تفسير ابن كثير



سورۃ إبراهيم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ[35] رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ[36]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ [35] اے میرے رب! بے شک انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا، پھر جو میرے پیچھے چلا تو یقینا وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو یقینا توُ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ [36]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] (ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن واﻻ بنادے، اور مجھے اور میری اوﻻد کو بت پرستی سے پناه دے۔ [35] اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راه سے بھٹکا دیا ہے۔ پس میری تابعداری کرنے واﻻ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بہت ہی معاف اور کرم کرنے واﻻ ہے۔ [36]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ میرے پروردگار اس شہر کو (لوگوں کے لیے) امن کی جگہ بنا دے۔ اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھ [35] اے پروردگار انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ سو جس شخص نے میرا کہا مانا وہ میرا ہے۔ اور جس نے میری نافرمانی کی تو تُو بخشنے والا مہربان ہے [36]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 35، 36،

حرمت وعظمت کا مالک شہر ٭٭

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ” حرمت والا شہر مکہ ابتداء میں اللہ کی توحید پر ہی بنایا گیا تھا۔ اس کے اول بانی خلیل اللہ علیہ السلام اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرنے والوں سے بری تھے۔ انہی نے اس شہر کے با امن ہونے کی دعا کی تھی۔ جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی “۔

«أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ» [29-العنکبوت:67] ‏‏‏‏۔ «إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ» «فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا» [3-آل عمران:96-97] ‏‏‏‏ ” سب سے پہلا با برکت اور با ہدایت اللہ کا گھر مکے شریف کا ہی ہے، جس میں بہت سی واضح نشانیوں کے علاوہ مقام ابراہیم بھی ہے۔ اس شہر میں جو پہنچ گیا، امن و امان میں آ گیا “۔

اس شہر کو بنانے کے بعد خلیل اللہ نے دعا کی کہ اے اللہ اس شہر کو پر امن بنا۔‏‏‏‏ اسی لیے فرمایا کہ «الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ» [14-ابراھیم:39] ‏‏‏‏ ” اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق جیسے بچے عطا فرمائے “۔

اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پیتا اس کی والدہ کے ساتھ لے کر یہاں آئے تھے تب بھی آپ علیہ السلام نے اس شہر کے با امن ہونے کی دعا کی تھی لیکن اس وقت کے الفاظ یہ تھے «رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا» [2-البقرة:126] ‏‏‏‏۔ پس اس دعا میں «بَلَدَ» پر لام نہیں ہے، اس لیے کہ یہ دعا شہر کی آبادی سے پہلے کی ہے اور اب چونکہ شہر بس چکا تھا۔ «بلد» کو معرف بلام لائے۔ سورۃ البقرہ میں ہم ان چیزوں کو وضاحت و تفصیل کے ساتھ ذکر کر آئے ہیں۔

پھر دوسری دعا میں اپنی اولاد کو بھی شریک کیا۔ انسان کو لازم ہے کہ اپنی دعاؤں میں اپنے ماں باپ کو اور اولاد کو بھی شامل رکھے۔ پھر آپ علیہ السلام نے بتوں کی گمراہی ان کا فتنہ اکثر لوگوں کا بہکا جانا بیان فرما کر ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور انہیں اللہ کے حوالے کیا کہ وہ چاہے بخشے، چاہے سزا دے۔ جیسے روح اللہ علیہ السلام بروز قیامت کہیں گے کیا اگر تو انہیں عذاب کرے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے۔

یہ یاد رہے کہ اس میں صرف اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے کی طرف لوٹنا ہے نہ کہ اس کے واقع ہونے کو جائز سمجھنا ہے۔

حضور علیہ السلام نے خلیل اللہ کا یہ قول اور روح اللہ کا قول آیت «اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ» [5-المائدة:118] ‏‏‏‏، تلاوت کر کے رو رو کر اپنی امت کو یاد کیا تو اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ جا کر دریافت کرو کہ کیوں رو رہے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب بیان کیا حکم ہوا کہ جاؤ اور کہہ دو کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے ناراض نہ کریں گے۔ [صحیح مسلم:202] ‏‏‏‏
4251



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.