تفسير ابن كثير



سورۃ التوبة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُنْ مَعَ الْقَاعِدِينَ[86] رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ[87]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لائو اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو ان میں سے دولت والے تجھ سے اجازت مانگتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں چھوڑ دے کہ ہم بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ رہ جائیں۔ [86] وہ اس پر راضی ہوگئے کہ پیچھے رہنے والی عورتوں کے ساتھ رہ جائیں اور ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی، سو وہ نہیں سمجھتے۔ [87]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے تو اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو ان میں سے دولت مندوں کا ایک طبقہ آپ کے پاس آکر یہ کہہ کر رخصت لے لیتاہے کہ ہمیں تو بیٹھے رہنے والوں میں ہی چھوڑ دیجئے [86] یہ تو خانہ نشین عورتوں کاساتھ دینے پر ریجھ گئے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اب وه کچھ سمجھ عقل نہیں رکھتے [87]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے کہ خدا پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ ہو کر لڑائی کرو تو جو ان میں دولت مند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں تو رہنے ہی دیجیئے کہ جو لوگ گھروں میں رہیں گے ہم بھی ان کے ساتھ رہیں [86] یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں۔ (گھروں میں بیٹھ) رہیں ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے تو یہ سمجھتے ہی نہیں [87]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 86، 87،

باب

ان لوگوں کی برائی بیان ہو رہی ہے جو وسعت، طاقت، قوت ہوتے ہوئے جہاد کے لیے نہیں نکلتے جی چرا جاتے ہیں اور حکم الہٰی سن کر پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ آ کر اپنے رک رہنے کی اجازت چاہتے ہیں۔

ان کی بے حمیتی تو دیکھو کہ یہ عورتوں جیسے ہو گئے۔ لشکر چلے گئے یہ نامرد زنانے عورتوں کی طرح پیچھے رہ گئے۔ بوقت جنگ بزدل ڈرپوک اور گھروں میں گھسے رہنے والے اور بوقت امن بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے، یہ بھونکنے والے کتوں اور گرجنے والے بادلوں کی طرح ڈھول کے پول ہیں۔

چنانچہ ایک اور جگہ خود قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ خوف کے وقت ایسی آنکھیں پھیرنے لگتے ہیں جیسے کوئی مر رہا ہو، اور جہاں وہ موقع گذر گیا لگے چرب زبانی کرنے اور لمبے چوڑے دعوے کرنے اور باتیں بنانے۔ امن کے وقت تو مسلمانوں میں فساد پھلانے لگتے ہیں اور وہ بلند و بانگ بہادری کے ڈھول پیٹتے ہیں کہ کچھ ٹھیک نہیں لیکن لڑائی کے وقت عورتوں کی طرح چوڑیاں پہن کر پردہ نشین بن جاتے ہیں بل اور سوراخ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے آپ کو چھپاتے پھرتے ہیں۔

ایماندار تو سورت اترنے اور اللہ تعالیٰ کے حکم ہونے کا انتظار کرتے ہیں لیکن بیمار دلوں والے جہاں سورت اتری، اور جہاد کا حکم سنا کہ آنکھیں بند کر لیں۔ ان پر افسوس ہے اور ان کے لیے تباہی خیز مصیبت ہے۔ اگر یہ اطاعت گزار ہوتے اگر ان کی زبان سے اچھی بات نکلتی ان کے ارادے اچھے ہوتے یہ اللہ تعالیٰ کی باتوں کی تصدیق کرتے تو یہی چیز ان کے حق میں بہتر تھی لیکن ان کے دلوں پر تو ان کی بداعمالیوں سے مہر لگ چکی ہے اب تو ان میں اس بات کی صلاحیت بھی نہیں رہی کہ اپنے نفع نقصان کو ہی سمجھ لیں۔
3553



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.