تفسير ابن كثير



سورۃ الرعد

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ[23] سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ[24]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ہمیشگی کے باغات، جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولادوں میں سے جو نیک ہوئے اور فرشتے ہر دروازے میں سے ان پر داخل ہوں گے۔ [23] سلام ہو تم پر اس کے بدلے جو تم نے صبر کیا۔ سو اچھا ہے اس گھر کا انجام۔ [24]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اوﻻدوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے [23] کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا [24]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (یعنی) ہمیشہ رہنے کے باغات جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا اور بیبیوں اور اولاد میں سے جو نیکوکار ہوں گے وہ بھی (بہشت میں جائیں گے) اور فرشتے (بہشت کے) ہر ایک دروازے سے ان کے پاس آئیں گے [23] (اور کہیں گے) تم پر رحمت ہو (یہ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے اور عاقبت کا گھر خوب (گھر) ہے [24]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 23، 24،

بروج و بالا خانے ٭٭

وہ اچھا انجام اور بہترین گھر جنت ہے جو ہمیشگی والی اور پائیدار ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جنت کے ایک محل کا نام عدن ہے جس میں بروج اور بالاخانے ہیں جس کے پانچ ہزار دروازے ہیں، ہر دروازے پر پانچ ہزار فرشتے ہیں۔ وہ محل مخصوص ہے نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے لیے۔

ضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ جنت کا شہر ہے جس میں انبیاء ہوں گے شہداء ہوں گے اور ہدایت کے ائمہ ہوں گے۔ ان کے آس پاس اور لوگ ہوں گے اور ان کے اردگرد اور جنتیں ہیں وہاں یہ اپنے اور چہیتوں کو بھی اپنے ساتھ دیکھیں گے۔ ان کے بڑے باپ دادے، ان کے چھوٹے بیٹے پوتے، ان کے جوڑے جو بھی ایماندار اور نیکو کار تھے ان کے پاس ہوں گے اور راحتوں سے مسرور ہوں گے جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی۔

یہاں تک کہ اگر کسی کے عمل اس درجہ بلند تک پہنچنے کے قابل نہ بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درجے بڑھا دے گا جیسے «وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ» [52-الطور:21] ‏‏‏‏ ” جن ایمانداروں کی اولاد ان کی پیروی ایمان میں کرتی ہے ہم انہیں بھی ان کے ساتھ ملا دیتے ہیں ان کے پاس مبارک باد اور سلام کے لیے ہر ہر دروازے سے ہر وقت فرشتے آتے رہتے ہیں یہ بھی اللہ کا انعام ہے تاکہ یہ ہر وقت خوش رہیں اور بشارتیں سنتے رہیں “۔ نبیوں، صدیقوں، شہیدوں کا پڑوس، فرشتوں کا سلام اور جنت الفردوس مقام۔

مسند کی حدیث میں ہے جانتے بھی ہو کہ سب سے پہلے جنت میں کون جائیں گے؟ لوگوں نے کہا اللہ کو علم ہے اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ فرمایا: سب سے پہلے جنتی مساکین مہاجرین ہیں جو دنیا کی لذتوں سے دور تھے جو تکلیفوں میں مبتلا تھے جن کی امنگیں دلوں میں ہی رہ گئیں اور قضاء آگئی۔ رحمت کے فرشتوں کو حکم الٰہی ہوگا کہ ” جاؤ انہیں مبارک باد دو “ فرشتے کہیں گے اللہ ہم تیرے آسمانوں کے رہنے والے تیری بہترین مخلوق ہیں کیا تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم جا کر انہیں سلام کریں اور انہیں مبارک باد پیش کریں جناب باری جواب دے گا ” یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے صرف میری عبادت کی میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا دنیوی راحتوں سے محروم رہے مصیبتوں میں مبتلا رہے کوئی مراد پوری ہونے نہ پائی اور یہ صابر و شاکر رہے “،اب تو فرشتے جلدی جلدی بصد شوق ان کی طرف دوڑیں گے ادھر ادھر کے ہر ایک دروازے سے گھسیں گے اور سلام کر کے مبارک پیش کریں گے ۔ [مسند احمد:168/2:صحیح] ‏‏‏‏

طبرانی میں ہے کہ سب سے پہلے جنت میں جانے والے تین قسم کے لوگ ہیں فقراء مہاجرین جو مصیبتوں میں مبتلا رہے، جب انہیں حکم ملا بجا لاتے رہے، انہیں ضرورتیں بادشاہوں سے ہوتی تھیں لیکن مرتے دم تک پوری نہ ہوئیں۔ جنت کو بروز قیامت اللہ تعالیٰ اپنے سامنے بلائے گا وہ بنی سنوری اپنی تمام نعمتوں اور تازگیوں کے ساتھ حاضر ہوگی اس وقت ندا ہوگی کہ ” میرے وہ بندے جو میری راہ میں جہاد کرتے تھے، میری راہ میں ستائے جاتے تھے، میری راہ میں لڑتے بھڑتے تھے وہ کہاں ہیں؟ آؤ بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں چلے جاؤ “۔ اس وقت فرشتے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے اور عرض کریں گے کہ پروردگار ہم تو صبح شام تیری تسبیح وتقدیس میں لگے رہے یہ کون ہیں جنہیں ہم پر بھی تو نے فضیلت عطا فرمائی؟ اللہ رب العزت فرمائے گا ” یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے میری راہ میں جہاد کیا میری راہ میں تکلیفیں برداشت کیں “۔ اب تو فرشتے جلدی کر کے ان کے پاس ہر ایک دروازے سے جا پہنچیں گے سلام کریں گے اور مبارک بادیاں پیش کریں گے کہ تمہیں تمہارے صبر کا بدلہ کتنا اچھا ملا ۔ [مسند احمد:168/2:صحیح] ‏‏‏‏
4149

ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مومن جنت میں اپنے تخت پر با آرام نہایت شان سے تکیہ لگائے بیٹھا ہوا ہوگا خادموں کی قطاریں ادھر ادھر کھڑی ہوں گی جو دروازے والے خادم سے فرشتہ اجازت مانگے گا وہ یکے بعد دیگرے پوچھے گا یہاں تک کہ مومن سے پوچھا جائے گا۔ مومن اجازت دے گا کہ اسے آنے دو یونہی ایک دوسرے کو پیغام پہنچائے گا اور آخری خادم فرشتے کو اجازت دے گا اور دروازہ کھول دے گا۔ وہ آئے گا اور سلام کرے گا اور چلا جائے گا۔‏‏‏‏ [تفسیر ابن جریر الطبری:377/7:] ‏‏‏‏

ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کے آخر پر شہداء کی قبروں پر آتے اور کہتے «سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ» [13-الرعد:24] ‏‏‏‏ اور اسی طرح ابوبکر عمر عثمان بھی رضی اللہ عنہم بھی ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:20344:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏اس کی سند ٹھیک نہیں)‏‏‏‏‏‏‏‏۔
4150



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.