تفسير ابن كثير



سورۃ الأعراف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَقَالَ مُوسَى يَا فِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ[104] حَقِيقٌ عَلَى أَنْ لَا أَقُولَ عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ[105] قَالَ إِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ[106]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور موسیٰ نے کہا اے فرعون! بے شک میں جہانوں کے رب کی طرف سے بھیجا ہوا ہوں۔ [104] اس بات پر پوری طرح قائم ہوں کہ اللہ پر حق کے سوا نہ کہوں، بلا شبہ میں تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل لے کر آیا ہوں، سو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے۔ [105] اس نے کہا اگر تو کوئی نشانی لے کر آیا ہے تو وہ لے آ، اگر تو سچوں میں سے ہے۔ [106]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے فرعون! میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر ہوں [104] میرے لیے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل بھی ﻻیا ہوں، سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے [105] فرعون نے کہا، اگر آپ کوئی معجزه لے کر آئے ہیں تو اس کو اب پیش کیجئے! اگر آپ سچے ہیں [106]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور موسیٰ نے کہا کہ اے فرعون میں رب العالمین کا پیغمبر ہوں [104] مجھ پر واجب ہے کہ خدا کی طرف سے جو کچھ کہوں سچ ہی کہوں۔ میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ سو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے کی رخصت دے دیجیے [105] فرعون نے کہا اگر تم نشانی لے کر آئے ہو تو اگر سچے ہو تو لاؤ (دکھاؤ) [106]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 104، 105، 106،

موسیٰ علیہ السلام اور فرعون ٭٭

موسیٰ علیہ السلام کے اور فرعون کے درمیان جو گفتگو ہوئی، اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اللہ کے کلیم علیہ السلام نے فرمایا کہ اے فرعون! میں رب العالمین کا رسول ہوں جو تمام عالم کا خالق و مالک ہے۔ مجھے یہی لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں وہی باتیں کہوں جو سراسر حق ہوں «ب» اور «علی» یہ متعاقب ہوا کرتے ہیں۔ جیسے «رَمَیْتَ بِالْقَوْسِ» اور «رَمَیْتَ علی الْقَوْسِ» وغیرہ۔

اور بعض مفسرین کہتے ہیں: «حَقِیْقٌ» کے معنی «حَرِیْصٌ» کے ہیں۔

یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ مجھ پر واجب اور حق ہے کہ اللہ ذوالمنن کا نام لے کر وہی خبر دوں جو حق و صداقت والی ہو کیونکہ میں اللہ عزوجل کی عظمت سے واقف ہوں، میں اپنی صداقت پر الٰہی دلیل بھی ساتھ ہی لایا ہوں۔ تو قوم بنی اسرائیل کو اپنے مظام سے آزاد کر دے، انہیں اپنی زبردستی کی غلامی سے نکال دے، انہیں ان کے رب کی عبادت کرنے دے۔ یہ ایک زبردست بزرگ پیغمبر کی نسل سے ہیں یعنی یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل اللہ علیہم السلام کی اولاد ہیں۔

فرعون نے کہا: میں تجھے سچا نہیں سمجھتا، نہ تیری طلب پوری کروں گا اور اگر تو اپنے دعوے میں واقعی سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کر۔
3010



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.