تفسير ابن كثير



سورۃ الحجر

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَجَاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ[67] قَالَ إِنَّ هَؤُلَاءِ ضَيْفِي فَلَا تَفْضَحُونِ[68] وَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ[69] قَالُوا أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعَالَمِينَ[70] قَالَ هَؤُلَاءِ بَنَاتِي إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ[71] لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ[72]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اس شہر کے رہنے والے اس حال میں آئے کہ بہت خوش ہو رہے تھے۔ [67] اس نے کہا یہ لوگ تو میرے مہمان ہیں، سو مجھے ذلیل نہ کرو۔ [68] اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔ [69] انھوں نے کہا اور کیا ہم نے تجھے سارے جہانوں سے منع نہیں کیا۔ [70] اس نے کہا یہ میری بیٹیاں ہیں، اگر تم کرنے والے ہو۔ [71] تیری عمر کی قسم! بے شک وہ یقینا اپنی مدہوشی میں بھٹکے پھرتے تھے۔ [72]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور شہر والے خوشیاں مناتے ہوئے آئے [67] (لوط علیہ السلام نے) کہا یہ لوگ میرے مہمان ہیں تم مجھے رسوا نہ کرو [68] اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو [69] وه بولے کیا ہم نے تجھے دنیا بھر (کی ٹھیکیداری) سے منع نہیں کر رکھا؟ [70] (لوط علیہ السلام نے) کہا اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یہ میری بچیاں موجود ہیں [71] تیری عمر کی قسم! وه تو اپنی بدمستی میں سرگرداں تھے [72]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اہل شہر (لوط کے پاس) خوش خوش (دوڑے) آئے [67] (لوط نے) کہا کہ یہ میرے مہمان ہیں (کہیں ان کے بارے میں) مجھے رسوا نہ کرنا [68] اور خدا سے ڈرو۔ اور میری بےآبروئی نہ کیجو [69] وہ بولے کیا ہم نے تم کو سارے جہان (کی حمایت وطرفداری) سے منع نہیں کیا [70] (انہوں نے) کہا کہ اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یہ میری (قوم کی) لڑکیاں ہیں (ان سے شادی کرلو) [71] (اے محمد) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مدہوش (ہو رہے) تھے [72]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 67، 68، 69، 70، 71، 72،

قوم لوط کی خرمستیاں ٭٭

قوم لوط کو جب معلوم ہوا کہ لوط علیہ السلام کے گھر نوجوان خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ اپنے بد ارادے سے خوشیاں مناتے ہوئے چڑھ دوڑے۔ لوط علیہ السلام نے انہیں سمجھانا شروع کیا کہ اللہ سے ڈرو، میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو۔ اس وقت خود لوط علیہ السلام کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں۔

جیسے کہ سورۃ ہود میں ہے۔ یہاں گو اس کا ذکر بعد میں ہے اور فرشتوں کا ظاہر ہوجانا پہلے ذکر ہوا ہے لیکن اس سے ترتیب مقصود نہیں۔ واؤ ترتیب کے لیے ہوتا بھی نہیں اور خصوصاً ایسی جگہ جہاں اس کے خلاف دلیل موجود ہو۔

آپ علیہ السلام ان سے کہتے ہیں کہ میری آبرو ریزی کے درپے ہو جاؤ۔ لیکن وہ جواب دیتے ہیں کہ جب آپ علیہ السلام کو یہ خیال تھا تو انہیں آپ علیہ السلام نے اپنا مہمان کیوں بنایا؟ ہم تو آپ علیہ السلام کو اس سے منع کر چکے ہیں۔

تب آپ علیہ السلام نے انہیں مزید سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری عورتیں جو میری لڑکیاں ہیں، وہ خواہش پوری کرنے کی چیزیں ہیں نہ کہ یہ۔‏‏‏‏ اس کا پورا بیان نہایت وضاحت کے ساتھ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اس لیے دہرانے کی ضرورت نہیں۔

چونکہ یہ بد لوگ اپنی خرمستی میں تھے اور جو قضاء اور عذاب ان کے سروں پر جھوم رہا تھا اس سے غافل تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر ان کی یہ حالت بیان فرما رہا ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تکریم اور تعظیم ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی جتنی مخلوق پیدا کی ہے ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں۔ اللہ نے آپ کی حیات کے سوا کسی کی حیات کی قسم نہیں کھائی۔‏‏‏‏ «سَکْرَۃ» سے مراد ضلالت و گمراہی ہے، اسی میں وہ کھیل رہے تھے اور تردد میں تھے۔
4356



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.