تفسير ابن كثير



سورۃ الحجر

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ[80] وَآتَيْنَاهُمْ آيَاتِنَا فَكَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ[81] وَكَانُوا يَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا آمِنِينَ[82] فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُصْبِحِينَ[83] فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ[84]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور بلاشبہ یقینا ’’حجر‘‘ والوں نے رسولوں کو جھٹلا دیا۔ [80] اور ہم نے انھیں اپنی نشانیاں دیں تو وہ ان سے منہ پھیرنے والے تھے۔ [81] اور وہ پہاڑوں سے مکان تراشتے تھے، اس حال میں کہ بے خوف تھے۔ [82] پس انھیں صبح ہوتے ہی چیخ نے پکڑ لیا۔ [83] پھر ان کے کسی کام نہ آیا، جو وہ کمایا کرتے تھے۔ [84]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور حِجر والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا [80] اور ہم نے ان کو اپنی نشانیاں بھی عطا فرمائیں (لیکن) تاہم وه ان سے روگردانی ہی کرتے رہے [81] یہ لوگ پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے تھے، بے خوف ہوکر [82] آخر انہیں بھی صبح ہوتے ہوتے چنگھاڑنے آدبوچا [83] پس ان کی کسی تدبیروعمل نے انہیں کوئی فائده نہ دیا [84]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور (وادی) حجر کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی [80] ہم نے ان کو اپنی نشانیاں دیں اور وہ ان سے منہ پھرتے رہے [81] اور وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے تھے (کہ) امن (واطمینان) سے رہیں گے [82] تو چیخ نے ان کو صبح ہوتے ہوتے آپکڑا [83] اور جو کام وہ کرتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے [84]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 80، 81، 82، 83، 84،

آل ثمود کی تباہیاں ٭٭

حجر والوں سے مراد ثمودی ہیں جنہوں نے اپنے نبی صالح علیہ السلام کو جھٹلایا تھا اور ظاہر ہے کہ ایک نبی علیہ السلام کا جھٹلانے والا گویا سب نبیوں کا انکار کرنے والا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ ” انہوں نے نبیوں کو جھٹلایا “۔

ان کے پاس ایسے معجزے پہنچے جن سے صالح علیہ السلام کی سچائی ان پر کھل گئی۔ جیسے کہ ایک سخت پتھر کی چٹان سے اونٹنی کا نکلنا جو ان کے شہروں میں چرتی چگتی تھی اور ایک دن وہ پانی پیتی تھی ایک دن شہروں کے جانور۔ مگر پھر بھی یہ لوگ گردن کش ہی رہے بلکہ اس اونٹنی کو مار ڈالا۔

اس وقت صالح علیہ السلام نے فرمایا «تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ذَٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ» [11-ھود:65] ‏‏‏‏ ” بس اب تین دن کے اندر اندر قہرِ الٰہی نازل ہو گا۔ یہ بالکل سچا وعدہ ہے اور اٹل عذاب ہے “۔

ان لوگوں نے اللہ کی بتلائی ہوئی راہ پر بھی اپنے اندھاپے کو ترجیح دی۔ یہ لوگ صرف اپنی قوت جتانے اور ریاکاری ظاہر کرنے کے واسطے تکبر و تجبر کے طور پر پہاڑوں میں مکان تراشتے تھے۔ کسی خوف کے باعث یا ضرورتاً یہ چیز نہ تھی۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک جاتے ہوئے ان کے مکانوں سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر پر کپڑا ڈال لیا اور سواری کو تیز چلایا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جن پر عذاب الٰہی اترا ہے ان کی بستیوں سے روتے ہوئے گزرو۔ اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل بنا کر چلو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں عذابوں کا شکار تم بھی بن جاؤ ۔ [صحیح بخاری:4419] ‏‏‏‏

آخر ان پر ٹھیک چوتھے دن کی صبح عذاب الٰہی بصورت چنگھاڑ آیا۔ اس وقت ان کی کمائیاں کچھ کام نہ آئیں۔ جن کھیتوں اور پھولوں کی حفاظت کے لیے اور انہیں بڑھانے کے لیے ان لوگوں نے اونٹنی کا پانی پینا نہ پسند کر کے اسے قتل کر دیا وہ آج بے سود ثابت ہوئے اور امر رب اپنا کام کر گیا۔
4369



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.