہ بڑا نیچے درجہ کا آدمی ہے خاندانی کمینہ ہے۔ سیدنا عبداللہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی چیز کا مجھے ڈر تھا۔ [صحیح بخاری:3329] ‏‏‏‏
382

صحیح بخاری میں ہے عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «جبر، میک، اسراف،» ‏‏‏‏ کے معنی «عبد» یعنی بندے کے ہیں۔ [صحیح بخاری:4480] ‏‏‏‏ اور «ایل» کے معنی اللہ کے ہیں تو جبرائیل وغیرہ کے معنی عبداللہ ہوئے بعض لوگوں نے اس کے معنی الٹ بھی کئے ہیں وہ کہتے ہیں ایل کے معنی عبد کے ہیں اور اس سے پہلے کے الفاظ اللہ کے نام ہیں، جیسے عربی میں «عبداللہ، عبدالرحمٰن، عبدالملک، عبدالقدوس، عبدالسلام، عبدالکافی، عبدالجلیل» وغیرہ لفظ «عبد» ہر جگہ باقی رہا اور اللہ کے نام بدلتے رہے اس طرح «ایل» ہر جگہ باقی ہے اور اللہ کے اسماء حسنہ بدلتے رہتے ہیں۔ غیر عربی زبان میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے اور مضاف بعد میں۔ اسی قاعدے کے مطابق ان ناموں میں بھی ہے جیسے جبرائیل میکائیل اسرافیل عزرائیل علیہم السلام وغیرہ۔
383

اب مفسرین کی دوسری جماعت کی دلیل سنیے جو لکھتے ہیں کہ یہ گفتگو جناب عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں سیدنا عمررضی اللہ عنہ روحاء میں آئے۔ دیکھا کہ لوگ دوڑ بھاگ کر ایک پتھروں کے تودے کے پاس جا کر نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جواب ملا کہ اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ہے، آپ بہت ناراض ہوئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں کہیں نماز کا وقت آتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے پہلے چلے جایا کرتے تھے اب ان مقامات کو متبرک سمجھ کر خواہ مخواہ وہیں جا کر نماز ادا کرنا کس نے بتایا؟
384

