تفسير ابن كثير



سورۃ البقرة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ[11] أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ[12]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت ڈالو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔ [11] سن لو! یقینا وہی تو فساد ڈالنے والے ہیں اور لیکن وہ نہیں سمجھتے۔ [12]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں [11] خبردار ہو! یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں، لیکن شعور (سمجھ) نہیں رکھتے [12]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں، ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں [11] دیکھو یہ بلاشبہ مفسد ہیں، لیکن خبر نہیں رکھتے [12]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 11، 12،

سینہ زور چور ٭٭

سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ یہ بیان بھی منافقوں سے ہی متعلق ہے ان کا فساد، کفر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی تھی [تفسیر ابن جریر الطبری:288/1] ‏‏‏‏ مطلب یہ ہے کہ زمین میں اللہ کی نافرمانی کرنا یا نافرمانی کا حکم دینا زمین میں فساد کرنا ہے اور زمین و آسمان میں اصلاح سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:50/1] ‏‏‏‏ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہیں جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت و اصلاح پر ہیں۔
122

سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس خصلت کے لوگ اب تک نہیں آئے۔ مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ بدخصلت لوگ تھے تو سہی لیکن اب جو آئیں گے وہ ان سے بھی بدتر ہوں گے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وصف کا کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا ہی نہیں۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان منافقوں کا فساد برپا کرنا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے تھے جس کام سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا تھا، اسے کرتے تھے۔ فرائض ربانی ضائع کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے سچے دین میں شک و شبہ کرتے تھے۔ اس کی حقیقت اور صداقت پر یقین کامل نہیں رکھتے تھے۔ مومنوں کے پاس آ کر اپنی ایمانداری کی ڈینگیں مارتے تھے حالانکہ دل میں طرح طرح کے وسوسے ہوتے تھے موقع پا کر اللہ کے دشمنوں کی امداد و اعانت کرتے تھے اور اللہ کے نیک بندوں کے مقابلہ میں ان کی پاسداری کرتے تھے اور باوجود اس مکاری اور مفسدانہ چلن کے اپنے آپ کو مصلح اور صلح کل کے حامی جانتے تھے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:20/1] ‏‏‏‏
123

قرآن کریم نے کفار سے موالات اور دوستی رکھنے کو بھی زمین میں فساد ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: «وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ» [8-الأنفال:73] ‏‏‏‏ یعنی ”کفار آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم ایسا نہ کرو گے یعنی آپس میں دوستی نہ کرو گے تو اس زمین میں بھاری فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا“، اس آیت نے مسلمان اور کفار کے دوستانہ تعلقات منقطع کر دئیے اور جگہ فرمایا: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّـهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُبِينًا» [4-النساء:144] ‏‏‏‏ یعنی ”اے ایمان والو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی تم پر کھلی حجت ہو جائے“ یعنی تمہاری دلیل نجات کٹ جائے، پھر فرمایا: «إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا» [4-النساء:145] ‏‏‏‏ یعنی ”منافق لوگ تو جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے اور ہرگز تم ان کے لیے کوئی مددگار نہ پاؤ گے“۔

چونکہ منافقوں کا ظاہر اچھا ہوتا ہے، اس لیے مسلمانوں سے حقیقت پوشیدہ رہ جاتی ہے وہ ایمانداروں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دے دیتے ہیں اور ان کے بےحقیقت کلمات اور کفار سے پوشیدہ دوستیوں سے مسلمانوں کو خطرناک مصائب جھیلنے پڑتے ہیں پس بانی فساد یہ منافقین ہوئے۔ اگر یہ اپنے کفر پر ہی رہتے تو ان کی خوفناک سازشوں اور گہری چالوں سے مسلمانوں کو اتنا نقصان ہرگز نہ پہنچتا اور اگر پورے مسلمان ہو جاتے اور ظاہر باطن یکساں کر لیتے تب تو دنیا کے امن و امان کے ساتھ آخرت کی نجات و فلاح بھی پا لیتے باوجود اس خطرناک پالیسی کے جب انہیں یکسوئی کی نصیحت کی جاتی تو جھٹ کہ اٹھتے کہ ہم تو صلح کن ہیں، ہم کسی سے بگاڑنا نہیں چاہتے، ہم فریقین کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ وہ کہتے تھے ہم ان دونوں جماعتوں یعنی مومنوں اور اہل کتاب کے درمیان صلح کرانے والے ہیں [تفسیر ابن ابی حاتم:52/1] ‏‏‏‏ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کی نری جہالت ہے جسے یہ صلح سمجھتے ہیں وہ عین فساد ہے لیکن انہیں شعور ہی نہیں۔
124



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.