تفسير ابن كثير



سورۃ التوبة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ[105]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور کہہ دے تم عمل کرو، پس عنقریب اللہ تمھار ا عمل دیکھے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے بھی اور عنقریب تم ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے، تو وہ تمھیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ [105]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کہہ دیجئے کہ تم عمل کیے جاؤ تمہارے عمل اللہ خود دیکھ لے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے (بھی دیکھ لیں گے) اور ضرور تم کو ایسے کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے واﻻ ہے۔ سو وه تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلا دے گا [105]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ان سے کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ۔ خدا اور اس کا رسول اور مومن (سب) تمہارے عملوں کو دیکھ لیں گے۔ اور تم غائب وحاضر کے جاننے والے (خدائے واحد) کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تم کو بتا دے گا [105]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 105،

باب

مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ مخالفین امر اللہ کے لئے اللہ کی طرف سے وعید ہے کہ ان کے اعمال اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین میں بھی ان کے اعمال ظاہر کئے جائیں گے اور قیامت کے روز یہ ہونا ضرور ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ «يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لاَ تَخْفَى مِنكُمْ خَافِيَةٌ» [ 69-الحاقة: 18 ] ‏‏‏‏ یعنی بروز قیامت تمھارے اعمال پیش ہوں گے اور کوئی ڈھکی چھپی بات بھی پوشیدہ نہ رہ سکے گی۔ اور فرمایا اللہ پاک نے «يَوْمَ تُبْلَى السَّرَآئِرُ» [ 86-الطارق: 9 ] ‏‏‏‏ یعنی دلوں کے چھپے ہوئے بھید ظاہر ہو جائیں گے اور فرمایا «وَحُصِّلَ مَا فِى الصُّدُورِ» [ 100-العاديات: 10 ] ‏‏‏‏ یعنی دلوں میں جو کچھ ہے وہ ظاہر ہو جائے گا اور دنیا کے لوگ اس سے واقف ہو جائیں گے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ حسن بن موسیٰ نے باسناد مرفوعاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی سخت پتھر کے اندر بھی سما جائے جس میں نہ کوئی سوراخ باقی رہے نہ دروازہ اس کے اندر بھی چھپ کر کوئی کوئی عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی لوگوں پر ایسا ظاہر کردے گا گویا یہ ان کے سامنے ہوا ہے۔ [مسند احمد:28/3:ضعیف] ‏‏‏‏ اور حدیث مین وارد ہے کہ زندوں کے اعمال ان اموات پر پیش کئے جاتے ہیں جو ان کے عزیز و اقارب ہیں یا ان کے قبائل ہیں اور جو اس وقت عالم برزخ میں ہیں جیسا کہ ابوداؤد الطیالسی نے کہا ہے۔

صلت بن دینار نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھارے اعمال تمھارے مردہ اقرباء اور عشائر پر ان کی قبروں میں پیش کئے جاتے ہیں، اگر اعمال خیر ہوتے ہیں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر بد ہوں تو دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ!تو اپنی اطاعت کی انہیں توفیق عطا فرما۔ [مسند طیالسی:1794:ضعیف] ‏‏‏‏ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبدالرزاق نے ہمیں خبر دی کہ سفیان نے ایک شخص کو کہتے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تمھارے اعمال تمھارے مردہ اقارب و عشائر پر پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ اچھے عمل ہوں تو وہ مردے خوش ہو جاتے ہیں اور اچھے نہ ہوں تو کہتے ہیں کہ اے اللہ! تو انہیں موت نہ دے جب تک تو انہیں بھی ایسی ہدایت نہ دے جیسی تو نے ہمیں دی تھی۔ [مسند احمد:165/3:ضعیف] ‏‏‏‏
3584

امام بخاری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ام المؤمنین عائشہرضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کی عمل نیک تمھیں پسند خاطر ہوتو کہو کئے جاؤ اللہ تمھارے عمل کو دیکھ رہا ہے اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین بھی اس سے واقف ہو رہے ہیں۔ [صحیح بخاری، تعلیقاً:کتاب التوحید:3530] ‏‏‏‏ اسی قسم کی ایک اور حدیث میں وارد ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ بالاسناد سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے اچھے عمل کو دیکھ کر خوش نہ ہو جاؤ انتظار کرو کہ اس کا خاتمہ بھی اس عمل نیک پر ہوتا ہے یا نہیں۔ اس لئے کہ عامل ایک زمانہ طویل تک نیک عمل کرتا رہتا ہے اور وہ اس نیک عمل پر مر جائے تو جنت میں داخل ہو جائے لیکن ناگہاں اس کے حالات بدل جاتے ہیں اور وہ برے اعمال کرنے لگتا ہے۔ اور ایک بندہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک زمانے تک برے اعمال کرتا رہتا ہے کہ اگر اسی پر مر جائے تو دوزخ میں چلا جائے گا لیکن یکایک اس کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ نیک عمل کرنے لگتا ہے۔ اللہ جب اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمائے تو موت سے پہلے اس کو نیکی کی توفیق دے دیتا ہے اور وہ نیکی پر مرتا ہے۔ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیسے ہوتا ہے؟ تو فرمایا کہ قبض روح کے وقت وہ عمل صالح کے ساتھ ہوتا ہے۔ [مسند احمد:120/3:صحیح] ‏‏‏‏
3585



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.