پھر آپ اور باتوں میں لگ گئے فرمانے لگے میں یہودیوں کے مجمع میں کبھی کبھی چلا جایا کرتا اور یہ دیکھتا رہتا تھا کہ کس طرح قرآن توراۃ کی اور توراۃ قرآن کو سچائی کی تصدیق کرتا ہے یہودی بھی مجھ سے محبت ظاہر کرنے لگے اور اکثر بات چیت ہوا کرتی تھی۔ ایک دن میں ان سے باتیں کر ہی رہا تھا تو راستے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے انہوں نے مجھ سے کہا تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ جا رہے ہیں۔ میں نے کہا میں ان کے پاس جاتا ہوں لیکن تم یہ تو بتاؤ تمہیں اللہ وحدہ کی قسم اللہ جل شانہ برحق کو مدنظر رکھو اس کی نعمتوں کا خیال کرو۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب تم میں موجود ہے رب کی قسم کھا کر بتاؤ کیا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول نہیں مانتے؟ اب سب خاموش ہو گئے ان کے بڑے عالم نے جو ان سب میں علم میں بھی کامل تھا اور سب کا سردار بھی تھا اس نے کہا اس شخص نے اتنی سخت قسم دی ہے تم صاف اور سچا جواب کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے کہا آپ ہی ہمارے بڑے ہیں ذرا آپ ہی جواب دیجئیے۔ اس بڑے پادری نے کہا سنئے جناب! آپ نے زبردست قسم دی ہے لہٰذا سچ تو یہی ہے کہ ہم دل سے جانتے ہیں کہ حضور اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں میں نے کہا افسوس جب یہ جانتے ہو تو پھر مانتے کیوں نہیں کہا صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس آسمانی وحی لے کر آنے والے جبرائیل علیہ السلام ہیں جو نہایت سختی، تنگی، شدت، عذاب اور تکلیف کے فرشتے ہیں ہم ان کے اور وہ ہمارے دشمن ہیں اگر وحی لے کر میکائیل علیہ السلام آتے جو رحمت و رافت تخفیف و راحت والے فرشتے ہیں تو ہمیں ماننے میں تامل نہ ہوتا۔ میں نے کہا اچھا بتاؤ تو ان دونوں کی اللہ کے نزدیک کیا قدر و منزل ہے؟ انہوں نے کہا ایک تو جناب باری کے داہنے بازو ہے اور دوسرا دوسری طرف میں نے کہا اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں جو ان میں سے کسی کا دشمن ہو۔ اس کا دشمن اللہ بھی ہے اور دوسرا فرشتہ بھی کیونکہ جبرائیل علیہ السلام کے دشمن سے میکائیل علیہ السلام دوستی نہیں رکھ سکتے اور میکائیل علیہ السلام کا دشمن جبرائیل علیہ السلام کا دوست نہیں ہو سکتا۔ نہ ان میں سے کسی ایک کا دشمن اللہ تبارک و تعالیٰ کا دوست ہو سکتا ہے نہ ان دونوں میں سے کوئی ایک باری تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر آ سکتا ہے نہ کوئی کام کر سکتا ہے۔ واللہ مجھے نہ تم سے لالچ ہے نہ خوف۔ سنو جو شخص اللہ تعالیٰ کا دشمن ہو اس کے فرشتوں اس کے رسولوں اور جبرائیل و میکائیل علیہم السلام کا دشمن ہو تو اس کافر کا اللہ وحدہ لاشریک بھی دشمن ہے اتنا کہہ کر میں چلا آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا اے ابن خطاب رضی اللہ عنہ مجھ پر تازہ وحی نازل ہوئی ہے میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سنائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھ کر سنائی۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں یہی باتیں ابھی ابھی یہودیوں سے میری ہو رہی تھیں۔ میں تو چاہتا ہی تھا بلکہ اسی لیے حاضر خدمت ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کروں مگر میری آنے سے پہلے لطیف و خبیر سننے دیکھنے والے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچا دی ملاحظہ ہو ابن ابی حاتم وغیرہ مگر یہ روایت منقطع ہے سند متصل نہیں شعبی رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ [تفسیر ابن جریر الطبری:390/3:مرسل] ‏‏‏‏ کا زمانہ نہیں پایا۔
385

آیت کا مطلب یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اللہ کے امین فرشتے ہیں اللہ کے حکم سے آپ کے دل میں اللہ کی وحی پہنچانے پر مقرر ہیں۔ وہ فرشتوں میں سے اللہ کے رسول ہیں کسی ایک رسول سے عداوت رکھنے والا سب رسولوں سے عداوت رکھنے والا ہوتا ہے جیسے ایک رسول پر ایمان سب رسولوں پر ایمان لانے کا نام ہے اور ایک رسول کے ساتھ کفر تمام نبیوں کے ساتھ کفر کرنے کے برابر ہے خود اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کے نہ ماننے والوں کو کافر فرمایا ہے۔ فرماتا ہے آیت «اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا» [ 4۔ النسآء: 150 ] ‏‏‏‏ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے دوسری آیت کے آخر تک پس ان آیتوں میں صراحتاً لوگوں کو کافر کہا جو کسی ایک رسول کو بھی نہ مانیں۔ اسی طرح جبرائیل علیہ السلام کا دشمن اللہ کا دشمن ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی سے نہیں آتے قرآن فرماتا ہے «وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ» [ 19-المریم-64 ] ‏‏‏‏ فرماتا ہے آیت «وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ» [ 26۔ الشعرآء: 192 ] ‏‏‏‏ یعنی ہم اللہ کے حکم کے سوا نہیں اترتے ہیں نازل کیا ہوا رب العالمین کا ہے جسے لے کر روح الامین آتے ہیں اور تیرے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ تو لوگوں کو ہوشیار کر دے.

