تفسير ابن كثير



سورۃ الأنفال

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ[50] ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ[51]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور کاش! تو دیکھے جب فرشتے ان لوگوں کی جان قبض کرتے ہیں جنھوں نے کفر کیا، ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے ہیں۔ اور جلنے کا عذاب چکھو۔ [50] یہ اس کے بدلے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اس لیے کہ اللہ بندوں پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں۔ [51]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ان کے منھ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں (اور کہتے ہیں) تم جلنے کا عذاب چکھو [50] یہ بسبب ان کاموں کے جو تمہارے ہاتھوں نے پہلے ہی بھیج رکھا ہے بیشک اللہ اپنے بندوں پر ﻇلم کرنے واﻻ نہیں [51]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور کاش تم اس وقت (کی کیفیت) دیکھو۔ جب فرشتے کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر (کوڑے اور ہتھوڑے وغیرہ) مارتے (ہیں اور کہتے ہیں) کہ (اب) عذاب آتش (کا مزہ) چکھو [50] یہ ان (اعمال) کی سزا ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں۔ اور یہ (جان رکھو) کہ خدا بندوں پر ظلم نہیں کرتا [51]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 50، 51،

کفار کے لیے سکرات موت کا وقت بڑا شدید ہے ٭٭

” کاش کہ تو اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تو دیکھتا کے فرشتے کس بری طرح کافروں کی روح قبض کرتے ہیں وہ اس وقت ان کے چہروں اور کمروں پر مارتے ہیں اور کہتے ہیں آگ کا عذاب اپنی بداعمالیوں کے بدلے چکھو۔ “

یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ بھی بدر کے دن کا ہے کہ سامنے سے ان کافروں کے چہروں پر تلواریں پڑتی تھیں اور جب بھاگتے تھے تو پیٹھ پر وار پڑتے تھے فرشتے انکا خوب بھرتہ بنا رہے تھے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں نے ابوجہل کی پیٹھ پر کانٹوں کے نشان دیکھے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہ فرشتوں کی مار کے نشان ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:16220:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏

حق یہ ہے کہ یہ آیت بدر کے ساتھ مخصوص تو نہیں الفاظ عام ہیں ہر کافر کا یہی حال ہوتا ہے۔ سورۃ قتال میں بھی اس بات کا بیان ہوا ہے اور سورۃ الانعام کی «وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ» [ 6-الأنعام: 93 ] ‏‏‏‏ میں بھی اس کا بیان مع تفسیر گذر چکا ہے۔

چونکہ یہ نافرمان لوگ تھے ان کی موت سے بدن میں چھپتی پھرتی ہیں جنہیں فرشتے جبراً گھسیٹا جاتا ہے جس طرح کسی زندہ شخص کی کھال کو اتارا جائے اسی کے ساتھ رگیں اور پٹھے بھی آ جاتے ہیں۔ [مسند احمد:287/4:حسن] ‏‏‏‏ فرشتے اس سے کہتے ہیں اب جلنے کا مزہ چکھو۔ یہ تمہاری دینوی بداعمالی کی سزا ہے اللہ تعالیٰ ظالم نہیں وہ تو عادل حاکم ہے۔ برکت و بلندی، غنا، پاکیزگی والا بزرگ اور تعریفوں والا ہے۔

چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث قدسی میں ہے کہ ” میرے بندو میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی حرام کر دیا ہے پس آپس میں کوئی کسی پر ظلم و ستم نہ کرے میرے غلاموں میں تو صرف تمہارے کئے ہوئے اعمال ہی کو گھیرے ہوئے ہوں بھلائی پاکر میری تعریفیں کرو اور اس کے سوا کچھ اور دیکھو تو اپنے تئیں ہی ملامت کرو۔“ [صحیح مسلم:2577] ‏‏‏‏
3338



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.