تفسير ابن كثير



سورۃ يوسف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ[16] قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ[17] وَجَاءُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ[18]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور وہ اپنے باپ کے پاس اندھیرا پڑے روتے ہوئے آئے۔ [16] کہا اے ہمارے باپ! بے شک ہم دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلتے چلے گئے اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو اسے کوئی بھیڑیا کھا گیا اور تو ہر گز ہمارا اعتبار کرنے والا نہیں، خواہ ہم سچے ہوں۔ [17] اور وہ اس کی قمیص پر ایک جھوٹا خون لگا لائے۔ اس نے کہا بلکہ تمھارے لیے تمھارے دلوں نے ایک کام مزین بنا دیا ہے، سو (میرا کام) اچھا صبر ہے اور اللہ ہی ہے جس سے اس پر مدد مانگی جاتی ہے جو تم بیان کرتے ہو۔ [18]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور عشا کے وقت (وه سب) اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے پہنچے [16] اور کہنے لگے کہ ابا جان ہم تو آپس میں دوڑ میں لگ گئے اور یوسف (علیہ السلام) کو ہم نے اسباب کے پاس چھوڑا پس اسے بھیڑیا کھا گیا، آپ تو ہماری بات نہیں مانیں گے، گو ہم بالکل سچے ہی ہوں [17] اور یوسف کے کرتے کو جھوٹ موٹ کے خون سے خون آلود بھی کر ﻻئے تھے، باپ نے کہا یوں نہیں، بلکہ تم نے اپنے دل ہی سے ایک بات بنا لی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے، اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے [18]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (یہ حرکت کرکے) وہ رات کے وقت باپ کے پاس روتے ہوئے آئے [16] (اور) کہنے لگے کہ اباجان ہم تو دوڑنے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہوگئے اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔ اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے [17] اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔ یعقوب نے کہا (کہ حقیقت حال یوں نہیں ہے) بلکہ تم اپنے دل سے (یہ) بات بنا لائے ہو۔ اچھا صبر (کہ وہی) خوب (ہے) اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں خدا ہی سے مدد مطلوب ہے [18]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 16، 17، 18،

بھائیوں کی واپسی اور معذرت ٭٭

چپ چاپ ننھے بھیا پر، اللہ کے معصوم نبی پر، باپ کی آنکھ کے تارے پر ظلم وستم کے کے پہاڑ توڑ کر رات ہوئے باپ کے پاس سرخ رو ہونے اور اپنی ہمدردی ظاہر کرنے کے لیے غمزدہ ہو کر روتے ہوئے پہنچے اور اپنے ملال کا یوسف علیہ السلام کے نہ ہونے کا سبب یہ بیان کیا کہ ہم نے تیر اندازی اور ڈور شروع کی۔ چھوٹے بھائی کو اسباب کے پاس چھوڑا۔ اتفاق کی بات ہے اسی وقت بھیڑیا آ گیا اور بھائی کا لقمہ بنا لیا۔ چیڑ پھاڑ کر کھا گیا۔ پھر باپ کو اپنی بات صحیح طور پر جچانے اور ٹھیک باور کرانے کے لیے پانی سے پہلے بند باندھتے ہیں کہ ہم اگر آپ کے نزدیک سچے ہی ہوتے تب بھی یہ واقعہ ایسا ہے کہ آپ ہمیں سچا ماننے میں تامل کرتے۔ پھر جب کہ پہلے ہی سے آپ نے اپنا ایک کھٹکا ظاہر کیا ہو اور خلاف ظاہر واقع میں ہی اتفاقاً ایسا ہی ہو بھی جائے تو ظاہر ہے کہ آپ اس وقت تو وہ ہمیں سچا مان ہی نہیں سکتے۔ ہیں تو ہم سچے ہی لیکن آپ بھی ہم پر اعتبار نہ کرنے میں ایک حد تک حق بجانب ہیں۔ کیونکہ یہ واقعہ ہی ایسا انوکھا ہے ہم خود حیران ہیں کہ ہو کیا گیا یہ تو تھا زبانی کھیل ایک کام بھی اسی کے ساتھ کر لائے تھے یعنی بکری کے ایک بچے کو ذبح کر کے اس کے خون سے یوسف کا پیراہن داغدار کر دیا کہ بطور شہادت کے ابا کے سامنے پیش کریں گے کہ دیکھو یہ ہیں یوسف بھائی کے خون کے دھبے ان کے کرتے پر۔
3967

لیکن اللہ کی شان چور کے پاؤں کہاں؟ سب کچھ تو کیا لیکن کرتا پھاڑنا بھول گئے۔ اس کے لیے باپ پر سب مکر کھل گیا۔ لیکن اللہ کے نبی علیہ السلام نے ضبط کیا اور صاف لفظوں میں گو نہ کہا تاہم بیٹوں کو بھی پتہ چل گیا کہ ابا جی کو ہماری بات جچی نہیں فرمایا کہ تمہارے دل نے یہ تو ایک بات بنادی ہے۔ خیر میں تو تمہاری اس مذبوحی حرکت پر صبر ہی کروں گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے اس دکھ کو ٹال دے۔ تم جو ایک جھوٹی بات مجھ سے بیان کر رہے ہو اور ایک محال چیز پر مجھے یقین دلا رہے ہو اور اس پر میں اللہ سے مدد طلب کرتا ہوں اور اس کی مدد شامل حال رہے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائے گا۔ سیدنا ابن عباس کا قول ہے کہ کرتا دیکھ کر آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ تعجب ہے بھیڑیا یوسف علیہ السلام کو کھا گیا اس کا پیراہن خون آلود ہو گیا مگر کہیں سے ذرا بھی نہ پھٹا۔ خیر میں صبر کروں گا۔ جس میں کوئی شکایت نہ ہو نہ کوئی گھبراہٹ ہو۔ کہتے ہیں کہ تین چیزوں کا نام صبر ہے اپنی مصیبت کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔ اپنے دل کا دکھڑا کسی کے سامنے نہ رونا اور ساتھ ہی اپنے نفس کا پاک نہ سمجھا۔

امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اس موقعہ پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ کی پوری حدیث کو بیان کیا ہے جس میں آپ پر تہمت لگائے جانے کا ذکر ہے۔ اس میں آپ نے فرمایا ہے واللہ میری اور تمہاری مثال یوسف علیہ السلام کے باپ کی سی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا اب صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری ان باتوں پر اللہ ہی سے مدد چاہی گئی ہے۔ [صحیح بخاری:2661] ‏‏‏‏
3968



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.