تفسير ابن كثير



سورۃ إبراهيم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ[5]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور بلاشبہ یقینا ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال اور انھیں اللہ کے دن یاد دلا، بلاشبہ اس میں ہر ایسے شخص کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو بہت صبر کرنے والا، بہت شکر کرنے والا ہے۔ [5]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] (یاد رکھو جب کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال اور انہیں اللہ کے احسانات یاد دﻻ۔ اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک صبر شکر کرنے والے کے لئے [5]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ۔ اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ اس میں ان لوگوں کے لیے جو صابر وشاکر ہیں (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں [5]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 5،

نو نشانیاں ٭٭

” جیسے ہم نے تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور تجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے کہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے، اسی طرح ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تھا بہت سی نشانیاں بھی دی تھیں “، جن کا بیان آیت «وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا» [17-الإسراء:101] ‏‏‏‏ میں ہے۔

انہیں بھی یہی حکم تھا کہ ” لوگوں کو نیکیوں کی دعوت دے انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں اور جہالت و ضلالت سے ہٹا کر علم و ہدایت کی طرف لے آ۔ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلا، کہ اللہ نے انہیں فرعون جیسے ظالم و جابر بادشاہ کی غلامی سے آزاد کیا ان کے لیے دریا کو کھڑا کر دیا ان پر ابر کا سایہ کر دیا ان پر من و سلوی اتارا اور بھی بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں “۔

مسند کی مرفوع حدیث میں «بِأَيَّامِ اللَّهِ» کی تفسیر اللہ کی نعمتوں سے مروی ہے۔ [مسند احمد:122/5:حدیث صحیح و اسنادہ ضیعف] ‏‏‏‏ لیکن ابن جریر رحمہ اللہ میں یہ روایت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہی سے موقوفاً بھی آئی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے۔ ہم نے اپنے بندوں بنی اسرائیل کے ساتھ جو احسان کئے فرعون سے نجات دلوانا، اس کے ذلیل عذابوں سے چھڑوانا، اس میں ہر صابر و شاکر کے لیے عبرت ہے۔ جو مصیبت میں صبر کرے اور راحت میں شکر کرے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:418/7] ‏‏‏‏

صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن کا تمام کام عجیب ہے اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے وہی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے راحت و آرام ملے شکر کرتا ہے اس کا انجام بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے ۔ [صحیح مسلم:2999] ‏‏‏‏
4191



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.