صحیح بخاری کی حدیث قدسی میں ہے میرے دوستوں سے دشمنی کرنے والا مجھ سے لڑائی کا اعلان کرنے والا ہے۔ [صحیح بخاری:6502] ‏‏‏‏ قرآن کریم کی یہ بھی ایک صفت ہے کہ وہ اپنے سے پہلے کے تمام ربانی کلام کی تصدیق کرتا ہے اور ایمانداروں کے دلوں کی ہدایت اور ان کے لیے جنت کی خوشخبری دیتا ہے جیسے فرمایا آیت «قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاءٌ» [ 41۔ فصلت: 44 ] ‏‏‏‏ فرمایا آیت «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا» [ 17۔ الاسرآء: 82 ] ‏‏‏‏ یعنی یہ قرآن ایمان والوں کے لیے ہدیات و شفاء ہے۔



386

رسولوں میں انسانی رسول اور ملکی رسول سب شامل ہیں جیسے فرمایا آیت «اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ بَصِيْرٌ» [ 22۔ الحج: 75 ] ‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے اپنے رسول چھانٹ لیتا ہے جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام بھی فرشتوں میں ہیں لیکن ان کا خصوصاً نام لیا تاکہ مسئلہ بالکل صاف ہو جائے اور یہ بھی جان لیں کہ ان میں سے ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن ہے بلکہ اللہ بھی اس کا دشمن ہے میکائیل علیہ السلام بھی کبھی کبھی انبیاء کے پاس آتے رہے ہیں جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شروع شروع میں تھے لیکن اس کام پر مقرر جبرائیل علیہ السلام ہیں جیسے میکائیل علیہ السلام روئیدگی اور بارش وغیرہ پر اور جیسے اسرافیل علیہ السلام صور پھونکنے پر۔

ایک صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوتے تب یہ دعا پڑھتے۔ دعا «اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ , وَمِيكَائِيلَ , وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ , عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اللَّهُمَّ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ , إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ» اے اللہ اے جبرائیل میکائیل اسرافیل علیہم السلام کے رب اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے اے ظاہر باطن کو جاننے والے اپنے بندوں کے اختلاف کا فیصلہ تو ہی کرتا ہے، اے اللہ اختلافی امور میں اپنے حکم سے حق کی طرف میری رہبری کر تو جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ [صحیح مسلم:770] ‏‏‏‏ لفظ جبرائیل علیہ السلام وغیرہ کی تحقیق اور اس کے معانی پہلے بیان ہو چکے ہیں۔

حضرت عبدالعزیز بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فرشتوں میں جبرائیل علیہ السلام کا نام خادم اللہ ہے۔ ابوسلیمان دارانی یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے یہ ایک روایت میری روایتوں کے ایک دفتر سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔ جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام کے لفظ میں بہت سارے لغت ہیں اور مختلف قرأت ہیں جن کے بیان کی مناسب جگہ کتب لغت ہیں ہم کتاب کے حجم کو بڑھانا نہیں چاہتے کیونکہ کسی معنی کی سمجھ یا کسی حکم کا مفاد ان پر موقف نہیں۔ اللہ ہماری مدد کرے۔ ہمارا بھروسہ اور توکل اسی کی پاک ذات پر ہے۔ آیت کے خاتمہ میں یہ نہیں فرمایا کہ اللہ بھی ان لوگوں کا دشمن ہے بلکہ فرمایا اللہ کافروں کا دشمن ہے۔ اس میں ایسے لوگوں کا حکم بھی معلوم ہو گیا اسے عربی میں مضمر کی جگہ مظہر کہتے ہیں اور کلام عرب میں اکثر اس کی مثالیں شعروں میں بھی پائی جاتی ہیں گویا یوں کہا جاتا ہے کہ جس نے اللہ کے دوست سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی اور جو اللہ کا دشمن اللہ بھی اس کا دشمن اور جس کا دشمن خود اللہ قادر مطلق ہو جائے اس کے کفر و بربادی میں کیا شبہ رہ گیا؟

صحیح بخاری کی حدیث پہلے گزر چکی کہ اللہ فرماتا ہے میرے دوستوں سے دشمنی رکھنے والے کو میں اعلان جنگ دیتا ہوں۔ [صحیح بخاری:6502] ‏‏‏‏ میں اپنے دوستوں کا بدلہ لے لیا کرتا ہوں اور حدیث میں ہی ہے جس کا دشمن میں ہو جاؤں وہ برباد ہو کر ہی رہتا ہے۔ [سنن ابن ماجه:2442،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏
387



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.