تفسير ابن كثير



سورۃ الحجر

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ[51] إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ[52] قَالُوا لَا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ[53] قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ[54] قَالُوا بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْقَانِطِينَ[55] قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ[56]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور انھیں ابراہیم کے مہمانوں کے بارے میں خبر دے۔ [51] جب وہ اس کے پاس داخل ہوئے تو انھوں نے سلام کہا، اس نے کہا ہم تو تم سے ڈرنے والے ہیں۔ [52] انھوں نے کہا ڈر نہیں، بے شک ہم تجھے ایک بہت علم والے لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں۔ [53] اس نے کہا کیا تم نے مجھے اس کے باوجودخوشخبری دی ہے کہ مجھے بڑھاپا آپہنچا ہے، تو تم کس بات کی خوشخبری دیتے ہو؟ [54] انھوں نے کہا ہم نے تجھے حق کی خوشخبری دی ہے، سو تو نا امید ہونے والوں سے نہ ہو۔ [55] اس نے کہا اور گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے۔ [56]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا (بھی) حال سنا دو [51] کہ جب انہوں نے ان کے پاس آکر سلام کہا تو انہوں نے کہا کہ ہم کو تو تم سے ڈر لگتا ہے [52] انہوں نے کہا ڈرو نہیں، ہم تجھے ایک صاحب علم فرزند کی بشارت دیتے ہیں [53] کہا، کیا اس بڑھاپے کے آجانے کے بعد تم مجھے خوشخبری دیتے ہو! یہ خوشخبری تم کیسے دے رہے ہو؟ [54] انہوں نے کہا ہم آپ کو بالکل سچی خوشخبری سناتے ہیں آپ مایوس لوگوں میں شامل نہ ہوں [55] کہا اپنے رب تعالیٰ کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراه اور بہکے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں [56]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ان کو ابراہیم کے مہمانوں کا احوال سنادو [51] جب وہ ابراہیم کے پاس آئے تو سلام کہا۔ (انہوں نے) کہا کہ ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے [52] (مہمانوں نے) کہا کہ ڈریئے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں [53] بولے کہ جب مجھے بڑھاپے نے آ پکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے۔ اب کاہے کی خوشخبری دیتے ہو [54] (انہوں نے) کہا ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں آپ مایوس نہ ہوئیے [55] (ابراہیم نے) کہا کہ خدا کی رحمت سے (میں مایوس کیوں ہونے لگا اس سے) مایوس ہونا گمراہوں کا کام ہے [56]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 51، 52، 53، 54، 55، 56،

فرشتے بصورت انسان ٭٭

لفظ «ضَیْف» واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے۔ جیسے «زور» اور «سفر» ۔ یہ فرشتے تھے جو بصورت انسان سلام کر کے خلیل اللہ علیہ السلام کے پاس آئے تھے۔ آپ نے بچھڑا کاٹ کر اس کا گوشت بھون کر ان مہمانوں کے سامنے لا رکھا۔ جب دیکھا کہ وہ ہاتھ نہیں ڈالتے تو ڈر گئے اور کہا کہ ہمیں تو آپ سے ڈر لگنے لگا۔

فرشتوں نے اطمینان دلایا کہ ڈرو نہیں، پھر اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت سنائی۔ جیسے کہ سورۃ ھود میں ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے اپنے اور اپنی بیوی صاحبہ کے بڑھاپے کو سامنے رکھ کر اپنا تعجب دور کرنے اور وعدے کو ثابت کرنے کے لیے پوچھا کہ کیا اس حالت میں ہمارے ہاں بچہ ہو گا؟

فرشتوں نے دوبارہ زور دار الفاظ میں وعدے کو دہرایا اور ناامیدی سے دور رہنے کی تعلیم کی۔ تو آپ علیہ السلام نے اپنے عقیدے کا اظہار کر دیا کہ میں مایوس نہیں ہوں۔ ایمان رکھتا ہوں کہ میرا رب اس سے بھی بڑی باتوں پر قدرت کاملہ رکھتا ہے۔‏‏‏‏
4340



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.