تفسير ابن كثير



سورۃ يونس

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ[41] وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ أَفَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ[42] وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْظُرُ إِلَيْكَ أَفَأَنْتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوا لَا يُبْصِرُونَ[43] إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَكِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ[44]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اگر وہ تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے میرے لیے میرا عمل ہے اور تمھارے لیے تمھارا عمل، تم اس سے بری ہو جو میں کرتا ہوں اور میں اس سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو۔ [41] اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو تیری طرف کان لگاتے ہیں، تو کیا تو بہروں کو سنائے گا، اگرچہ وہ نہ سمجھتے ہوں۔ [42] اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو تیری طرف دیکھتے ہیں، تو کیا تو اندھوں کو راستہ دکھائے گا، اگرچہ وہ بصیرت نہ رکھتے ہوں۔ [43] بے شک اللہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا اور لیکن لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ [44]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور اگر آپ کو جھٹلاتے رہیں تو یہ کہہ دیجئے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں [41] اور ان میں بعض ایسے ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے بیٹھے ہیں۔ کیا آپ بہروں کو سناتے ہیں گو ان کو سمجھ بھی نہ ہو؟ [42] اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ آپ کو تک رہے ہیں۔ پھر کیا آپ اندھوں کو راستہ دکھلانا چاہتے ہیں گو ان کو بصیرت بھی نہ ہو؟ [43] یہ یقینی بات ہے کہ اللہ لوگوں پر کچھ ﻇلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ﻇلم کرتے ہیں [44]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اگر یہ تمہاری تکذیب کریں تو کہہ دو کہ مجھ کو میرے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمہارے اعمال (کا) تم میرے عملوں کا جواب دہ نہیں ہو اور میں تمہارے عملوں کا جوابدہ نہیں ہوں [41] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو کیا تم بہروں کو سناؤ گے اگرچہ کچھ بھی (سنتے) سمجھتے نہ ہوں [42] اور بعض ایسے ہیں کہ تمھاری طرف دیکھتے ہیں۔ تو کیا تم اندھوں کو راستہ دکھاؤ گے اگرچہ کچھ بھی دیکھتے (بھالتے) نہ ہوں [43] خدا تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں [44]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 41، 42، 43، 44،

مشرکین سے اجتناب فرما لیجئے ٭٭

فرمان ہوتا ہے کہ ” اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہ مشرکین تجھے جھوٹا ہی بتلاتے رہیں تو تو ان سے اور ان کے کاموں سے اپنی بیزاری کا اعلان کر دے۔ اور کہہ دے کہ «فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ» تمہارے اعمال تمہارے ساتھ میرے اعمال میرے ساتھ “۔

جیسے کہ وہ سورۃ «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» [109-الکافرون] ‏‏‏‏ میں بیان ہوا ہے، اور جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھیوں نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ» [60-الممتحنة:4] ‏‏‏‏ ” ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے بیزار ہیں، جنہیں تم نے اللہ کے سوا اپنا معبود بنا رکھا ہے “۔

ان میں سے بعض تیرا پاکیزہ کلام بھی سنتے ہیں اور خود اللہ تعالیٰ کا بلند و بالا کلام بھی ان کے کانوں میں پڑ رہا ہے۔ لیکن ہدایت نہ تیرے ہاتھ نہ ان کے ہاتھ گو یہ فصیح و صحیح کلام دلوں میں گھر کرنے والا، انسانوں کو پورا نفع دینے والا ہے۔ یہ کافی اور وافی ہے لیکن بہروں کو کون سنا سکے؟ یہ دل کے کان نہیں رکھتے۔ اللہ ہی کے ہاتھ ہدایت ہے۔ یہ تجھے دیکھتے ہیں، تیرے پاکیزہ اخلاق، تیری ستھری تعلیم تیری نبوت کی روشن دلیلیں ہر وقت ان کے سامنے ہیں لیکن ان سے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ مومن تو انہیں دیکھ کر ایمان بڑھاتے ہیں۔ لیکن ان کے دل اندھے ہیں عقل و بصیرت ان میں نہیں ہے۔
3702

مومن وقار کی نظر ڈالتے ہیں اور یہ حقارت کی۔ ہر وقت ہنسی مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ پس اپنے اندھے پن کی وجہ سے راہ ہدایت دیکھ نہیں سکتے۔ اس میں بھی اللہ کی حکمت کار ہے کہ ایک تو دیکھے اور سنے اور نفع پائے دوسرا دیکھے سنے اور نفع سے محروم رہے۔ اسے اللہ کا ظلم نہ سمجھو وہ تو سراسر عدل کرنے والا ہے، کسی پر کبھی کوئی ظلم وہ روا نہیں رکھتا۔ لوگ خود اپنا برا آپ ہی کر لیتے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «‏‏‏‏وَإِذَا رَأَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَـٰذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّـهُ رَسُولًا إِن كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا» ‏‏‏‏ [25-الفرقان:41، 42] ‏‏‏‏

اللہ عزوجل اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی فرماتا ہے کہ «يا عِبَادِي إني حَرَّمْتُ الظُّلْمَ على نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فلا تَظَالَمُوا، يا عِبَادِي، إنما هِيَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيهَا لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّيكُمْ إِيَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدْ اللَّهَ، وَمَنْ وَجَدَ غير ذلك فلا يَلُومَنَّ إلا نَفْسَهُ» اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی اسے حرام کر دیا ہے۔ خبردار ایک دوسرے پر ظلم ہرگز نہ کرنا۔ اس کے آخر میں ہے اے میرے بندو! یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں جنہیں میں جمع کر رہا ہوں پھر تمہیں ان کا بدلہ دونگا۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کا شکر بجا لائے اور جو اس کے سوا کچھ اور پائے وہ صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے ۔ [صحیح مسلم:2577] ‏‏‏‏
3703



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.