تفسير ابن كثير



سورۃ التوبة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ[129]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دے مجھے اللہ ہی کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اسی پر بھروسا کیا اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔ [129]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پھر اگر رو گردانی کریں تو آپ کہہ دیجیئے کہ میرے لیے اللہ کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وه بڑے عرش کا مالک ہے [129]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] پھر اگر یہ لوگ پھر جائیں (اور نہ مانیں) تو کہہ دو کہ خدا مجھے کفایت کرتا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی پر میرا بھروسہ ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے [129]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 129،

منحرفینِ شریعت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیزار ہو جائیں ٭٭

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب سے آخری آیت قرآن کی یہی ہے۔ [مسند احمد:117/5:ضعیف] ‏‏‏‏

مروی ہے کہ جب خلافت صدیقی میں قرآن کو جمع کیا گیا تو کاتبوں کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ لکھواتے تھے، جب اس سے پہلے کی آیت «…لاَّ يَفْقَهُون» تک پہنچے تو کہنے لگے کہ یہی آخری آیت ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو آیتیں اور پڑھوائی ہیں پھر آپ نے ان دونوں آیتوں کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ قرآن کی آخری آیتیں یہ ہیں۔ پس ختم بھی اسی پر ہوا جس پر شروع ہوا تھا یعنی «لا الہٰ الا اللہ» پر۔ یہی وحی تمام نبیوں ہر آتی اہی ہے کہ میرے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں۔ تم سب میری عبادت کرو۔ [مسند احمد:134/5:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ روایت بھی غریب ہے۔

مسند احمد میں ہے کہ سیدنا حارث بن خزیمہ رضی اللہ عنہ ان دو آیتوں کو لے کر آئے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان سے گواہ طلب کیا۔ انہوں نے کہا گواہ کی تو مجھے خبر نہیں، ہاں سورۃ برأت کی یہ دو آخری آیتیں مجھے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہیں۔ اور مجھے خوب اچھی طرح حفظ ہیں۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ میں نے بھی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ یہ گواہی سن کر آپ نے فرمایا: اگر ان کے ساتھ تیسری آیت بھی ہوتی تو میں اسے علیحدہ سورت بنا لیتا تم انہیں قرآن کی کسی سورت کے ساتھ لکھ لو۔ چنانچہ سورۃ براۃ کے آخر میں یہ لکھ لی گئیں۔ [مسند احمد:1715:ضعیف] ‏‏‏‏

پہلے یہ بات بھی بیان ہو چکی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہی قرآن کے جمع کرنے کا مشورہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیا تھا اور بحکم خلیفہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے جمع کرنا شروع کیا تھا اس جماعت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آمد و رفت رکھتے تھے۔

صحیح حدیث میں ہے سیدنا زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ سورۃ برات کا آخری حصہ میں نے خزیمہ بن ثابت یا ابوخزیمہ کے پاس پایا۔ [صحیح بخاری:4679] ‏‏‏‏

یہ بھی ہم لکھ آئے ہیں کہ ایک جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کا مذاکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کیا جیسے کہ سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا تھا جب کہ ان کے سامنے اس کی ابتدائی بات کہی تھی۔ واللہ اعلم۔

سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص صبح شام «حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ» کو سات سات مرتبہ پڑھ لے اللہ تعالیٰ اسے اس کی تمام پریشانیوں سے نجات دے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ خواہ صداقت سے پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو [سنن ابوداود:5081،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن یہ زیادتی غریب ہے۔

ایک مرفوع روایت بھی اسی قسم کی ہے لیکن وہ بہت منکر ہے واللہ اعلم۔
3644



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.