تفسير ابن كثير



سورۃ التوبة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ[100]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ [100]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے [100]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے [100]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 100،

سابقوں کو بشارت ٭٭

اللہ تعالٰی خبر دے رہا ہے کہ میں ان مہاجرین اور انصار اور تابعین سے راضی ہوں جنہوں نے میری رضا مندی اور خوشنودی حاصل کرنے میں سبقت کی ہے اور میری خوشنودی اس طرح ثابت ہے کہ میں نے ان کے لئے جناتِ نعیم تیار کر رکھی ہے۔ شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ان سے مراد وہ مہاجر و انصار میں سے سابقین و اولین وہ ہیں جنہوں نے صلح حدیبیہ میں بیت رضوان کا شرف حاصل کیا اور شعبی رحمہ اللہ سیدنا موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما اور سعید بن المسیّب اور محمد بن سیرین اور حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبلتین کی طرف نماز پڑھی تھی۔

محمد بن کعب رحمہ اللہ القرظی کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک آدمی کے پاس سے گزرے اور وہ یہ آیت پڑھ رہاتھا «وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ» [9-التوبة:100] ‏‏‏‏ تو عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور پوچھا کہ کس نے تمھیں یہ پڑھایا ہے؟ تو کہنے لگا کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے! تو کہنے لگے اچھا چلو میں تمھیں ابی کے پاس لے چلتا ہوں تا کہ پوچھ لوں۔ اور جب حضرت ابی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو پوچھا، کیا تم نے اس آیت کو اس طرح پڑھنا بتایا ہے؟ تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں فرمایا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے؟ کہا ہاں! تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کہنے لگے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہم نے وہ اعلٰی و ارفع درجہ پا لیا ہے کہ ہمارے بعد کوئی دوسرا یہ منزلت حاصل نہیں کر سکتا۔ تو ابی رضی اللہ عنہ کہنے لگے اس آیت کی تصدیق سورۃ جمعہ کے اول میں بھی ہے۔

یعنی «وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ» [ 62-الجمعة: 3 ] ‏‏‏‏ اور سورۃ الحشرمیں بھی «وَالَّذِيْنَ جَاءُوْ مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ» [ 59- الحشر: 10 ] ‏‏‏‏ اور سورۃ الانفال میں بھی ہے۔ «وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَـٰئِكَ مِنكُمْ» [ 8- الانفال: 75 ] ‏‏‏‏الخ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی روایت کی ہے اور کہا کہ حسن بصری «وَالْاَنٰصَارِ» کے لفظ پڑھتے ہیں۔ اور «وَّالسّٰبِقُوْنَ اَلْاَوَّلُوْنٗ» پر عطف قرار دیتے تھے۔ گویا عبارت یوں ہوئی کہ مہاجرین میں سے سابقین اولین اور انصار اور ان کے تابعین سے اللہ راضی ہے۔

افسوس کیا کم بختی ہے ان لوگوں کی جو ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض رکھتے ہیں انہیں گالیاں دیتے ہیں یہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو سبُّ و شتم کرتے ہیں،
3572

خصوصاً وہ صحابی جو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا سردار ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسی کا درجہ ہے جس کو افضل صحابہ رضی اللہ عنہ کا درجہ حاصل ہے یعنی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہما اور خلیفہ اعظم ابوبکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہما یہ رافضیوں کا بامراد فرقہ افضل صحابی سے دشمنی رکھتا ہے انہیں گالی گلوچ کرتا ہے۔ ایسی حرکت سے اللہ کی پناہ۔

یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انکی عقلیں اوندھی ہو گئی ہیں ان کے قلوب الٹ گئے ہیں، اگر وہ کمبخت ان لوگوں کو گالیاں دیں جن سے اللہ راضی ہو چکا ہے اور قرآن میں اپنی رضا مندی کی انھیں سند دے دی تو پھر کسی منہ سے وہ قرآن پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں اب قرآن پر ایمان ہی کہاں رہا؟ اہل سنت ان لوگوں کی قدر کرتے ہیں اور ان سے راضی ہیں جن سے اللہ راضی ہے اور یہ اہل سنت برا بھلا کہتے ہیں تو ان کو جنہیں خعد اللہ نے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے برا کہا ہے اور ان لوگوں کو دوست رکھتے ہیں جن کو اللہ دوست رکھتا ہے اور ان کے مخالف ہیں کہ اللہ خود جن کا مخالف ہے یہ اتباعِ ہدایت کرتے ہیں بدعتی نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہیں اور مذہب و اعتقادات میں نئے نئے شاخسانے نہیں نکالتے۔ فلاح پانے والے اور مومن بندوں کی جماعت یہی ہے۔
3573



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.